جے آئی ٹی رپورٹ پر پی ٹی آئی کوعوامی سپورٹ کی توقعات

پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ نے پورے ملک کی طرح گوجرانوالہ کی سیاست میں بھی ایک بھونچال سا برپا کردیاہے ۔اس رپورٹ کے نتیجہ میں آنے والے سیاسی زلزلہ نے مسلم لیگ (ن) کی مضبوط بنیادوں کو ہلانے کے ساتھ ساتھ پارٹی ورکروں اور عہدیداروں میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے۔

جمعہ 28 جولائی 2017

JIT Report Par PTI Ko Awami Sport Ki Tawakat
فرحان راشد میر:
پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ نے پورے ملک کی طرح گوجرانوالہ کی سیاست میں بھی ایک بھونچال سا برپا کردیاہے ۔اس رپورٹ کے نتیجہ میں آنے والے سیاسی زلزلہ نے مسلم لیگ (ن) کی مضبوط بنیادوں کو ہلانے کے ساتھ ساتھ پارٹی ورکروں اور عہدیداروں میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے۔

مقامی قائدین نے تو جے آئی ٹی رپورٹ پر نپے تلے انداز میں بیان بازی کی جبکہ یوتھ ونگ اور سرگرم کارکنوں کی جانب سے میاں برادران کے حق میں جذباتی بیان بازی کا سلسلہ دیکھنے میں آرہا ہے۔جس دن جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آئی حیران کن طور پر گوجرانوالہ کے بڑے مسلم لیگی گھرانے سمیت اکثر مقامی ممبران اسمبلی نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی سوائے ایم پی اے توفیق بٹ اورعمران خالد بٹ کے،کہیںاورسے کوئی بیان جاری نہ ہوسکا لیکن قائدین کی کمی یوتھ ونگ نے پوری کردی جب سٹی صدر شعیب بٹ نے اپنے بیان میں واضح طورپرکہا کہ کارکن اپنے قائد نواز شریف کی کال کے منتظر ہیں ہم ہر قسم کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں چند ایک یونین کونسل چیئرمینوں اور مسلم لیگی عہدیداران کی طرف سے بھی جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف جذبات کا اظہار کیا گیاہے۔گوجرانوالہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے پچھلے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے کلین سویپ کیاتھا۔ چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی پورے پنجاب کی طرح گوجرانوالہ میں بھی انتہائی کمزور ہو چکی ہے اس لئے گوجرانوالہ میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی متوقع ہے اورآئندہ جنرل الیکشن2018 کے پیش نظر پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے اس قلعہ کو فتح کرنے کے لئے ابھی سے حکمت عملی تیار کرنی شروع کردی اس کے لئے پی ٹی آئی قیادت مضبوط ترین امیدواروں کے انتخاب پر غور و فکر کررہی ہے۔

اب جے آئی ٹی رپورٹ کے منظر عام آنے کے بعد یقیناً پی ٹی آئی کو مزیدعوامی سپورٹ حاصل ہونے کی توقع ہے اور اگر (ن) لیگ جے آئی ٹی رپورٹ کی وجہ سے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے میں کامیاب نہ ہوئی تو پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کے مضبوط قلعہ میں شب خون مارنے میں کامیاب ہوسکتی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت جے آئی ٹی رپورٹ کے طوفان میں ہچکولے کھاتے لیگی بیڑے کے چندسواروں کو محفوظ کناروں تک پہنچانے کیلئے اپنی کشتی میں سوار کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے۔

گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی کو شدید دھچکا لگا تھا جب سابق وفاقی وزیر امتیاز صفدر وڑائچ پارٹی سے اپنی 21سالہ رفاقت اور وفاداری توڑ کر کپتان کی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اوراب پی پی 95سے سابق ایم پی اے پیپلز پارٹی میاں سعود الحسن ڈار بھی چار سال غلام دستگیر کے گھر کے چکر لگانے کے بعد بلاآخر کپتان کی ٹیم میں جانے کیلئے تیار ہیں مگر انکووالد کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔

سعود ڈار نے گزشتہ الیکشن میں سات ہزار ووٹ لئے تھے۔ اگر سعود ڈار کپتان کی ٹیم میں شامل ہو جاتے ہیں تو انکا مقابلہ مسلم لیگی گھرانے کے مضبوط امیدوار ڈاکٹر سجاد محمود دھاریوال سے ہو گا جنہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے گزشتہ الیکشن میں پندرہ ہزار سے زائدووٹ لئے تھے۔ڈاکٹر سجاد محمود دھاریوال واحد امیدوار ہیں جنکی رہائش گاہ اور آبائی گاوں کوٹلی صابو بھی حلقہ میں ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ انکے بھائی 4 بار ممبر ضلع کونسل بھی راہ چکے ہیں۔

مگر سابق سینیٹر اسلم بھنڈر کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے اچھا کمبی نیشن بن گیا ہے جو آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات پیدا کرے گا۔بڑی خبر یہ بھی ہے کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو کپتان وفاقی وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر خان کے مقابلے میں اتارنے کے لئے مشورے کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ سابق دور میں بزرگ سیاستدان خان غلام دستگیر خان کا ارائیں برادری کے امیدوار سابق وفاقی وزیر حاجی امان اللہ سے مقابلہ رہا ہے اور پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ چوہدری سرور کے آرائیں برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے شاید اس حلقے کے رزلٹ میں کوئی تبدیلی لائی جاسکے مگر صدر الراعی برادری گوجرانوالہ حاجی محمدانور نے چند دن قبل ایک ڈنر میں حامد ناصر چٹھہ کی موجودگی میں چوہدری محمد صدیق کو این اے 96 کا امیدوار نامزد کیا۔

جبکہ اسی حلقے سے سابق ایم پی اے ایس اے حمید بھی پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑ چکے ہیں اور اپنے تئیں ٹکٹ کے حصول کیلئے پر امید نظر آتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چوہدری محمد سرور اپنی مرضی کے پینل کے ساتھ الیکشن لڑناچاہتے ہیں جن میں پی پی 94 سے شیخ برادری سے تعلق رکھنے والے حافظ عامر رحمن کا نام بھی زیر بحث ہے عامر رحمن پیشے کے اعتبار سے صنعتکار ہیں۔

گزشتہ الیکشن میں کشمیر ی برادری سے تعلق رکھنے والے خالد عزیز لون نے 16 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ پی پی 93 میں سابق ایم پی اے طارق گجر کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف لائیرز ونگ کے صدر بیرسٹر وقاص فاروق انصاری بھی متوقع امیدوار ہوسکتے ہیں۔ بیرسٹر وقاص فاروق انصاری فاروق عالم انصاری کے صاحبزادے اور عثمان ابراہیم کے قریبی عزیز ہیں اورانصاری برادری میں ان کا اثر ورسوخ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے اشرف انصاری کوبھی فاروق عالم انصاری بیوروچیف نوائے وقت مرحوم اعجاز میر کی وساطت سے خان غلام دستگیر خان کے یہاں لے کر گئے تھے اور بعد ازاں وہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ بہرحال موجودہ ملکی حالات نے مقامی سیاست پر بھی لازمی اثرات مرتب کرنا ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف کوئی عدالتی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یقیناً اس پررپورٹ سے ہونے والے اثرات کو زائل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے گی لیکن اگر حالات سدھرنے کی بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوئے اوراعلیٰ عدالتوں سے مسلم لیگ (ن) کو من چاہا انصاف نہ ملا توآئندہ الیکشن میں اس کے اثرات ظاہر ہونے کا قوی خدشہ موجود رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

JIT Report Par PTI Ko Awami Sport Ki Tawakat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.