سرمایہ دارانہ جمہوریت اور کرپشن

یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ جب سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت میں ارباب بست و کشاد کو وسیع تر اختیارات ملتے ہیں تو وہ فطری طور پر ہوس زر کا شکار ہو کر سرکاری پراجیکٹس کی منصوبہ بندی، انتظام و انصرام اور نگرانی کی آڑ میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کا بازار خوب گرم کرتے ہیں

جمعرات 14 اپریل 2016

Sarmayadarana Jamhoriat
نعیم قاسم:
یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ جب سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت میں ارباب بست و کشاد کو وسیع تر اختیارات ملتے ہیں تو وہ فطری طور پر ہوس زر کا شکار ہو کر سرکاری پراجیکٹس کی منصوبہ بندی، انتظام و انصرام اور نگرانی کی آڑ میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کا بازار خوب گرم کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت اور سرمایہ داری نظام کے امتزاج سے نجی شعبہ اس قدر طاقتور بن جاتا ہے کہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی، ذرائع نقل و حمل، ذرائع ابلاغ، مواصلات، ذرائع پیداوار اور تعمیرات، بنکنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی سب پر مکمل اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔

اگرچہ امریکہ اور مغربی ممالک میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور انکی کمپنیاں کارپوریٹ ٹیکس ادا کرتی ہیں مگر چونکہ انکی پراڈکٹس کی مارکیٹ تمام دنیا کے ممالک میں قائم ہو جاتی ہے تو بے تحاشا سرپلس منافع کو ٹیکسوں سے بچانے کیلئے آف شور کمپنیوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور سرمایہ خود بخود محفوظ ہیونز (Heavens)کی طرف منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

جہاں مغربی ممالک کے بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے کاروباری مقاصد کیلئے سیاسی پارٹیوں کو فنڈنگ کرتے ہیں وہیں وہ ان پارٹیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسی کاروباری پالیسیاں بنوا لیتے ہیں جس سے ان کو جمہوریت پر سرمایہ کاری کا مناسب ریٹرن مل جاتا ہے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے، امریکہ میں جمہوریت یہودیوں کے پنجہ استبداد میں ہے کیونکہ بڑے بڑے میڈیا ہاوٴسز اور کاروباری اداروں کے مالکان کی اکثریت صہیونی نواز یہودی ہیں جو دونوں بڑی پارٹیوں کے ٹاپ امیدواروں سے لیکر سینیٹرز اور کانگریس کے ایسے امیدواروں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں جو نہ صرف انکے کاروباری مفادات بلکہ اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے میں حکومت کے ریاستی اور آئینی اداروں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا سرمائے کو کسی ایک جگہ منجمد ہونے سے بچانے کیلئے اسکی حرکت پذیری کیلئے دنیا بھر کے اکثر ممالک میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے ایسے سرمائے کی رئیل سٹیٹ اور سٹاک ایکسچینج مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے جہاں سٹہ بازی اور تخمین سازی کے ذریعے کئی گنا منافع کم عرصے میں کما لیا جاتا ہے جبکہ براہ راست تجارت اور صنعت سازی سے سرمایہ داروں کے منافع جات میں اضافے کی نمو اسقدر تیزی سے ممکن نہیں ہوتی ہے جتنا ان آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادوں اور شیئرز میں خفیہ اکاوٴنٹس کی سرمایہ کاری سے ممکن ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں حکمران طبقہ اور انکے حواری غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے کالا دھن وافر مقدار میں کما لیتے ہیں اور اس کو مزید بڑھانے کی خاطر اس پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا چاہتے حالانکہ ہمارے ملک کے حکمرانوں اور سول و ملٹری بیورو کریسی کے کرتا دھرتا کالا دھن کماتے ہیں اور FBR ہر دو تین سال بعد ایسی سکیموں کا بھی اجراء کرتی ہے جس سے اس پر معمولی ٹیکس ادا کرکے اسکو سفید کرنے کا آپشن بن جاتا ہے مگر ہمارے ہاں حکمران طبقے کے لوگ جہاں کرپشن کرتے ہیں وہیں انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں جب انکے حریف اقتدار میں آ گئے، ان کیخلاف نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے دباوٴ نہ ڈالیں تو اس وجہ سے جب نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں سیف الرحمن کے احتساب کمیشن نے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے اکثر رہنماوٴں کیخلاف کرپشن کے کیسز درج کرائے، بے نظیر بھٹو کو ملک چھوڑنا پڑا جبکہ مشر ف کے دور حکومت میں نیب نے شریف خاندان کیخلاف کرپشن کے مقدمات درج کیے اور انکے لاہور میں ماڈل ٹاوٴن کے گھر بھی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیے تو اسکے بعد ہمارے سیاستدانوں، بیورو کریٹس، اور کرپٹ کاروباری طبقات نے اپنے سرمائے کو ہمیشہ کیلئے اپنی آل اولاد کیلئے محفوظ اور اس میں مسلسل اضافے کیلئے آف شور کمپنیوں کے فرنٹ منیوں کے ذریعے اپنی ناجائز کمائی مغربی ممالک میں مہنگی جائیدادوں پر خرچ کی اور انکی مارٹ گیج کے ذریعے بنک سے قرض حاصل کرکے انہی ممالک میں اپنے قانونی کاروبار قائم کر لیے یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے صاحبزادے یہ بات بڑے فخر سے بتا رہے ہیں کہ انہوں نے محنت اور حق حلال کی کمائی سے اور اپنے خاندانی ہنر مندی سے چند سالوں میں اپنی کاروباری سلطنت کھڑ ی کی ہے۔

شریف خاندان سے زیادہ خوش قسمت اور ہنر مند خاندان شاید ہی کوئی دوسرا ہو جو بار بار صفر سے کاروبار کا آغاز کرتا ہے اور چند سالوں میں دوبارہ اپنے پاوٴں پر ”اللہ کے فضل“ سے کھڑا ہو جاتا ہے اسی بات کا ذکر وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کیا ہے کہ بھٹو نے اتفاق فاوٴنڈری کو نیشنلائز کر لیا تو ان کے والد نے پھر چند سو روپوں سے کاروبار کا آغاز کیا، 1989ء میں پیپلز پارٹی کو حکومت نے ان کی فاوٴنڈری کا خام مال لانے والے بحری جہاز جو ناتھن کو ایک سال تک سامنے اتارنے کی اجازت نہ دی جس سے انہیں 50 کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا جو آج کے حساب کے مطابق 50 ار ب سے بھی زیادہ ہے، 1999ء میں انکی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جہاں ان کو اور انکے اہل خانہ کو 14ماہ تک جیلوں میں رکھا گیا، وہیں ان کا کاروبار مکمل تباہ کر دیا گیا مگر میاں نواز شریف کے والد نے ایام جلاوطنی میں مکہ میں سٹیل کا کارخانہ لگایا اور پھر بعد میں انکے صاحبزادوں نے اس سٹیل مل کو بیچ کر لندن میں پراپرٹی کے کاروبار میں ”اللہ کے فضل“ سے دوبارہ اربوں روپے کما لیے اور پھر ایک چھوٹی سٹیل مل سعودی عرب میں بھی قائم کر لی۔

میں حیران ہوں کہ ہمارے بااثر طبقات کے بچے بلاول، مونس الٰہی، ارسلان، افتخار چوہدری، حسین نواز، حسن نواز، اور بڑے بڑے جرنیلوں کے برخوردار جیسے اعجاز الحق، ہمایوں اختر، اسد عمر، زبیر عمر جیسے بے شمار ایلیٹ کے بچے کس قدر ٹیلنٹِڈ اور خوش خوش قسمت ہوتے ہیں کہ نسل درنسل اقتدار، دولت، صحت اور خوش بختی ان پر سدا نازاں رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا غریب اور متوسط طبقہ پچھلے 69 سال میں اپنی حالت کو بہتر بنانے کیلئے جن تصورات پر بھی بھروسہ کرتا ہے وہ سب سراب ثابت ہو چکے ہیں۔


اب ہم ان میں سے آخری سراب یعنی جمہوریت سے مایوس ہونے کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ آزادی سے ملک کے عوام کو کیا حاصل ہوا ہے؟ جہاں ایک طرف بااختیار طبقات کے لوگ اور انکے بچے سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں اپنے محلات، جائیدادیں اور اثاثے بناتے ہیں پاکستان میں ریاستی اداروں کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اربوں روپوں کا کالا دھن باہر بھیجتے ہو اور پھر ”الحمد اللہ، اللہ کے فضل سے، مولا کے کرم“ سے بار بار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ انہیں یہ سب کچھ اپنے بزرگوں کی محنت اور انکی ذہانت اور خوش بختی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے جبکہ ہمارے جیسے بے سروپا یہ سوچنے پر مجبور ہیں، کیا قائد اعظم نے اس وطن کا خواب دیکھا تھا جہاں ایک عام آدمی اپنے اور اپنے بچوں کیلئے مناسب خوراک لباس اور تعلیم نہیں حاصل کر سکتااپنے گھروں میں محفوظ رہنے کا تصور نہیں کر سکتا ہے۔

وہ سڑک پر جا رہا ہے تو VIP کلچر کی وجہ سے سڑک پر اس کا راستہ روک دیا جاتا ہے کہ برہمن کی سواری گزر رہی ہے لہٰذا وہ اعتماد سے چلنے کی آرزو کرنا بھی چھوڑ دے۔کیا ہمارے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزادی کے حصول کے بعد احساس تفاخر سے سرشار ہو کر زندگی گزار رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جمہوریت ایک سراب ہے۔ جمہوریت، شریفوں، زرداریوں اور عمران خانوں کیلئے ہے اور انکے ”میرعالموں“ کیلئے ہے جن کا تعلق شاید خاندان غلاماں سے ہے۔

وہ اپنے اپنے برہمنوں کو ٹی وی ٹاک شوز میں پیغمبرانہ درجات پر فائز کیے ہوئے محض دنیا وی فوائد کیلئے انکے پوتر ہونے کے قصیدے گائے جا رہے ہیں۔ اس حقیقت کی صداقت سے کوئی باشعور پاکستانی کیسے انکار کر سکتا ہے کہ ملک کے عوام کی اکثریت اس طرز جمہوریت سے مطمئن نہیں مگر پھر بھی مجبوراً اسکا حصہ بننے پر مجبور ہے اور بالائی طبقات کی کوتاہ اندیشانہ اور استحصالی رویے نے ہمارے قومی وجود کو وہ چرکے لگائے ہیں کہ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sarmayadarana Jamhoriat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 April 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.