نگران حکومت! اپوزیشن لیڈر کی بجائے پی ٹی آئی پردھان

الیکشن 2018 کی آمد آمد ہے اور پی ٹی آئی نے مینار پاکستان کے سائے میں 29 اپریل کو جلسۂ عام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مینار پاکستان جسے اب گریٹر اقبال پارک میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ دیکھنے کی چیز ہے۔ سو وہاں جلسے کرنے سے اجتناب کیا جانا چاہئے تھا لیکن جماعت اسلامی نے بضد ہوکر وہاں پچھلے دنوں جلسہ عام کیا

جمعرات 19 اپریل 2018

nigran hukoomat oppostion leader ki bajaye pti par dhaan
فرخ سعید خواجہ

مرکز اور صوبوں میں موجودہ حکومتوں کی آئینی مدت 31 مئی کو ختم ہوجائے گی۔

(جاری ہے)

چنانچہ نگران وزیراعظم کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے درمیان ابتدائی ملاقات ہوچکی ہے۔ عام تاثر یہی تھا کہ اپوزیشن جماعتیں باہمی مشاورت سے نگران وزیراعظم کے لئے متفقہ طور پر نام دیں گی اس سلسلے میں سید خورشید شاہ کے اقدام سے قبل کہ ایسی مشاورت کا آغاز ہوتا اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پی ٹی آئی پر دھان بن کر تین نام سامنے لے آئی جس پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ چیں بچیں ہوئے اور دونوں جماعتوں میں تلخی بڑھتی محسوس ہورہی ہے تاہم توقع رکھنی چاہئے کہ سیاسی جماعتیں آئین کے مطابق متفقہ نگران وزیراعظم لانے کے لئے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گی۔

الیکشن 2018 کی آمد آمد ہے اور پی ٹی آئی نے مینار پاکستان کے سائے میں 29 اپریل کو جلسۂ عام کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مینار پاکستان جسے اب گریٹر اقبال پارک میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ دیکھنے کی چیز ہے۔ سو وہاں جلسے کرنے سے اجتناب کیا جانا چاہئے تھا لیکن جماعت اسلامی نے بضد ہوکر وہاں پچھلے دنوں جلسہ عام کیا۔ بلاشبہ اس سے گریٹر اقبال پارک کا حسن متاثر ہوا۔ اب پی ٹی آئی، وسطی پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان اور سینئر نائب صدر شعیب صدیقی نے سخت موقف اختیار کیا ہے کہ اُن کی جماعت بھی ہر حال میں یہیں جلسۂ عام رکھے گی۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ناصر باغ میں جلسہ کرنے کی تجویز پی ٹی آئی نے ٹھکرا دی ہے۔ شعیب صدیقی، فرخ جاوید مون، عامر شیخ و دیگر نے گریٹر اقبال پارک کا دورہ کرکے سٹیج کا مقام اور پنڈال کہاں سے کہاں تک ہوگا اس کا فیصلہ کرلیا ہے۔ 

پی ٹی آئی کو پنجاب میں پیپلزپارٹی پر یہ فوقیت حاصل ہوچکی ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے اڑان بھرنے والے پرندے اُن کے درخت پر مسکن بنا رہے ہیں حالانکہ آصف زرداری پنجاب فتح کرنے کے دعویدار تھے لیکن لگتا ہے ’’ان کی دال نہیں گل سکی‘‘۔

یہ پاکستانی سیاست کا رواج ہے کہ آنے والے انتخابات سے پہلے بہت سے ممبران اسمبلی معلومات تک رسائی رکھنے والے اپنے دوستوں سے دریافت کرتے ہیں کہ ’’فلاں ‘‘ جماعت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد حاصل ہے کہ نہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو ہر دور میں حکومت میں شامل رہنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ سو جب اُن کو تسلی ہوجاتی ہے کہ اگلی حکمران فلاں جماعت ہوگی تو وہ منٹ لگائے بغیر اس میں شامل ہوجاتے ہیں البتہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے ’’دوستوں‘‘ کو اپنی پسندیدہ جماعت اور گروپوں میں بھجواتی ہے۔

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکشن 2013 میں دیگر جماعتوں سے مسلم لیگ (ن) میں آنے والے اب اڑان بھر رہے ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے الیکشن 2013 میں پرندوں کے مسلم لیگ (ن) کی شاخ پر بیٹھنے کا یہاں حال بیان کردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ دراصل الیکشن 2013 میں جنرل شجاع پاشا نے پی ٹی آئی کے سر پر ہاتھ رکھ دیا تھا اور مسلم لیگ (ق) و دیگر جماعتوں کے اپنا اپنا ’’حلقہ انتخاب‘‘ رکھنے والے قد آور ممبران اسمبلی نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔

صورت حال واضح تھی کہ اقتدار کا ہما پی ٹی آئی کے سر پر بیٹھنے والا ہے۔ ایسے میں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان اکٹھے جنرل شجاع پاشا سے ملے اور انہیں ہاتھ ہولا رکھنے کی درخواست کی۔ انہوں نے میاں نوازشریف کے ’’رویے‘‘ کا شکوہ کیا ۔ ان دونوں رہنمائوں نے وعدہ کیا کہ انہیں سمجھاتے ہیں۔ واپس آکر انہوں نے نوازشریف کو قائل کرلیا کہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلشن شپ قائم کی جانی چاہئے۔

سو وہ دونوں جنرل پاشا سے پھرملے اور ’’بھائی جان‘‘ کی رضا مندی سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اعتماد سازی کے اقدامات ہوں گے میاں نوازشریف پہلے ہمارے بندوں کو خود پریس کانفرنس کرکے مسلم لیگ (ن) میں شامل کریں تب ہمیں یقین آئے گا کہ نواشزریف نے آپ دونوں کی بات مان لی ہے۔ سو جاتی عمرہ رائے ونڈ میں زاہد حامد، ماروی میمن، طارق عظیم و دیگر کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے میاں صاحب نے پریس کانفرنسیں کیں اور اس کے بعد پرندوں کا مسکن مسلم لیگ (ن) بن گئی۔

اب جبکہ ایک مرتبہ پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نوازشریف سے خفا ہوچکی ہے اور انہیں ریاست کے ایک مضبوط ستون کی مدد بھی حاصل ہے جس کے باعث مسلم لیگ (ن) اپنے قیام 1993 کے بعد 2002 میں اور اب اس سے بھی زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ 2002 میں قیادت جلا وطن تھی اور اس وقت پارٹی سنبھالنے والے راجہ ظفرالحق، مخدوم جاوید ہاشمی، سرانجام خان، سردار ذوالفقار کھوسہ، خواجہ سعد رفیق، سید زعیم قادری، ظفر اقبال جھگڑا، سردار مہتاب خان میں سے بعض آج پارٹی سے باہر ہیں یا غیر موثر ہیں یا حکومت میں شامل ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی اس وقت ملک میں حکومت ہے لاکھ کہیں لیکن نہیں ہے کی صورت حال ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے جن ممبران اسمبلی کو پی ٹی آئی میں کسی صورت شامل نہیں ہونا چاہئے ان کا الگ بندوبست کیا گیا ہے۔ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ اس خاص مقصد کے لئے بنایا گیا ہے اور جولوگ مسلم لیگ میں رہنا چاہتے ہیں اور مسلم لیگ کا چولا نہیں اتارنا چاہتے ان کے لئے مسلم لیگیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے جی ڈی اے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس موجود ہے جس میںپیر پگارا، چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویزالٰہی، سید غوث علی شاہ شامل ہیں۔

پلان ظاہر ہے کہ الیکشن 2018 میں مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگا کر پی ٹی آئی، صوبہ جنوبی پنجاب محاذ، مسلم لیگ اتحاد جی ڈی اے ، ملی مسلم لیگ، تحریک لبیک پاکستان و دیگر پر مشتمل مخلوط حکومت قائم کرنا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس صوت حال کا ادراک ہے لہٰذا وہ ہر صورت الیکشن 2018 تک پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ ووٹر کو موقع دیں کہ اپنی طاقت سے دوسروں کے منصوبوں کو ناکام بنا دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

nigran hukoomat oppostion leader ki bajaye pti par dhaan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 April 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.