سندھ میں پی پی،وفاق میں ن لیگ کو قابو کرنیکی کوششیں

ایک طرف اسلام آباد میں متحدہ مسلم لیگ کی تشکیل کی کوششیں جاری ہیں جنہیں قریبی حلقے آخری مرحلہ قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف سندھ میں پی پی مخالف اتحاد کا احیا کیا جا رہا ہے جسے پی پی کے جیالے نیا جال پرانے شکار ی سے تعبیر کرتے ہیں۔

اتوار 1 اکتوبر 2017

Sindh Main PP Wafaq Main None League Ko Kabo Karny Ki Koshish
الطاف مجاہد:
ایک طرف اسلام آباد میں متحدہ مسلم لیگ کی تشکیل کی کوششیں جاری ہیں جنہیں قریبی حلقے آخری مرحلہ قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف سندھ میں پی پی مخالف اتحاد کا احیا کیا جا رہا ہے جسے پی پی کے جیالے نیا جال پرانے شکار ی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن 2013ءسے 2017 ءکے اواخر تک وفاق میں حکومت کاحصہ رہنے والے شیرازی ، ارباب، پگارا، جتوئی اب یکایک فعال ہو کر کسی ہوم ورک کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے 18,17نیز19نومبر کو صوبے بھر میں عوام جگاو¿ ریلیاں نکالنے اور 26نومبر کو سکھر میں بڑے جلسے کا اعلان کیا ہے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان ہوگا۔ وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی کی زیر صدارت اجلاس میں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، سندھ ترقی پسند پارٹی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، عوامی تحریک سندھ، نیشنل فرنٹ ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت علمائے پاکستان کے نمائندے شریک نہیں تھے حالانکہ ان میں سے کچھ 2013ءکے الیکشن میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ تھے۔

(جاری ہے)

جس نے پیر پگارا کی سرپرستی میں انتخاب لڑا تھا لیکن ارباب، شیرازی اور جتوئی برادران نیز پیر پگارا بھی اپنے اپنے اضلاع میں جیت سکے تھے۔ جمعیت علمائے اسلام، عوامی تحریک، مسلم لیگ ن، سندھ ترقی پسند پارٹی شکست کھا گئی تھیں اور خود پیر پگارا خیرپور، میٹاری، عمر کوٹ ، ٹنڈو الٰہیار میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے اور سانگھڑ میں بھی انکی نشستیں گھٹی تھیں اس میں پی پی کی خوش قسمتی سے زیادہ جی ڈی اے کی بدقسمتی کا دخل تھا جو لیڈروں کے جمگٹھے میں کامیابی کامدعی تھا حالانکہ 2008ءکے الیکشن کے بعد مضبوط تنظیم، مربوط منصوبہ بندی اور موثر عوامی رابطے جاری رکھے ہوئے تو 2013ءکے انتخابی نتائج یکسر مختلف ہو سکتے تھے، اس وقت کسی کی آشیر باد سے سندھ میں مورچہ لگا کر پی پی کو اور وفاق میں متحدہ مسلم لیگ کی داغ بیل ڈال کر ن لیگ کو چیلنج کیا جائے گا۔

یہ بات اب زیادہ ڈھکی چھپی نہیں رہی یوں محسوس ہو رہا ہے کہ 2018ءکے الیکشن سے قبل سندھ میں پی پی اور وفاق میں ن لیگ کو مداخلت پر مجبور کرکے ایسے انتخابی نتائج قبول کرنے کی سمت لیجایا جائے گا جہاں وہ تن تنہا فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے کی بجائے اتحادیوں کی خواہشات کو بھی ملحوظ رکھیں۔ سندھ میں آصف زرداری کی کوششوں سے جیتنے والی تمام شخصیات پی پی کا حصہ بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں۔

جی ڈی اے پورے سندھ امیدور کھڑے کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔2015ءکے بلدیاتی چناو¿ میں پی پی مخالف اتحاد کشمور سے مٹیاری تک پی پی کے خلاف تھا جبکہ حیدر آباد اور کراچی میں وہ پی پی سے مفاہمت کرکے متحدہ قومی موومنٹ کو چیلنج کر رہا تھا۔سندھ اسمبلی جس میں پی پی تن تنہا حکومت نہ بنا سکی اور اتحادی تلاش کئے۔1990ءاور 2002ءکی صورتحال کا نقشہ پیش کرے گی جب جام صادق علی اور علی محمد مہر نے چیف منسٹر شپ کا حلف اٹھایا تھا لیکن اس وقت الیکٹراک میڈیا موجود نہ تھا اور سوشل میڈیا کی فعالیت بھی آج جیسی نہیں تھی جب لمحوں میں ایشوز ہائی لائٹ ہو جاتے ہوں اس لئے شاید ماضی کے تجربات اتنی آسانی سے نہ دہرائے جا سکیں گے ۔

جیسے کہ پہلے ہوتا رہا ہے سندھ میں جی ڈی اے کی فعالیت کو کچھ حلقے عمران خان کی صوبہ میں انٹری کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں کراچی، سکھر، داو¿د، کندھکوٹ اور گزشتہ ہفتے حیدر آباد میں دوسرے بھرپور جلسے کے بعد سندھ نے بڑے خاندان خود کو نظرانداز کئے جانے سے بھی پریشان ہیں۔ وہ عمران خان کو ایسے لیڈر کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو آصف زرداری یا نوازشریف سے مختلف ہے اور وڈیرہ کلاس کو دھمکیاں دے رہا ہے گو کہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین کی موجودگی اور ممتاز بھٹو سے رابطے اشارہ دیتے ہیں کہ سندھ وڈیروں کیلئےنرم گوشہ پی ٹی آئی میں نکالا جا سکتا ہے لیکن شاید انہیں ماضی جس کی من مانیوں کا موقع شاید ہی مل سکے ۔

پی ٹی آئی نے سندھ میں منتشر اپوزیشن کو اپنی سمت راغب کرنے کی بجائے پی پی میں قیادت سے نالاں افراد کو توڑنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور شاہ محمود قریشی سے متعلق اطلاعات ہیں کہ غوثیہ جماعت کے سربراہ اور درگاہ غوث بہاو¿الدین ذکریا ملتانی کے سجادہ نشین کے طور پر وہ غوث بخش مہر، فدا ڈیرو، سلیم جان مزاری، تھر کی اسہوک اور نوہڑیو شخصیات ، گھوٹکی کے مہر برادران سے براہ راست رابطے میں ہیں۔

نیز وہ پیر پگارا اور مخدوم جمیل الزماں سے بھی بندھ کے بعض اضلاع میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں اگر تحریک انصاف کوئی اچھا پیکیج لے آئی تو جی ڈی کو نومبر تک بہت سی مشکلات کے اسپیڈ بریکروں کا سامنا کرنا پڑے گا جو شاید وڈیرہ کلاس افورڈ نہ کر سکے اس وقت سندھ میں دو گروپ ، پارٹیاں یا دھڑے ہیں ایک پی پی کا حامی ، دوسرا اس کا مخالف، اپوزیشن متحد ہو جائے اور ون ٹو ون مقابلے ہوں تب تو اپ سیٹ کا امکان ہے ورنہ منتشر اپوزیشن کیلئے این اے 120کا نتیجہ سامنے ہوگا جہاں مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کو محض اس لئے پچھاڑ دیا کہ ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک پاکستان نے بھی ن لیگ ہی کو چیلنج کیا تھا کیا سندھ میں بھی تحریک انصاف، جی ڈی اے اور سندھ قوم پرست پی پی کو علیحدہ علیحدہ چیلنج کرینگے یہ سوال جواب یہ سوال جواب چاہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sindh Main PP Wafaq Main None League Ko Kabo Karny Ki Koshish is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 October 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.