شام بحران لاکھوں افرادنگل گیا!

عالمی عدم توجہی کے باعث پناہ گزینوں کی مشکلات میں اضافہ پرتشدد واقعات سے انفراسٹر کچر تباہ، ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 3 لاکھ سے تجاوز

ہفتہ 26 مئی 2018

shaam bohraan lakhoon afraad nigal gaya
ممتاز سلیم لنگاہ
دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ نے پورے مشرق وسطیٰ کو آگ وخون کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ شام میں ریاستی اور سماجی ڈھانچہ منہدم ہونے سے اس کی غیر اعلانیہ ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کاعمل اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ باقی تمام حالات اگر ایسے ہی رہتے ہیں تو کسی بھی صورت میں اس کو دوبارہ پہلے جیسا ملک نہیں بنایا جا سکتا ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی میں اہم عالمی طاقتوں میں سے جہاں کچھ صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہیں تو وہیں کچھ شامی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کرنیوالے جنگجوگروہوں کو امداد فراہم کر رہی ہیں۔ روس شامی صدر بشارالاسد کے سب سے اہم بین الاقوامی حامیوں میں سے ایک ہے اور صدر اسد کی حکومت کی بقا شام میں روسی مفادات کو برقرار رکھنے کے لئے اہم ہے۔

(جاری ہے)

ماسکو شام کی بندرگاہ طرطوس میں موجود اپنے بحری اڈے کو کھونا نہیں چاہتا کیونکہ خطے میں یہ روس کا واحدبحر ی اڈہ ہے، اس کے علاوہ لتاقیہ میں روس کا ایک فضائی اڈہ بھی ہے۔ روسی فضائیہ اس وقت شام میں داعش اور دیگر گروہوں کو نشانہ بھی بنا رہی ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے شام کو درست قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہوا ہے کہ روس شام میں نہ صرف عسکری کارروائی میں مدد کرے گا بلکہ قیام امن کیلئے سیاسی حل پر بھی مدد کرنے کو تیار ہے۔

تاہم روس کو خدشہ ہے کہ سابق سوویت ریاستوں کے کم سے کم 4 ہزار افراد شام میں باغیوں کے ساتھ لڑائی میں شریک ہیں۔ ایران بھی خطے میں صدر بشار الاسد کا سب سے اہم اتحادی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شامی حکومت کو اربوں ڈالر کی امداد، اسلحہ اور تیل بھی فراہم کر رہا ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے شامی افواج کی مدد کے لئے جنگجو بھیجنے کا فیصلہ بھی ایرانی حکومت کی درخواست پر کیا گیا تھا، اس کے علاوہ ایران اور عراق سے بھی لوگ آکر شامی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور ان افراد کا موقف ہے کہ وہ مقدس ہستیوں کے مزارات کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں۔

شام ایران کا دیر ینہ اتحادی ہے اور دہائیوں سے لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو ایران اسلحہ شام کے راستے ہی پہنچاتا آیا ہے۔ امریکہ صدر بشار الاسد پر شام میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ شام کے مسئلے کے حل کے لئے صدر اسد کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے، جبکہ سعودی عرب کا موقف ہے کہ صدر بشار الاسد شام کے بحران کے حل کا کسی بھی طور پر حصہ نہیں ہو سکتے لہذا فوراََ شامی حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے ،یہ بھی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ شام میں لڑنے والے بہت سے گروہوں کو جن میں شدت پسند گروہ بھی ہیں انہیں ہر قسم کی امداد سعودی عرب ہی فراہم کر رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو موجودہ سطح تک لانے میں بعض عرب ممالک کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو اپنی خواہشات کے مطابق علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اور بھی کئی قوتیں ایسی ہیں جن کی نظر یں قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے پر جمی ہوئی ہیں، لہذا اگر اس جنگ کا فوری حل نہ نکالا گیا تو اس کے بدترین اثرات سے خطے کا کوئی ملک بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

11 مارچ 2011ء سے شام میں جاری خونریز تنازع کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ ہلاک ہونیوالوں میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ خانہ جنگی کی بھڑکتی آگ سے انفراسٹرکچر تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2011ء سے لے کر اکتوبر 2013ء تک 12 ہزار سے زائد بچے ہلاک ہوئے ہیں ، ہلاک ہونے والے تمام بچوں کی عمریں 17سال یا اس سے کم ہیں، کئی بچے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بھی بنے ، بچوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں حلب میں ہوئی ہیں جہاں تاحال لڑائی جاری ہے۔


عالمی عدم توجہی کے باعث شام کے پناہ گزین اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ محفوظ مستقبل کی تلاش میں جان دا ؤپرلگا کر یورپ جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کے حالات سے تنگ نصف سے زائد آبادی بے گھر ہے، لاکھوں افراد ملک کے دیگر علاقوں میں ہجرت کر چکے ہیں جبکہ بعض نے پڑوسی ممالک میں پناہ لی ہوئی ہے جن میں ترکی ، لبنان اور اردن شامل ہیں۔

یورپ میں داخل ہونے والے شامیوں کی تعداد تقریبا اڑھائی لاکھ ہے جو کل متاثرین کا 2 فیصد سے بھی کم بنتا ہے، ان دنوں داعش مزید علاقوں پر قابض ہورہی ہے جس سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ یورپی یونین بھی بیرون ملک پناہ گزینوں سے درخواست قبول کرنے پر غور کر رہی ہے لیکن اس صورت میں بھی فقط 20 ہزارفراد استفادہ کر سکیں گے یعنی پانچ سو میں سے صرف ایک شامی پناہ حاصل کر سکے گا۔

شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث دہشت گردی، قتل و غارت اور سامراجی حملے معمول بن چکے ہیں، بدامنی کی جو موجودہ صورتحال ہے اس سے قیام امن کیلئے کی جانیوالی کوششیں داؤ پرلگی ہوئی ہیں۔ انسانی تہذیب وثقافت کے ابتدائی مراکز کا حامل اور تیل وگیس کی قدرتی دولت سے مالا مال یہ خطہ سامراجی لوٹ مار کی ہوس کے ہاتھوں تاراج ہوتا جارہا ہے۔ شام جیسے تاریخی ملک میں ملت اسلامیہ کے اہم مقامات اور تاریخی آثارات کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں عراق کے بعد شام ہی وہ ملک ہے جہاں تاریخ اسلام کے آثار سب سے زیادہ ہیں، جن میں کئی پیغمبران ، صحابہ کرام اور مشاہیر اسلام کے مزارات ہیں، لہذا یہاں عالم اسلام پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شام کی سیاسی صورتحال پرمحض تماشائی بننے کی بجائے اپنا متفقہ نقط نظر واضح کر کے قیام امن کیلئے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

shaam bohraan lakhoon afraad nigal gaya is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 May 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.