ن لیگی وائس چیئرمین کا اغوا،مقدمہ درج نہ ہوسکا

30 نومبر2017ء کی شب چند افراد کے ہاتھوں ن لیگی وائس چیئرمین مقبول احمد خان کے اغواء کو19دن بیت جانے کے باوجودپولیس مقدمہ درج نہ کر سکی ہے۔ چند افرادمقبول احمد خان کو تشدد کرنے،مارپیٹنے کے بعد ان کے محلے (کالج روڈ) پر چھوڑ گئے تھے۔

بدھ 20 دسمبر 2017

Noon Leagui Vice Chairman Ka Aghwa
محمد ریاض اختر:
30 نومبر2017ء کی شب چند افراد کے ہاتھوں ن لیگی وائس چیئرمین مقبول احمد خان کے اغواء کو19دن بیت جانے کے باوجودپولیس مقدمہ درج نہ کر سکی ہے۔چند افرادمقبول احمد خان کو تشدد کرنے،مارپیٹنے کے بعد ان کے محلے (کالج روڈ) پر چھوڑ گئے تھے۔ ن لیگی وائس چیئرمین تھوڑا سنبھلے اوران کے ہوش کے چراغ پوری طرح روشن ہوئے تو محلے دار دوستوں کی مدد سے یہ گھر پہنچے، جس کے بعد اگلی منزل ہسپتال روانگی تھی۔

پولیس اسٹیشن سٹی کے ایس ایچ او کو حالات وواقعات سے تحریری آگاہ کیاگیا،مگر 12دن گزر گئے ، ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ لوگ سوال کررہے ہیں کہ یہ کیسا عوامی نمائندہ ہے جس کی جماعت میں اس کی اپنی پارٹی کے لوگ ہم آواز نہیں بن رہے؟ سٹی مسلم لیگ خاموش، رئیس بلدیہ مسلم لیگ کے ذمہ دار عہدیدار ہیں ان کے لب نہیں ہل رہے؟ شہر کے تین سابق ایم این ایز کے پاس مقبول احمد خان سے ہمدردی کا وقت نہیں ہے۔

(جاری ہے)

لمحہ فکریہ ہے کہ کیا حکمران جماعت کے نظریاتی کارکن اپنا مقدمہ اور اپنی جنگ خود ہی لڑتے رہیں گے؟ ایسا کیوں ہے اور کب تک ہوگا؟ اس بارے میں مقبول احمد خان رنجیدہ ہیں،بولے انہیں اپنی جماعت اور پارٹی عہدیداروں سے کوئی گلا نہیں۔ شکوہ اس بات پر ہے کہ کسی نے ان کے حق کے لیے آواز تک بلند نہیں کی۔مقبول احمدخان کا کہنا تھا کہ ملک ابرار ایم این اے ‘ سابق ممبران قومی اسمبلی حاجی پرویز احمد خان اور انجم عقیل خان سمیت کئی سیاسی شخصیات نے فون پر خیرت پو چھی۔

سیاسی شخصیات کی طرف سے فون کرنا بھی مقبول احمد خان کے لیے بڑی بات تھی ان سے دوبارہ سوال کیا گیا ایف آئی آر درج ہوگئی ؟ تاہم سوال سن کر ایم ایس ایف کے راہنما نے بتایا کہ نہیں۔ اب لوگ انہیں طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرکز ‘ صوبہ اور لوکل سطح پر لیگی حکومت کے باوجود ایک نظریاتی کارکن کی اس بے توقیری کا ذمہ دار کون ہے ؟ کچھ احباب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مقبول خان کیسا عوامی نمائندہ ہے جو اپنا حق نہ لے سکا۔

مقبول احمد خان نے آخر میں بتایا کہ انہوں نے ان اغوا کاروں کو جنہیں وہ جانتے ہیں اور پہنچانتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے معاف کر دیا ہے،اپنا مقدمہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ناصر بشیر نے کیا خوب کہا: یہ حالات، واقعات ، منظر اورپس منظر کا عکاس شعر ہے مثال برگ خزاں میں ہوا میں اڑتا ہوں،تلاش رزق میں نکلا ہوا پرندہ ہوں۔

مقبول احمد خان کا شہر جھنگ ہے، تعلیم کی تمنا اور رزق کی تلاش پہلے چند ماہ راولپنڈی آمد کا جواز بنا اور پھر راولپنڈی کے ہی ہوکر رہ گئے۔مثلاً کسی نے جب وطن پوچھا تو حضرت نے یوں فرمایامدینے والے کہلاتے تھے اب ہیں کربلا والے۔مقبول احمد خان خود بتاتے ہیں 1986ء میں پڑھنے کیلئے سلطان والا محلہ جھنگ صدر سے راولپنڈی کے لیے عازم سفر ہوئے۔

گورنمنٹ کرسچن ہائر سیکنڈری سکول سے میٹرک اور پھر گارڈن کالج سے گریجویشن کی۔2015کے دوران بارانی یونیورسٹی سے سوشل سائنسز میں ایم ایس سی کی۔اس کے بعد ہومیو پیتھی میں ڈپلومہ لیکر ڈاکٹربن گئے۔ طلباء سیاست میں ایسے داخل ہوئے کہ بس!! خدمت برائے سیاست کا یہ سفر ابھی تک جاری ہے۔ مقبول احمد خان مارکیٹ کمیٹی راولپنڈی کے وائس چیئرمین ہیں، ان کی خدمات کا عوامی سطح پر اعتراف اس وقت ہوا جب انہیں یونین کونسل 46 کی وائس چیئرمین شب کے لیے مسلم لیگ ن نے امیدوار نامزد کیا اور وہ اپنی ہر دل عزیزی کے سبب چیئرمین مشتاق احمد کے ساتھ 4255ووٹ لیکر ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے۔

شہر کی یہ وہی معروف اور گنجان یونین کونسل ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے لیگی راہنما ملک شکیل احمد اعوان این اے 55 سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی کا حصہ بنے تھے۔ راولپنڈی کی نوجوان قیادت میں مقبول احمد خان اگر سہرفہرست نہیں تو کسی سے پیچھے بھی نہیں،وہ 24 گھنٹے عوامی خدمت کی سیاست کرتے تھے۔ اپنایت اور عوامی دوستی نے انہیں اس مقام رشک تک پہنچا دیا جہاں تک پہنچنے کے لیے طویل مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔ آج بھی شہری‘ تعلیمی اور عوامی زندگی سے متعلق ایشو پر نوجوان راہنما کی موثر اور بھرپور آواز کی بازگشت پورے شہر میں گونجتی ہے۔ مقبول احمد انصاف کے منتظر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Noon Leagui Vice Chairman Ka Aghwa is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 December 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.