سیاست کے انداز میں تبدیلی کی ضرورت ؟

قائم علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے پیچھے اگرچہ کئی محرکات ہیں۔ جن میں تھر کی صورتحال مسلسل بڑھتی ہوئی بدامنی، رینجرز کے اختیارات کا مسئلہ اور اس جیسے کتنے مسائل نے حکومت سندھ کو تذبذب میں ڈال رکھا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاست کی جو صورتحال ہے اس میں چہرے بدلنے سے انتظامی بہتری اور بے شمار مسائل کا حل ممکن ہے۔

پیر 1 اگست 2016

Siasat K Andaz Main Tabdeeli Ki Zarorat
پروفیسر فہمیدہ کوثر:
قائم علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے پیچھے اگرچہ کئی محرکات ہیں۔ جن میں تھر کی صورتحال مسلسل بڑھتی ہوئی بدامنی، رینجرز کے اختیارات کا مسئلہ اور اس جیسے کتنے مسائل نے حکومت سندھ کو تذبذب میں ڈال رکھا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاست کی جو صورتحال ہے اس میں چہرے بدلنے سے انتظامی بہتری اور بے شمار مسائل کا حل ممکن ہے۔

ماضی کی روایتوں نے تو یہی ثابت کیا کہ جب جب چہرے بدلے گئے۔ نمایاں تبدیلی نظر نہیں آئی بلکہ یہ مسئلہ شدت سے ابھر کر سامنے آیا کہ سسٹم چونکہ صحیح طور پر ڈیلیور نہیں کر رہا لہٰذا جب تک نظام کی درستگی عمل میں نہیں آئی ظاہری طور پر کی گئی تبدیلی مثبت اثرات مرتب کرنے سے قاصر رہتی ہے۔

(جاری ہے)

درحقیقت جمہوریت کی مضبوطی کی کا انحصار بھی نظام پر ہوتا ہے۔

کسی مغربی دانشور نے کہا کہ ترقی پذیر ریاستوں میں انکی بقا کیلئے جمہوریت کی گھنٹی باندھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سوال پھر وہی سامنے آتا ہے کہ جمہوریت کی گھنٹی کون باندھے؟ اگر کسی ریاست میں جمہوری نظام ہے بھی تو اس کی صحیح اشکال کیسے متعین کی جائیں۔ اس کیلئے سیاسی تربیت شعور اور شیڈو کیمپ جیسے محرکات اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ لندن کے تکثیر پسند پروفیسر لاسکی اسی نظریہ کے حامی ہیں کہ ریاست بذات خود ایک مقصد ہوتی ہے۔

حکومتی سطح سے لیکر عام آدمی تک ریاست کی فلاح کیلئے کام کرتا ہے بلکہ وہ تو ریاستی مقاصد کی تقسیم بھی اس طرح کرتا ہے۔ریاست کے بنیادی مقصد میں سرحدوں کا دفاع اور مضبوط عدلیہ جو کہ عوام کی حفاظت کر سکے اور ثانوی مقاصد میں عوام کی دیگر سہولیات شامل ہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر ان محرکات کو لانے میں کامیاب نہیں ہو جاتے چاہے وہ سندھ ہو‘ خیبر پختونخواہ ہو یا کوئی صوبہ نمایاں تبدیلی اور ترقی کے خواب کو حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔

ہمارا اصل مسئلہ ہی اس سسٹم سے غفلت ہے جو جمہوریت کو مضبوط تر کرتا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک غریب بڑھیا کا بچہ گم ہو گیا۔ وہ شکایت لے کر والی کے پاس پہنچی‘ والی نے اس کی مدد کا یقین دلایا۔ تقریباً ایک ماہ گزر گیا لیکن بڑھیا کے بیٹے کا پتہ نہ چل سکا۔ اتفاقاً والی کا اپنا بیٹا گم ہو گیا۔ سپاہ کی ایک بھاری نفری نے دو دن میں بیٹا تلاش کر لیا۔

لیکن بڑھیا کے دل میں یہ احساس ضرور پیدا ہو گیا کہ اس کا بیٹا بھی کسی وزیر یا والی کا بیٹا ہوتا تو بازیاب ہو جاتا۔ عدم مساوات کا احساس زہر قاتل ہے۔ جب سوسائٹی کو اس قسم کا ”احساس“ جکڑ لے تو ”افادیت پسندی“ جیسے عناصر ختم ہو جاتے ہیں۔ جان آسٹن نے افادیت پسندی کا نظریہ کچھ یوں پیش کیا ہے کہ جب ریاست کا مقصد انسانوں کی بہتری اور فرائض کیلئے ہو جاتا ہے تو فرد میں اعتماد اور اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کا پیدا ہونا قدرتی بات ہے۔

وگرنہ اسکے برعکس صورتحال میں حقیقی بحران پیدا ہونا لازمی بات ہے اور حقیقی بحران، معاشی ترقی ،سماجی بہتری اور سیاسی شعور سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس سے وہ سسٹم متاثر ہوتا ہے۔ جو جمہوریت کے فروغ کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ اس نظام کے بحران کی وجہ ہی یہی ہے کہ افراد کی منفرد حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسی طرز عمل نے ہمیشہ سیاسی انتشار کو جنم دیا ہے۔

وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ چہرے بدلنے کیساتھ اس سسٹم کو بھی بدلا جائے جو اپنی افادیت اور اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات اور اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست کی بجائے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں۔ ہمارے کمزور سیاسی نظام کے ڈھانچے کو کھڑا کرنے کیلئے ہمیں جس جذبے اور مشن کی ضرورت ہے‘ وہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن ہم ایسا نہ کر سکے۔ لہٰذا آج اس مقام پر ہی کھڑے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی قوموں کے زوال میں قوموں کی جدوجہد اور اس کے سفر کو اسی نکتہ آغاز سے شروع کرنے کا درس دیتے ہیں کہ جہاں سے معاشرے نے ابتدا کی تھی۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی اس سیاسی شعور سے بہت پیچھے ہیں کہ جہاں دھونس‘ دھاندلی کی سیاست کی بجائے ایسی سیاست جنم لے جس میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے۔

چہ جائیکہ کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کوششیں کی جاتی رہیں۔چنانچہ ہمیں اس قومی تشخص کی ضرورت ہے جسکے بحران کا ہم شکار ہیں۔ تب کہیں جا کر ہم نہ صرف نظام میں تبدیلی لا سکیں گے جمہوری انداز میں معاشرے کی تربیت کر سکیں گے بلکہ ایک بہتر مستقبل کیلئے بوسیدہ سیاست میں نئے انداز بھی متعارف کروا سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Siasat K Andaz Main Tabdeeli Ki Zarorat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 August 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.