پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان سیاسی رسہ کشی!

کیا سندھ کارڈ پھر کارگر ثابت ہوگا؟

پیر 18 ستمبر 2017

PTI Or PPP K Darmyan Siyasi Rasa Kashi
راؤ محمد شاہد اقبال:
 مشہور ہے کہ لنکا کے راون کے ایک ہزار ہاتھ تھے ، جب اُس کا ایک ہاتھ کٹ جاتا تو وہ اپنے دوسرے ہاتھ سے حملہ آور ہوجاتا یوں اُسے ہرانا ناممکن ہو جاتا۔ یہ ہی کچھ صورت حال ہمارے ہاں پائے جانے والے طبقے اشرافیہ کی ہے اس کے بھی ہزاروں ہاتھ اور ہزاروں روپ ہیں اور پاکستان میں کوئی علاقہ ایسا نہیں جو اس کی خون آشام کرپشن کی آماجگاہ نہ بنا ہوا ہو طبقہ اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف جو جنگ عمران خان نے اسلام آباد سے شروع کی تھی اب اُس جنگ کے انتہائی مختصر مدت کے نوٹس پر سکھر میں ایک پر اثر اور بھر پور سیاسی شوگیا، جہاں اس جلسہ کی کامیابی میں پی ٹی آئی کی تمام قیادت نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ، وہیں اس سیاسی شو کو غیر معمولی حدتک کامیاب بنانے میں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی خاندانوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے ، خصوصاََ سکھر کی شیخ فیملی نے در پردہ اس جلسہ کو کامیاب بنانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ، وہیں اس سیاسی شوکو غیر معمولی حدتک کامیاب بنانے میں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی خاندانوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، خصوصاََ سکھر کی شیخ فیملی نے درپردہ اس جلسہ کو کامیاب بنانے میں اپنے تمام وسائل لگائیے۔

(جاری ہے)

جلسہ کے شرکاء کی تعداد اور جوش وخروش دیکھ کر ہی عمران خان نے آصف علی زرداری کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ بہت جلد سندھ کا ایک فرعون بھی کہے گا کہ مجھے کیوں نکالا، پھر ہم کہیں گے کہ آپ نے سندھ میں لٹیروں کا راج قائم کیا اور سند ھ لٹیروں کا سربراہ آصف زرداری ہے۔ عمران خان کے اس طرز تخاطب نے سکھر سمیت سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے سیاسی حلقوں میں خوف کی ایک لہر پیدا کردی ہے۔

کیونکہ عام تاثر یہ ہی ہے کہ عمران خان جس کو ایک بار للکار لے پھر برا وقت اس کا گھر دیکھ لیتا ہے ، پہلی بار سندھ میں سرعام آصف علی زرداری کو اتنے سخت لب ولہجہ میں پکارا گیا ہے، ورنہ اب تک یہ ہی کہا جاتا تھا کہ جس نے سندھ میں اپنی سیاست کو کامیاب بنانا ہے اسے آصف علی زرداری کے حوالے سے ذرا نرم لب ولہجہ اختیار کرنا چاہیئے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ہررہنما بشمول شیخ رشید سب نے اپنی تنقید کا براہ راست نشانہ آصف علی زرداری اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو بنایا۔

سکھر خورشید شاہ کا سیاسی حلقہ بھی ہے، یہاں تحریک انصاف کے اس بڑے مظاہرے نے خورشید شاہ کی سکھر اور گردونواح کی سیاست پر گرفت کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ سکھر کے بے شمار سیاسی خاندانوں نے شاہ محمود قریشی اور عمران خان سے ملاقاتیں بھی کیں ہیں جسے یہاں کے سیاسی حلقوں میں جلسہ کی کامیابی میں سے بھی زیادہ اہم قراردیا جارہا ہے ۔

سکھر میں گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی انتہائی تھوڑے سے مارجن سے فتح سمیٹ پائی تھی، اگر اس وقت تحریک انصاف سکھر میں کوئی سیاسی جوڑ توڑ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پیپلز پارٹی کوآنے والے الیکشن میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے لئے اگر کوئی ایک بہت اچھی خبر آئی ہے تو وہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنے آخری ریفرنس سے بھی بری ہوگئے ہیں اور اس پر سندھ بھر میں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی طرف سے مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں لیکن جو خوشی اس خبر پر نظر آنی چاہیے تھی وہ کہیں نظر نہیں آئی، عجیب بات یہ ہے کہ یہ خوشی تو جناب آصف علی زرداری کے چہرے پر بھی نظر نہیں ا ٓئی بلکہ جب وہ اس سلسلہ میں پریس کانفرنس کے لیئے آئے تو دوران سوال جواب صحافیوں پر طیش میں بھی آگئے، اس کا صاف مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں انہیں کچھ تو گڑ بڑ نظر آرہی ہے، ویسے بھی آج کل طبقہ اشرافیہ جس بات پر صبح مٹھائیاں تقسیم کرکے جشن منارہا ہوتا ہے اُسی بات پر شام کو ماتم کرتا ہوا نظر آتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے دن آصف علی زرداری بغیر کسی نئے کیس کا شکار ہوئے گزار پائیں گے۔

اگر جناب آصف علی زرداری نے کم از کم ایک سال بغیر کسی نئے کیس کا شکار ہوئے گزار دیا تو یقینا یہ ان کی بہت بڑی سیاسی واخلاقی کامیابی ہوگی۔ جس کا پیپلز پارٹی کی مستقبل کی سیاست پر انتہائی مثبت اثر ہوگا۔ کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے اپنے ووٹرز سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا خطرہ اپنے منتخب نمائندوں سے ہے ۔ سندھ کی سیاست میں سارا کردار منتخب نمائندوں کا ہے اور ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ راتوں رات بھی اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں، ابھی تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت انہیں منتخب نمائندوں کی مرہون منت ہے جن کا پیپلز پارٹی کے نظریات و تصورات سے کوئی لینا دینا نہیں یہ تو بس ہمیشہ اپنے مفادات کو سب سے مقدم سمجھتے ہیں۔

اس لیئے اگر آصف علی زرداری کسی نہ کسی طرح نہیں تو پھر یہ منتخب نمائندے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کرکہیں نہیں جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ اپنے لیئے نئے جہانِ مفادات دریافت کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔ آنے والے چند مہینے سندھ کی سیاست کے لئے انتہائی اہم ہیں جس سیاسی جماعت نے اس دوران درست سیاسی چالوں کا انتخاب کیاسندھ کا رڈ پھر ایک طویل مدت تک اس کا ہی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

PTI Or PPP K Darmyan Siyasi Rasa Kashi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 September 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.