کراچی کی سیاست اور سیاسی اٹکھیلیاں

پاکستان کی سیاست کروٹیں نہیں لے رہی بلکہ پلسیٹے مار رہی ہے۔ ہماری سیاست کی عموماًکبھی کوئی کَل سیدھی نہیں رہی اب تو سیاست بے سمت ہوچکی اور بڑی سپیڈ سے ایک بار پھر ڈی ریل ہوتی نظر آ تی ہے۔

منگل 14 نومبر 2017

Karachi Ki Siyasat Aur Siyasi Atkhailian
مطلوب وڑائچ:
پاکستان کی سیاست کروٹیں نہیں لے رہی بلکہ پلسیٹے مار رہی ہے۔ ہماری سیاست کی عموماًکبھی کوئی کَل سیدھی نہیں رہی اب تو سیاست بے سمت ہوچکی اور بڑی سپیڈ سے ایک بار پھر ڈی ریل ہوتی نظر آ تی ہے۔ اگر اب بھی یہ پٹڑی پر صحیح سلامت سفر جاری رکھتی ہے تو توکوئی کرامت اور معجزہ ہی ہوسکتا ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام اقتداراور جو جمہوریت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں وہی نہیں چاہتے کہ جمہوریت رواں دواں رہے۔

ایسے حالات میں جمہوریت کا ڈیل ریل نہ ہونا کیا کسی معجزے کم ہو سکتا ہے؟قارئین ! گذشتہ چند روز سے کراچی کی سیاست لڈوکے کھیل کی طرح کئی سیاسی طالع آزماؤں کو ڈس چکی ہے۔ پی ایس پی اور متحدہ پاکستان دونوں پارٹیاں ہی اپنی سیاسی سروائیول کے لیے کوشاں ہیں مگر ان کا داغ داغ ماضی کسی بھی لانڈرنگ مشین میں ان کے داغ دھونے کے قابل نہیں۔

(جاری ہے)

انیس قائم خانی سے لے کر بابر غوری ،راؤ صدیقی، حیدر رضوی، فاروق ستار اور خود مصطفی کمال اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔

اور یہی وجہ کہ جب ملک میں ایک طرف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ملک کی جڑوں سے یہ گند نکالنے میں مصروف ہے تو کراچی میں ایک بے وقت کی راگنی گا کر بائیس کروڑ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن صوفیائے کرام کے کرم کی وجہ سے یہ ملک معرضِ وجود میں آیا اور اسی وجہ سے اس کے خلاف ہونے والی ہر سازش ہمیشہ ناکام ہوئی۔مگر کچھ لوگ فوج کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں کہ موجودہ سیاسی بحران میں فوج کوئی کردار ادا کرے۔

فوج کی طرف حکومت مخالف وہ لوگ بھی دیکھ رہے ہیں جن کی آمریت میں چاندی ہو جاتی ہے۔ اب تو ایک بنی بنائی پارٹی بھی موجود ہے جومشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے کا بار بار اعلان کرتی رہی۔ اگر کوئی طالع آزمائی پر آمادہ ہوتا ہے تو اسے رینٹ اے پارٹی کی خدمات سرِدست دستیاب ہوں گی۔ فوج کی طرف خود زمامِ اقتدار تھامے ہوئے لوگ بھی دیکھ رہے ہیں جن کو سیاسی شہید بننے کے سوا اپنی سیاسی بقا کا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا۔

فوج کی طرف وہ لوگ بھی دیکھ رہے ہیں جو بے لاگ اور کڑا احتساب چاہتے ہیں۔ چند خاندان ملک کے وسائل بے دردی سے لوٹ کر لے گئے، دو تین بڑے خاندانوں کے بیرون ممالک اثاثوں کی مالیت تین سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ سٹوڈیو میں بستر پر پڑے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کئی بار کہا کہ پاکستانیوں کے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ناجائز ذرائع سے ٹرانسفر کیے ہوئے دو سو ارب ڈالر موجود ہیں۔

انہوں نے نہ صرف اتنی خطیر رقم کی سوئس بینکوں میں موجودگی کا کھوج لگایا اور نشاندہی کی بلکہ قوم کو خوش خبری بھی سنائی کہ یہ رقم پاکستان لائی جائے گی۔ دو سو ارب ڈالر اگر پاکستان آ جائیں تو اندازہ کریں کے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 18ارب ڈالر ہیں۔ یہ ذخائر 218ارب ڈالر ہو گئے تو ترقی و خوشحالی کے عروج کیاہوگا۔اب جمہوریت تو جیسے تیسے رواں ہے مگر حکمران خاندان کی سیاست آئی سی یو میں ہے، سیاسی افراتفری کا شکار ہے، وزرا بے تاب اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔

سب کی دوڑ لگی ہے اور جس کے ہتھے جو چڑھ رہا ہے لے کے رفوچکر ہونے کے چکروں میں ہے۔ بعید نہیں اس ماحول میں سوئس اکاؤنٹس میں پاکستانیوں کے دو سو ارب کا وہی مستقبل نہ ہو جو آصف علی زرداری کے0 6ملین ڈالر کا ہوا تھا۔ آصف زرداری نے پہلے اس رقم کی ملکیت سے انکار کیا پھر ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے کا حکم دے کر بلی چڑھا دیا اور پھر یہ رقم نکلوا بھی لی۔

یہ وہی صاحب ہیں جو آج مسلم لیگ کی قیادت کی کرپشن پر گرج برس رہے ہیں مگر قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی اور اپنی دانست میں بنا بھی چکے ہیں۔ سرے محل کی ملکیت سے صریح انکار کیا مگر حالات سازگار دیکھتے ہی اس کی ملکیت کا دعویٰ کرکے اسے فروخت بھی کر دیا۔ ایسا کھلا دغا اور فریب کبھی آسمان نے بھی نہیں سنا اور دیکھا ہوگا۔ (راقم ان کیسز میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا انچارج تھا)آج اقتدار کو ہاتھ سے پھسلتا دیکھتے ہوئے حکمران جاتے جاتے سوئس اکاؤنٹس میں پڑے 200ارب ڈالر بھی اپنے اکاؤنٹس میں نہ ٹرانسفر کر لیں؟ اللہ اسحق ڈار کو صحت دے وہ پاکستان تو شاید میاں نوازشریف کی نااہلیت، اہلیت میں بدلنے تک نہ آئیں جبکہ وزارت خزانہ کے منصب سے وہ الگ نہیں ہونا چاہتے۔

وزارت ان کے لیے وہ طوطا ہے جس میں ان کی جان ہے۔ ان کے خیرخواہ کہتے ہیں کہ وزارت خزانہ ڈار صاحب کے لیے طوطا نہیں سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے۔ اس مرغی کو شاید وہ لندن ساتھ لے گئے ہیں۔ وہ جہاں رہیں خوش رہیں۔ قوم پر احسان کر دیں کہ سوئس اکاؤنٹس میں پڑے 2سوارب ڈالر پاکستان لے آئیں۔ ویسے تو تین چار خاندان جن کے بیرون ممالک جائز اور ناجائز اثاثوں کی ملکیت 6سو ارب ڈالر ہے وہ یہ رقم قوم کے نام ہرگز نہ کریں صرف پاکستان میں بینکوں میں لا کر اپنے نام پر رکھ دیں تو بھی پاکستان کی قسمت سنور سکتی ہے۔

آخر زندگی طویل ہی کتنی ہے۔ ہمارے قائد کی بیٹی دیناواڈیا 98سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ انسان نے آخر کتنا زندہ رہ لینا ہے سو سال تک، اس سے زیادہ مشکل ہے۔100 سال کی زندگی کے لئے سامان پانچ ہزار سال کا، پاکستان پیسہ لائیں گے تو کسی کو پیٹ بھر کر روٹی نصیب ہو جائے گی، کسی کو صاف پانی پینے کو میسر ہوگا۔ کوئی دوا کے گھاٹے موت کے منہ میں جانے سے بچ جائے گا۔

کسی کی بیٹی کے بالوں میں چاندی سے قبل اس کے ہاتھ پیلے ہو جائیں گے جبکہ آپ کا کچھ بھی نہیں جائے گا صرف بینک سے بینک پیسہ ٹرانسفر ہوگا ۔ مگر ایسا کرنے کے لیے انسان کے اندر ضمیر نام کی کوئی چیز، دل میں انسانیت کا درد اور دماغ میں دوسروں کا احساس ہوتا ہے۔ چلیں پیسے پاکستان میں ایسے نہیں آئے تو ویسے سہی جیسے اب آنے کی یقین کی حد تک امید ہے۔

احتساب ہو رہا ہے جن کا ہو رہا ہے وہ چیخ رہے ہیں جن کی باری آنے والی ہے وہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں مگر کھریاں مارنے سے بکرا اپنے انجام سے نہیں بچ سکتا۔الطاف پر کڑاوقت آیا تو اس نے اشتعال میں آ کربھارت کو مدد کے لیے پکارا یہ غدار بے نقاب ہو گیا۔ اسی الطاف سے آج احتساب کے شکنجے میں آئے لوگ ملاقاتیں اور صلاح مشورے کر رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ الطاف کے علاوہ لوگوں کے بھی تعلقات ہیں وہ بھی الطاف کی طرح خود کو ایکسپوز کر دیں گے۔

الطاف کی عیاری و مکاری اپنی جگہ مگر وہ سیاست میں گرو کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈرامہ بازی اس پر ختم ہے۔ اس نے پاکستان کے خلاف نشے میں ہذیان بکا۔ ہوش میں آنے پر سودوزیاں کا حساب کیا تو خود کو غداری کی منزل پر پایا۔ حالات کے سازگار ہونے تک ڈرامہ سے ایم کیو ایم لندن اور پاکستان بنا دی۔ ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار اپنے قائد کی ہدایات پر چلا رہے ہیں۔

الطاف سے علیحدگی ڈرامہ بازی تھی جس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی سے اتحاد کر لیا، یہ کمال کو اپنے زیر اثر لانا چاہتے تھے مگر مصطفی کمال نے بھری محفل میں الطاف کے چمچوں کی موجودگی میں اسے تبریٰ کیا تو وہ برداشت نہ کر سکا اس لئے اتحاد 8 گھنٹے میں فساد میں بدل گیا۔ بعید نہیں یہ بھی کوئی چالاکی ہو اور کل مصطفی کمال بھی انہی کا مہرہ ثابت ہو؟لیکن اب تک کی مصطفی کمال کی کارکردگی یہ بتاتی ہے کہ اس میں دوسروں کی نسبت ابھی انسانیت باقی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Karachi Ki Siyasat Aur Siyasi Atkhailian is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 November 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.