پاکستان پرقرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ

ہرحکومت نے کشکول توڑنے کی بات کی لیکن کسی نے پاکستان کے قرضے اتارنے کی کوشش نہیں کی

بدھ 28 ستمبر 2016

Pakistan Per Qarzon Ka Barhta Huwa Bojh
ثناء اسلم :
پاکستان قرضے کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اربوں ڈالر کے قرضے لے چکی ہے جبکہ اس سے قبل کی حکومتیں بھی اس معاملے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ہر حکومت نے کشکول توڑنے کی بات کی لیکن کسی بھی حکومت نے پاکستان کے قرضے اتارنے کی کوشش نہیں کی ۔ بعد میں کشکول توڑنے کا مختلف حکومتوں کا بیان محض ایک سیاسی نعرہ ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد پھرآئی ایم ایف ، ورلڈبنک ، اور ایشین ڈوپلیمنٹ بنک سمیت مختلف ممالک کے سامنے دست سوال پھیلایا گیا اور امداد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔

ان تمام طرز عمل کا نتیجہ نکلا کہ پاکستان مزید مقروض ہوتا چلاگیا ۔ پاکستان پر کتنا قرضہ ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری ماہر معاشیات اور اپوزیشن کے ماہر معاشیات کی آراء اور اعدادوشمار میں زمین وآسمان کافرق ہے۔

(جاری ہے)

دونوں اندرونی اور بیرونی قرضوں کے الگ الگ اعددوشمار پیش کرتے ہیں لہٰذا کسی بھی ایک فیگر اور کلی کو درست تسلیم کرنا درست نہیں۔

کہاجاتا ہے پاکستان پر جنرل پرویزمشرف کے دور میں بیرونی قرضہ 140ارب ڈالر سے بھی کم تھا جواب بڑھ کر 70 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے جبکہ اندرونی قرضہ اس کے علاوہ ہے تاہم اس فیگر کو حتمی سمجھنا بھی درشت نہیں۔ پاکستان جس کا سالانہ بجٹ ہی 40 سے 45ارب ڈالر یعنی تقریباََ 40سے 45 کھرب روپے کاہے جس میں ہر سال 25فیصد سے زائد خسارہ ہوتا ہے اور خسارہ پوراکرنے کیلئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں۔

توکیا ایسی صورت میں پاکستان کبھی اس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اندرونی اور بیرونی قرضے ادا کرسکے ؟ ظاہر ہے کہ جب ملک کابجٹ ہی 25 فیصد خسارے کاہوتا ہے توپاکستان صرف قرضوں کا سوس ہی ادا کر سکتا ہے اور وہ بھی قسط کبھی کبھی حالات کی وجہ سے روکنی پڑتی ہے ۔ اب سلسلہ یہ ہے کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی قرضوں کی محض قسطیں ادا کرنے کیلئے یاکہے کہ قرضوں کاسود ادا کرنے کیلئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مزید قرضے لیتا ہے۔

حکومتیں باتیں بڑی بڑی کرتی ہیں لیکن کسی کے پاس بھی ان قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کافارمولا موجود نہیں ہے ۔
پاکستان کے پاس زمین کی کوئی کمی نہیں ہے اور ملک بھر میں لاکھوں ایکڑزمین بنجر اور غیرآباہے ۔ اگر حکومت پاکستان ملک بھر میں 1لاکھ اندسٹریل زون بنانے کا اعلان کرے اور ہرانڈسٹریل زو ن میں ہزار ہزار گزکے 10ہزار پلاٹس کٹنگ کرے تو 1لاکھ انڈسٹریل زون میں مجموعی طور پر 10لاکھ پلاسٹ دستیاب ہونگے ۔

ملک بھر میں مجوزہ طور پر قائم کئے جانے والے ان انڈسٹریل زونز میں ہزار گزکے ایک پلاٹ کی قیمت 2.5 سے 5 کروڑ روپے کے درمیان رکھی جائے اور انڈسٹریل زون میں پلاٹ خریدنے والے ہر سرمایہ دار کو مختلف مراعات کی پیش کش کی جائے ۔ مراعات اتنی پر کشش ہوں کی اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے پلاٹ خریدنااعزاز کی بات ہوجائے ۔ اس طرح اگر حکومت پاکستان انڈسٹریل زون کے یہ پلاٹ فروخت کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے 2.5 سو کھرب روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے جبکہ پاکستان پر مجموعی قرضے کاحجم سوسے ڈیڑھ سو کھرب روپے ہے۔

جس سے نہ صرف پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے ادا کئے جاسکتے ہیں بلکہ انڈسٹریل زون کیلئے بہترین انفرااسٹرکچر بھی تیار کیاجاسکتا ہے ۔ بظاہر یہ آسان لگتا ہے لیکن پاکستان کے سیاسی حالات کے پیش نظر اس پر عملدرآمد اتنا آسان بھی نہیں ۔ زمینوں کے معاملے پر صوبوں کی طرف سے تحفظات اور رکاوٹوں کا سامنا ہوگا تاہم ان تحفظات کو گفت وشیند اور معاہدوں سے دور کیاجاسکتا ہے ۔ تاہم اس کیلئے خلوص ایمانداری اور نیک نیتی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Per Qarzon Ka Barhta Huwa Bojh is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 September 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.