مخالف قوتیں مسلم لیگ کے ووٹ بنک پر ڈاکہ ڈالنے میں ناکام

اگرچہ سابق وزیر اعظم کی قومی اسمبلی سے خالی کردہ نشست NA:120 کا انتخابی معرکہ لاہور میں لڑا گیا لیکن اس کی بازگشت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایوانوں سمیت پورے ملک میں سنی گئیَ

جمعہ 22 ستمبر 2017

Mukhalif Qowatain Muslim League K Vote Bank Par Daka Dalny Main Nakam
نواز رضا:
اگرچہ سابق وزیر اعظم کی قومی اسمبلی سے خالی کردہ نشست NA:120 کا انتخابی معرکہ لاہور میں لڑا گیا لیکن اس کی بازگشت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایوانوں سمیت پورے ملک میں سنی گئیَ اس وقت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس جاری ہیں۔ پارلیمنٹ ہاﺅس کی راہداریوں میں بیگم کلثوم نواز کی کامیابی موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔

اس کے باوجود کہ مسلم لیگ (ن) میں مشکل وقت میں ”ادھر ادھر “ دیکھنے والے ارکان کی بڑی تعداد ہے۔ نواز شریف کی ”نااہلی“ کے بعد ان کی خالی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج نے گویا مسلم لیگ(ن) میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے خلاف انتخابی معرکہ میں وہ تمام قوتیں جو میاں نواز شریف کو ہٹانے کے لئے کوشاں تھیں نے اپنا اپنا کردار ادا ادا کیا ہے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک تقسیم کیا گیا حتیٰ کہ انتخابی معرکہ میں ”سٹنگ گورنمنٹ “ ہونے کے باوجود سرگرم کردار ادا کرنے والے مسلم لیگی کارکنوں کو ”اٹھا“ لے جانے کے واقعات پیش آئے اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ” سٹنگ گورنمنٹ“ کے وزراءان ” نادیدہ قوتوں“ کے نام لینے سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور کے انتخابی معرکہ میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی منظم کوشش کی ناکامی سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ یہ قوتیں 2018ءکے انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک پر ”ڈاکہ“ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوں گی۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں مسلم لیگی ارکان جن کے چہرے میان نواز شریف کی ”نا اہلی“ سے مر جھائے ہوئے تھے بیگم کلثوم نواز کی کامیاب سے کھل اٹھے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین و سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق جن کا شمار سینئرترین مسلم لیگی رہنماﺅں میں ہوتا ہے کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے لندن جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے پورا ملک ہی خالی ہو گیا ہے۔

ان کی صاحبزادی مریم نواز نے نواز شریف مخالف قوتوں کو شکست دے کر پارٹی کو مضبوط بنایا ہے۔ جب این اے 120سے میاں شہباز شریف کی بجائے بیگم کلثوم نواز کے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت ہی سیاسی حلقوں میں یہ بات کہی جانے لگی کہ میاں نواز شریف بیگم کلثوم نواز کو وزیر اعظم بنا کر ملک میں حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد دوبارہ یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ بیگم کلثوم نواز صحت یابی کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں میں وزراءکو سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے لندن روانگی سے قبل اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں واضح کر دیا ہے بیگم کلثوم نواز کو مسلم لیگ(ن) کا صدر یا پارٹی صدر بنائے جانے کی باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں اگرچہ انہوں نے مسلم لیگ(ن) میں اختلافات کی تردید کی تاہم انہوں نے پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان کے حالیہ بیانات پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

این اے۔120کی کامیابی مریم نواز کی کامیابی ہے جو انہوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ”تنہا“ حاصل کی لیکن اس انتخاب میں ”انتخابی معرکے “سر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی شخصیت حمزہ شہباز کو ”ناراض “ کر دینے سے جو انتخابی مشکلات سامنے آئیں اس کا سب کو اندازہ ہے اگر حمزہ شہباز اس انتخاب میں ہوتے تو نتائج اس سے بھی بہتر ہوتے بہر یہ ایک ایسی جیت ہے جو مسلم لیگ کے لئے ایک ”وارننگ“ سے کم نہیں ہارنے والے اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو گیا ہے یہ ایک حقیت ہے کہ پنجاب کے میدانوں میں تاحال مسلم لیگ(ن) سب سے آگے ہے جماعت الدعوة نے اپنا دعویٰ سچا کر دکھایا کہ 2013ءکے انتخابات میں اس نے ہر حلقہ میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی میں کردار ادا کیا ہے اب کی بار وہ اپنا ووٹ بینک الگ لے کر کھڑے ہو گئے یہی حال سنی نتحریک والوں کا ہے البتہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی عبرتناک شکست سیاسی حلقوں کے لئے پریشان کن ہے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) جیت تو گئی لیکن یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کے انتخابی معرکوں میں حمزہ شہباز کو لانا پڑے گا ان کے بغیر مسلم لیگ(ن) کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گامسلم لیگ (ن) نے این اے 120 کا معرکہ سر کر کے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ لاہور مسلم لیگ (ن) کا شہر ہے لاہور پر مسلم لیگ (ن) کی گرفت قدر کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن تحریک انصاف کے لئے فی الحال مسلم لیگ(ن) کے ”لینن گراڈ“ کو سر کرنا ممکن نہیں انتخابی نتائج نے مسلم لیگی قیادت کو یہ پیغام بھی دیا ہے ” سب اچھا“ نہیں ہے مسلم لیگ (ن) کو 2018ءمیں ” مشکل حالات “ میں انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہو گا۔

کم ٹرن آﺅٹ کے باوجود14 ہزار کی برتری حوصلہ افزا ہے لیکن عام انتخابات میں یہ برتری خطر ناک حد تک ”وارننگ“ تصور کی جانی چاہیے۔سیاسی حلقوں میں وزیر دفاع خواجہ آصف کے ”گھر کی صفائی “ کے حوالے سے دئیے جانے والے بیان پر ایک بحث چل نکلی ہے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکز ی رہنما جن کے پاس نواز شریف حکومت میں وزارت داخلہ کا اہم قلمدان تھا جو پاکستان کی سلامتی کے بارے میں انتہائی اہم معلومات رکھتے ہیں نے سب سے پہلے اپنے وزیر خارجہ کے بیان کا نوٹس لیا اور کہا کہ وزیر خارجہ کے بیان کے بعد کسی دشمن کی ضرورت نہیں چوہدری نثار علی خان کے اس بیان پر خواجہ آصف نے مصلحتاً خاموشی اختیار کر لی لیکن وزیر داخلہ احسن اقبال خواجہ آصف کی مدد کو آگئے۔

رہی سہی کس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نکال دی انہوں نے بھی خواجہ آصف کے بیان کی تائید کی بلکہ کہا کہ ”گھر کی صفائی“ ہونی چاہیے جس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے ایک اور بیا ن دیا جس میں کہا ہے کہ وزیراعظم اپنے گھر کی صفائی ضرور کریں، انہیں کسی نے نہیں روکا، مگر اس ”بیانیہ“ سے پاکستان کو دنیا میں تماشہ نہ بنائیں، ”گھر کی صفائی“ پر کسی کو اعتراض نہیں، آپ کو بیانات کی بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینی چاہیے،پاکستان تو اب وہ بات خود مان رہا ہے جو بھارت کہتا رہا ہے انہوں نے کہا کہ ” افغانستان میں دن کے اجالے میں دہشت گردوں کے درجنوں کیمپ امریکہ کے کیمروں کے نیچے چل رہے ہیں اور پاکستان میں آگ کی ہولی یہاں سے دہشت گرد آ کر کھیلتے ہیں، کیا افغانستان یا امریکہ نے افغانستان کے اندر ”گھر کی صفائی“ کی ضرورت کا اعتراف کیا ہے مسلم لیگ (ن) کے اندر اہم قومی ایشوز پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ”ڈو مور“ کا مطالبہ کرنے والوں کو پوری قوم کی طر ف متفقہ جواب دینے کے لئے تمام سٹیک ہولڈروں کو مل بیٹھنا چاہیے۔

چیئرمین نیب کی مدت ملازمت آئندہ ماہ ختم ہو رہی ہے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نئے چیئرمین نیب کی نامزدگی پر بامعنی مشاورت کر لی ہے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیو یارک پہنچ گئے ہیں جہاں آج ان کے خطاب کا امکان ہے ان کی وطن واپسی پر سید خورشید شاہ سے دوبارہ ملاقات ہو گی سر دست دونوں رہنماﺅں کے درمیان ملاقات میں کوئی نام سامنے نہیں آیا تاہم اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اس معاملہ پر اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد تین رکنی پینل تیار کریں گے جب کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ا تحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد حکومتی پینل تشکیل دیں گے سید خورشید شاہ نے تحریک انصاف ، ایم کیو ایم ، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بات چیت کر رہے ہیں ماہ رواں کے اواخر میں نئے چیئرمین نیب کی نامزدگی پر مشاورتی عمل میں تیزی آجائے گی چیئرمین نیب کی اصل منظوری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔

جس میں 6ارکان کا حکومت اور 6ارکان کا اپوزیشن سے تعلق ہے پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کی تقرری میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر غیرجانبدار آدمی چیئرمین نیب ہوتاتو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا،نیب چیئرمین کی تقرری کا اختیار وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے واپس لیا جائے ۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ، چاروں ہائی کورٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مل کر چیئرمین نیب کا تقرر کریں۔

قومی اسمبلی کے46ویں سیشن کے آغاز میں ہی وزراءاور ارکان کی عدم دلچسپی نے حکومت کے لئے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت اپنے ارکان پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی ہے حکومت کو بار بارکورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا،کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کر دیا سید خورشید شاہ نے کورم پورا نہ ہونے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کورم پورا کرنا حکومت کے لئے ایک مسئلہ بن گیا ہے قومی اسمبلی میں حکومت کو آئے روز کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حکومتی اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی نے بھی کورم کی نشاندہی کر رہے ہیں جب وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب سے قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نواز شر یف کی” نا اہلی “ کا صدمہ ختم ہونے میں کچھ وقت لگے گا اب دیکھنا یہ ہے ارکان صدمے کی حالت سے کب نکلتے ہیں ایسا نہ ہو ہوش میں آتے آتے دیر ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mukhalif Qowatain Muslim League K Vote Bank Par Daka Dalny Main Nakam is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 September 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.