کراچی آپریشن کا اگلامرحلہ

سرکاری دفاتر میں سیاسی دفاتر کی بندش کافیصلہ کارکنوں کو ” نوازنے“ کاآغاز کس نے کیا، گھوسٹ ملازمین کامحاسبہ کب اور کیسے ہوگا

جمعرات 14 جولائی 2016

Karachi Operation Ka Agla Marhala
سالک مجید:
کراچی آپریشن کو مزید نتیجہ خیز بنانے کے لئے اب فیصلہ کیاگیا ہے کہ سرکاری دفاتر سے سیاسی تنظیموں کی سرگرمیاں کم کرائی جائیں اوروہاں قائم سیاسی دفاتر بند کئے جائیں جو سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کی بجائے کسی سیاسی تنظیم کے دفاتر میں ڈیوٹیاں دے رہے ہیں ان کو بھی ملازمت سے فارغ کیا جائے۔

اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے اعلیٰ سطح پر غور وغوض کے بعد کارروائی کی اجازت دے رکھی ہے جس کی روشنی میں اب سرکاری اداروں کے درمیان خط وکتاب سامنے آگئی ہے رینجرز نے اقدام اٹھایا ہے اور اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ نیشنل بنک کو بھی تفصیلات سے آگاہ کردیاگیا ہے یقینی طور پر دیگر اداروں کو بھی متحرک کیاجائے گا بظاہر ایسے تمام سرکاری دفاتر کی ورکنگ بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی جہاں سیاسی تنظیموں سے وابستہ افراد ے اپنا ہولڈ بنارکھا ہے اور وہ افسران اور انتظامیہ کو بلیک میل کرتے ہیں اور سرکاری وسائل کو خلاف قانون سیاسی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیاجاتا ہے اب اس سلسلے کو روکا جائے گا اس طرح سیاسی ڈیوٹیاں دینے والوں کو سرکاری دفاتر میں حاضری یقینی بنانے کا موقع دیاجائے گا جو لوگ آجائیں گے ان کی نوکریاں بچ جائیں گی جو ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوں گے ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور قانون کے مطابق ان کی تنخواہیں روک کران کو بالآخرملازمت سے فارغ کرنے کاراستہ اختیار کیاجائے گا۔

(جاری ہے)

اگر یہ عمل بلاتفریق سب سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والوں کے خلاف کیاجائے (جس کی اشد ضرورت بھی ہے) یویقینی طور پر تمام شہری اس کی حمایت کریں گے اور اسے قومی مفاد میں ایک درست فیصلہ قراردیا جائیگا لیکن یہ اقدام اگر صرف ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کے خلاف کیاجاتا ہے تو اس پر سواالات اٹھ سکتے ہیں۔ پھر اسے لسانی یہی تاثرمل رہاہے کہ صرف ایم کیوایم کو نشانہ بنایاجارہاہے الطاف حسین کو تنہا کرنے کے لئے متحدہ کے سیاسی کارکنوں کے گردگھیراتنگ کیاجارہا ہے تاکہ انہوں نے سیاسی بنیادوں پر مختلف اداروں میں جونوکریاں حاصل کررکھی ہیں وہاں سے ان کو فارغ کیاجائے یاان کے ہمدرد جو سرکاری دفاتر میں بیٹھ کر سیاسی دفاتر چلارہے ہیں ان کو ایسا کرنے سے روکا جائے۔

اب بحث ہورہی ہے کہ یہ لسٹیں کون تیارکررہاہے اور کون یہ لسٹیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کررہاہے۔ ایم کیوایم کے حلقوں میں عام تاثر ہے کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی گروپ یہ کام کرسکتا ہے کیونکہ مصطفی کمال تو خود سرکاری ملازمت کرتے تھے لیکن ڈیوٹی نائن زیروپردیتے تھے وہ سب طریقہ کار اور سیٹ اپ بخوبی جانتے ہیں وہ خودسٹی ناظم رہے ہیں انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ سی گورنمنٹ کے کس کس ادارے اور شعبے میں کتنے سیاسی لوگوں کو نوکریاں دی گئی تھی اور کتنے لوگوں کو نائن زیرو کے کہنے پر نوکریاں دی گئی تھیں اور وہ لوگ اصل میں کیا کام کرتے ہیں، اس تناظر میں دیکھا جائے تو تازہ اقدام بظاہر قانون کی بالادستی کے لئے نظر آتا ہے لیکن بحث یہ ہو رہی ہے کہ درحقیقت اس کامقصد ایم کیو ایم کو مزید نقصان پہنچایا اور پاک سرزمین پارٹی کو فائدہ پہنچایا ہے پاک سرزمین پارٹی پر پہلے شہر میں یہ الزام لگ چکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کی مدد کررہی ہے اب جو لوگ سرکاری ملازمت بچانا چاہتے ہیں ان کے پاس موقع ہوگا کہ وہ ایم کیو ایم کو خیر باد کہہ کر پاک سرزمین پارٹی کو اپنی حمایت اور شمولیت کایقین دلا دیں یااعلان کردیں۔

اب تک شہر میں یہ تاثر قائم ہوچکا ہے کہ اگر پاک سرزمین پارٹی میں چلے جاؤ گے تو کم ازکم ” راکے ایجنٹ“ کہلانے سے بچ جاؤ گے اور پچھلے گناہ ” ضمیر جاگنے“ کے لیبل کی وجہ سے دھل جائیں گے۔ پرانے مقدمات اور ” جے آئی ٹی“ میں نام بھی بھلادیا جائے گا۔ اگر زیادہ شور مچ گیا تو عدالتوں سے رجوع کرلینا وہاں سے بھی ریلیف کاراستہ موجود ہے سرکاری وکیل اور ادارے بھی ہاتھ ہلکا رکھیں گے اس طرح اک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوجائیگا” پاکستانی پرچم“ کے سائے تلے ہوگا۔

سیاسی کارکنوں کو نوکریاں دینے کاآغاز کس نے کیا تھا۔ کوسی سیاسی جماعت اس معاملے میں ہمیشہ سب سے آگے رہی ہے اور پھر صرف سیاسی جماعت ہی کیوں؟ کیا مارشل لاء کے دور میں من پسند لوگوں کو سرکاری نوکریوں اور وظائف اور فنڈز سے نہیں نوازاجاتا رہا۔ ان لوگوں کی بھرتیاں کس نے کیں۔ کیسے کہیں کیا ان کا کوئی محاسبہ کرسکتا ہے۔ سیاسی لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینا تو ایک طرف لوگوں کو جہاد پر بھیجاجاتا رہا اس کے عوض سرکاری فنڈز اور وسائل کا بے دریغ استعمال کیاگیا اور بالآخر وہ اقدامات آج ہشت گردی کی جنگ کی شکل اختیار کرکے سویلین کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے پر اداروں پر حملوں کا موجب بن چکے ہیں کتنا عظیم جانی ومالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

اس کے نتیجے میں آپریشن ضرب عضب کرنا پڑا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر تو سب سے بڑا الزام ہی یہ تھا کہ لوگوں کو نوکریاں دی تھیں۔ ان پر الزامات لگائے گئے کہ خلاف قانون خلاف ضابطہ اپنے لوگوں کو سرکاری نوکریاں بانٹ دیں ۔ کئی اہم سرکاری اداروں میں پیپلزپارٹی نے سیاسی کارکنوں اور ان کے رشتہ داروں کو میرٹ کے برعکس سرکاری نوکریاں دے دیں جس کی وجہ سے کرپشن اور اداروں کی کارکردگی خرابی پیدا ہوئی اور ان اداروں میں سیاست عروج پر پہنچ گئی اس سلسلے میں سٹیل مل پورٹ قائم سوئی گیس‘ پی آئی اے سمیت متعدد بڑے بڑے اداروں بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں۔

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم بننے سے پہلے جیل میں تھے ان پر بطور سپیکر قومی اسمبلی سرکاری نوکریاں خلاف ضابطہ اپنے من پسند لوگوں کو دینے کا الزم تھا۔ پیپلزپارٹی کے ادوار میں بالخصوص یہ الزام لگتارہا ہے کہ سرکاری نوکریاں بیچی گئی تھیں۔ سندھ میں محکمہ تعلیم اور پولیس کے حوالے سے الزامات لگتے رہے ہیں کہ پیسے لیکر نوکریاں دی گئیں۔

جو شخص بھاری رشوت دے کرسرکاری نوکری حاصل کرے گاوہ لازمی کرپشن کے گا تاکہ اپنی انوسٹمنٹ بھی واپس حاصل کرے اور مزید کمائی بھی کرے۔ کراچی کے ادارے واٹر بورڈ‘ کے ایم سی کے ڈی اے کے بی سی اسے سمیت دیگر محکمے بھی اس کرپشن میں گردن تک ڈوبے نظر آتے ہیں اب رینجرز نے اس حوالے سے کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں محنتی اور ایماندار افسران اس چکی میں نہ پس جائیں۔

پہلے ہی نیب ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی کارروائیوں کی وجہ سے سرکاری دفاتر میں اہم کام ٹھپ ہوچکے ہیں اور شہریوں کو جائز کام کرانے میں بھی شدید مشکلات کاسامنا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ گھوسٹ ملازمین کی اصل تعریف کیا ہے کہ کیا وہ ملازمین جو سرے سے ڈیوٹی پر نہیں آتے ان کو گھوسٹ ملازمین کہاجائے گا یاجو لوگ مختلف ناموں سے سرکاری ملازم ہیں لیکن ان ناموں کا حقیقتاََ کوئی وجود نہیں ہے جس نام سے تنخواہ اور مراعات جاری ہوتی ہیں اس نام کاکوئی انسان زندہ ہی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس میں مختلف اقسام کے کیسز سامنے آسکتے ہیں جو لوگ تنخواہ لیتے ہیں لیکن سرکاری دفتر آنے کی بجائے سیاسی دفتر میں ڈیوٹی ادا کرتے ہیں وہ تو سختی ہونے پر سرکاری دفتر میں حاضر ہوجائیں گے اس طرح کی نوکری تو بچ جائے گی البتہ جولوگ صرف سرکاری رجسٹر میں ملازم ہیں اور حقیقت میں ان کا وجود نہیں ہے ان کے معاملات ضرور ایکسپوز ہوں گے۔ ایک ہی شخص مختلف ناموں سے مختلف اداروں میں ملازمت کرتا ہے وہ بھی بائیو میٹرک تصدیق سے ایکسپوز ہوجائے گا اور یوں سرکاری محکموں میں خدمات انجام دینے والے اصل ملازمین کاڈیٹا تیار کرنے میں بھی نمایاں کامیابی ملے گی۔

لہٰذا مجموعی طورپر یہ اقدام اچھا ہے لیکن اسے بلاتفریق اور بلا تعصب انجام دینا چاہئے صرف ایم کیو ایم کو ہدف بنا کر لوگ اقدام کیا گیا تو لوگ ا س اقدام کی ہمت اور نیت پر شک کریں گے اگر سیاسی سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں تو چاہے وہ پیپلز پارٹی کے ہوں۔ جماعت اسلامی کے ہوں مسلم لیگ (ن) اور فنکشن لیگ کے ہوں ایم کیوایم اور پی ٹی آئی کے ہوں ان کے خلاف ایک جیسا قانون لاگوہونا چاہئے اور یہ عمل صرف کراچی تک نہیں بلکہ کراچی سے کشمور تک اورکراچی سے پشاور تک ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Karachi Operation Ka Agla Marhala is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 July 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.