مودی حکومت کی بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

50ہزار روہنگیا مسلم مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی تیاریاں برما کے بے یارو مددگار مسلمانوں نے مقبوضہ کشمیر سمیت دہلی،ہریانہ اور اتر پردیش میں پناہ لے رکھی ہے

منگل 9 مئی 2017

Modi Hakoomat Ki Barhti Huwi Muslim Dushmani
رابعہ عظمت:
”ہم روہنگیا ہیں،ہمیں مار کر قبرستان میں دفن کر دیجئے۔“ یہ کہتے ہوئے 23 برس کی برمی مسلمان خاتون انیتا کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو مقبوضہ کشمیر میں ایک پناہ گزین کیمپ میں سخت ترین حالات سے دوچار ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے مقبوضہ کشمیر جموں میں گزشتہ چار سال سے پناہ لے رکھی ہے۔یہ پناہ گزین علاقے میں چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں رہ رہے ہیں۔

اب انہیں یہاں سے نکالنے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور بی جے پی کے غنڈے انہیں ہر صورت یہاں سے دربدر کردینا چاہتے ہیں۔ایک اور بزرگ دل محمد کے مطابق انہوں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں انہیں مدد مل سکتی ہے۔ہم جب 2012ء میں یہاں آئے تھے تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہندوستان کے سبھی علاقوں میں مسلمان آباد ہیں۔

(جاری ہے)


بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں انہی کی زبانی ان کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی،بہن،رشتے دار برما میں ہیں۔

جب ہم ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہاں حالت بہت بری ہے تم ہمارے لئے دعا کرنا،اسکے بعد ہم یہاں بھارت میں آگئے لیکن یہاں بھی زندگی بہت مشکل ہے ہم جہاں بھی جاتے ہیں،مصیبت آجاتی ہے۔بھارت میں رہنے والے روہنگیا دہلی،کشمیر،حیدرآباد،ہریانہ اور اتر پردیش میں چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں رہ رہے ہیں۔
ہماری گزر بسر مزدوری کر کے ہورہی ہے۔


اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں 40 ہزار روہنگیا پناہ لئے ہوئے ہیں۔انہیں اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر پناہ گزین تسلیم کر رکھا ہے لیکن انہیں دوسرے پناہ گزینوں کی طرح کوئی مالی مدد نہیں ملتی۔ہزاروں روہنگیا مسلمانوں میں سے بیشتر نے چار پانچ برس میں اردو یا ہندی بولنا بھی سیکھ لی ہے۔ان پناہ گزینوں میں بڑی تعدادبچوں کی ہے۔

مقبوضہ کشمیر اورجموں سے برمی مسلمانوں کو نکالنے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ایوان تجارت کے صدر راکیش گپتاکا کہنا ہے کہ روہنگیا کو یہاں رکھنے کا کیا مقصد ہے؟ تاہم بھارت میں مسلم مہاجرین کی بستیوں میں عجیب سی بے چارگی اور بے بسی کا بسیرا ہے اور ویرانی چھائی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات بھی میسر نہیں،سینکڑوں بد قسمت روہنگیا ان مہاجر کیمپوں کے باہر لگے کوڑے کے ڈھیر میں سے رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔

کیونکہ انہیں ہندوستانی حکومت کی جانب سے بطور مہاجر کوئی سہولت میسر نہیں اور نہ ہی بچوں کی تعلیم کے لئے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔معروف بھارتی جریدے ”انڈین ایکسپریس“ کے مطابق جموں شہر اور اس کے مضافات میں بڑے بڑے بینرز لگائے گئے ہیں اور ان میں لکھا گیا ہے کہ یہاں رہنے والے روہنگیا اور بنگلہ دیشی مسلمان فوراََ علاقہ چھوڑ دو ساتھ ہی ساتھ مقامی لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی شناخت،تاریخ اور ورثے کا تحفظ کریں۔

جموں اینڈ کشمیر نیشنل پارٹی کے چیئرمین ہرش دیو سنگھ کے پیغامات بھی درج ہیں ”جموں والوبیدار ہوجاؤ“ پارٹی چیئرمین کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے ڈوگراراجاؤں کی شناخت کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ان کی شناخت ختم ہورہی ہے۔ان راجاؤں نے ریاست کے لوگوں کو جموں اور مضافات میں بسانے کے لئے اپنی شناخت ختم کردی ہے۔دوسری جانب روہنگیا مسلمانوں کیخلاف بی جے پی کی مہم پر کانگریس اور کٹھ پتلی کشمیر حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

کانگریس کے ترجمان کا بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر یہ لوگ سکیورٹی کے لئے مسئلہ ہیں تو بی جے پی کو ان کے خلاف آواز اٹھانے دی جائے اور انہیں شہر بدر کردیا جائے ۔ریاستی پولیس بھی بی جے پی کی ہم زبان ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمان یہاں کسی بھی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث نہیں پائے گئے لیکن ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وہ مختلف جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔


بھارتی وزیراعظم نے کابینہ اور وزارت داخلہ کی سفارش پر مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے دیگر علاقوں میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا حکم دیدیا ہے۔سب سے پہلے کشمیر سے برمی مظلوم مسلمانوں کو باہر نکال دیا جائے گا جس کے لئے بھارتی وزارت داخلہ نے کٹھ پتلی کشمیری انتظامیہ کو روہنگیا مسلمانوں کو شناخت کرنے ،گرفتارکرنے اور ان کو بھارتی سرحد سے واپس میانمار کی جانب دھکیلنے کے لئے منصوبہ بندی کرلی ہے۔

۔وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق تمام روہنگیا مسلمانوں کو جو بھارت میں
گزشتہ 5سے 7برسوں کے اندر آئے انہیں دربدر کر دیا جائے گا۔ بھارتی انٹیلی جنس نے بری پناہ گزینوں کو مستقبل کے لیے خطرہ قرار دیا ہے ۔ بھارتی وزارت داخلہ کے اعلیٰ عہدایدار کے مطابق اقوام متحدہ ے ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے جاری کئے گے پناہ گزین کارڈ بھی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

کیونکہ بھارتی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ” فارن ایکٹ “کی خلاف ورزی کا مرتکب سمجھتی ہے۔ جس کی سزا جرمانہ، قید اور بے دخلی ہے۔
واضح ہے کہ تجریہ نگاروں نے اس بھارتی فیصلے کو غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ روہنگیا کو صرف اس لیے بھارت سے نکالا جا رہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیرمیں روہنگیا مسلمان کو کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کرے گی۔

اس کو خطرہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی جنگ کی صورت میں روہنگیا مسلمان ہر قیمت پر ہندو فوج کے بجائے مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ بھارتی جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت میانمار حکومت کی جانب سے نشانہ بناے جانے کے خوف سے اپنا ملک اور گھر بار چھوڑ کربھارت میں داخل ہونے والے چالیس ہزار سے زائد برمی مسلمانوں میں شدید خوف و ہراس ی لہردوڑ گئی ہے۔

جو بھارتی مقبوضہ کشمیر سمیت مختلف حصوں میں پنالیے ہوئے ہیں اور انتہائی کسمپری کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے روہنگیامسلمانوں کو پناہ گزین کا درجہ دیا جاچکا ہے اور ان کو اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے پناہ گزین تسلیم کرتے ہوئے ان کے کارڈز بی بنا دئیے گے ہیں۔

لیکن وزیر داخلہ سشماسوراج نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومین رائٹس واچ کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو پناہ گزین کا درجہ دیئے جانے ی بات تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ ان تمام روہنگیا کو بھارت سے نکال باہر کیا جائے گا۔ جو اس وقت ہندوستان میں موجود ہیں۔ ان کے پاس اقوام متحدہ کے جاری کردہ پناہ گزین کارڈ ہی کیوں نہ ہوں۔ بھارتی حکام نے روہنگیا مسلمانوں پر جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ برما کے مسلمان جرائم میں ملوث ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاستی اسمبلی کے اجلاس میں دئیے گے ایک بیان میں کہا کہ ریاست کے دینی مدارس ان روہنگیا مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے وزیر دوبے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ ملک پہلے ہی بنگلہ دیشی دراندازیوں کے مسائل کا شکار ہے اب روہنگیا مسلمان بھی آرہے ہیں وہ بھی بنگلہ دیش سے میانمار گے اور وہاں سے اب ہندوستان آرہے ہیں۔

یہ لوگ جعلی نوٹوں کے کاروبار ، انتہا پسندی، نکسل ازم میں ملوث ہیں اور ان کو روکنے کی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے وہ آدھار کارڈ لینے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں تو آبادی کا تناسب بھی بدل گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ایک کمیشن بنا کر ان کی جانچ پڑتال کروائے اور جو بھی ہندوستان ے نہیں ہیں انہیں باہر کر دیا جائے۔ سابق کانگریسی وزیر مملکت ششی تھرور نے کہا کہ روہنگیا ی مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے جو انتہائی قابل رحم حالت میں رہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ان پر بے بنیاد الزام لگانے کی بجائے ایک موثر قانون بنایا جائے۔ روہنگیا پناہ گزینوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ اب حکومت کا کہنا ہے ان پناہ گزینوں میں وہ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنہوں نے بودھ گیا مندر پر حملہ کیاتھا۔ روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم اس خبر کے بعد شروع ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی تنظیم لشکر طیبہ روہنگیائی مسلمانوں کو ہندوستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

میانمار میں سرعام مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس کو منظم نسل کشی مانا ہے اور روہنگیائی مسلمانوں کو سب سے مظلوم قوم قراردیا ہے۔ اب ان پر سرحد پار ہتھیاروں کی تربیتاور سمگلنگ جیسے گھناوٴنے الزامات عائد کے جا رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کے مطابق مسلمان پناہ گزینوں نے آدھار یکارڈ بھی ضبط کر لیے ہیں جبکہ ایک سرکاری میٹنگ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مہاجرین نے آدھاریکارڈ بنوالئے ہیں تو بھی ان کے شہری ہونے کا ثبوت نہیں ہے ۔

فارن ایکٹ کے تحت ان کا قیام غیر قانونی ہے ۔ صرف جموں میں 57000روہنگیائی مسلمان مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
محمد ہارون نامی ایک پناہ گزین نے بتایا کہ ہم سخت ترین مشکلات دو دو چار ہیں، خصوصاََ جب کوئی بیمار پڑ جاتا ہے تو ہمیں اس کے علاج معالجے کی کوئی سہولت میسر نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ہمارا یک پناہ گزین بھائی سخت بیماری کے باعث دم توڑ گیا ۔ رپورٹ کے مطابق متاثرین نے اپیل کی ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی امدادی ادارے مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں معاونت فراہم کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Modi Hakoomat Ki Barhti Huwi Muslim Dushmani is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.