سپریم کورٹ کا دانشمندانہ فیصلہ

پارلیمانی جمہوریت میں عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہوتا ہے۔ ریاست کے نظام کو خوش اسلوبی سے چلانے کی ذمے داری پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے جب خود ہی پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دیں اور اجلاسوں کا کورم پورا نہ ہو، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر (عمران خان) پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہ کریں تو پارلیمنٹ عوام اور ریاستی اداروں کی نظر میں اہمیت کھو بیٹھتی ہے

جمعرات 10 نومبر 2016

Supreme Court Ka Danishmandana Faisla
قیوم نظامی:
پارلیمانی جمہوریت میں عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہوتا ہے۔ ریاست کے نظام کو خوش اسلوبی سے چلانے کی ذمے داری پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے جب خود ہی پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دیں اور اجلاسوں کا کورم پورا نہ ہو، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر (عمران خان) پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہ کریں تو پارلیمنٹ عوام اور ریاستی اداروں کی نظر میں اہمیت کھو بیٹھتی ہے اور اس کا عوام دیا ہوا وقار اور اعتماد ہی مجروح ہو جاتاہے۔

پاکستان کا انتخابی نظام چوں کہ ناقص اور فرسودہ ہے اس لیے عمومی طور پر اوسط درجے کے لوگ منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں جو سیاسی بحران پیدا تو کرلیتے ہیں مگر اس بحران کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

(جاری ہے)

2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ سیاسی مسئلہ تھا جسے سیاستدان افہام و تفہیم سے حل کرسکتے تھے مگر ان کی نااہلی اور بدنیتی کی بناء پر یہ سیاسی مسئلہ سپریم کورٹ میں پہنچا اور جوڈیشل کمشن کے ذریعے اسے حل کیا گیا۔

پانامہ لیکس عالمی مسئلہ تھا دنیا کے مختلف ممالک نے اس مسئلے کو سیاسی جمہوری اصولوں اور ملکی قوانین کے مطابق حل کرلیا مگر پاکستان میں یہ مسئلہ پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں حل ہونے کی بجائے سڑکوں پر پہنچ گیا۔ کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ جمہوری نظام ہی خطرے میں پڑگیا۔ سپریم کورٹ نے بروقت مداخلت کرکے پانامہ لیکس سکینڈل کو اپنے ہاتھ میں لے کر کشیدگی اور تناوٴ کو ختم کیا اور ریاست کا نظم و نسق معمول پر آگیا۔

پاکستان کے عوام نے اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو دانشمندانہ اور خوش آئند قراردیا ہے۔
یکم نومبر کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بڑے حوصلہ افزاء ریمارکس دئیے۔ دلیر اور بے باک جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا سارا ملک احتجاج کر رہا ہے اور پاکستان کے شہری مضطرب ہیں۔ ریاستی ادارے پانامہ لیکس کی تحقیقات سے گریز کررہے ہیں لہٰذا ہم نے اس معاملے کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نے یقین دلایا کہ پانامہ لیکس کے لیے کمشن برائے کمشن نہیں بنایا جائے گا بلکہ یہ کمشن بامقصد اور بامعنی ہوگا اور منطقی نتیجے پر پہنچے گا۔ پانامہ لیکس کے بعد وزیراعظم شدید دباوٴ کا شکار ہوگئے تھے انہوں نے اس دباوٴ سے نکلنے کے لیے 13مئی 2016ء کو چیف جسٹس پاکستان کے نام خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ 1956ء کے انکوائری ایکٹ کے تحت پانامہ لیکس کی انکوائری کے لیے کمشن تشکیل دیا جائے۔


وزیراعظم کے قریبی وکلاء نے ان کو یقین دلایا تھا کہ 1956ء کے ایکٹ کے تحت جو کمشن بنایا جائے گا وہ وفاقی حکومت کے رحم و کرم پر ہوگا اور بحران ٹل جانے کے بعد وزیراعظم اس کمشن کو ختم بھی کرسکیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم کے ارادوں کو بھانپ لیا اور قرار دیا کہ 1956ء کے ایکٹ کے تحت جو کمشن بنایا جائے گا وہ بے مقصد اور بے سود ہوگا لہٰذا حکومت نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق نئی قانون سازی کرے۔

حکومت اور اپوزیشن چھ ماہ گزرنے کے باوجود ٹی او آرز پر متفق نہ ہوسکی اور اب گیند ایک بار پھرعدلیہ کی کورٹ میں ہے جس نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں طاقتور اور بااختیار کمشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹیک سوسائیٹی کی فکری نشست میں آئین و قانون کے ماہر سابق وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر نے تجویز پیش کی تھی کہ وزیراعظم پانامہ لیکس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے ٹی او آرز تسلیم کرکے سیاسی بحران ختم کرسکتے ہیں ان کی یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔

عمران خان نے 2نومبر کے اسلام آباد لاک ڈاوٴن سے پہلے دو مطالبات پیش کیے تھے اول یہ کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں۔ دوم یہ کہ وہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کریں۔
عمران خان کا دوسرا مطالبہ سپریم کورٹ نے پورا کردیا اور پانامہ لیکس پر کمشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان کے پاس لاک ڈاوٴن ختم کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔

عدلیہ نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو صبر اور تحمل کی تلقین کی تھی۔ عمران خان اگر اپنی کال واپس نہ لیتے تو خون خرابے کا خدشہ تھا جس کی ذمے داری تحریک انصاف پر عائد کی جاتی۔ عمران خان کا فیصلہ ان کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں نے اطمینان اور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور عدلیہ کو یقین دہانی کرائی کہ اس کے فیصلے کو خوشدلی کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا۔

اس ضمن میں پاکستانی عوام کے خدشات جائز ہیں کیوں کہ دھاندلی کمیشن کے علاوہ اور کسی کمیشن کا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ایبٹ آباد کمیشن، میموگیٹ کمیشن، لال مسجد کمیشن، سانحہ ماڈل ٹاوٴن کمشن اور سلیم شہزاد کمیشن کی رپورٹیں ہنوز خفیہ ہیں۔ پانامہ لیکس سکینڈل میں چوں کہ شریف خاندان ملوث ہے۔ میاں نواز شریف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں ریاست کے تمام ادارے ان کے دباوٴمیں ہیں لہٰذا سپریم کورٹ کو مشکلات کا سامنا ہو گا۔

اسے آئین اور قوانین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے عدالتی کاروائی مکمل کرنی ہے۔ سپریم کورٹ کو ریاستی اداروں کے مکمل تعاون کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم اپنے اختیارات اور دباوٴ استعمال کرکے تاخیری حربے اختیار کرسکتے ہیں۔ عدالتی انصاف کے راستے میں حائل ہونے کے سلسلے میں وزیراعظم کا ریکارڈ افسوسناک رہا ہے مگر اب وقت ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔

ان کی اخلاقی اتھارٹی ختم ہوچکی ہے پانامہ لیکس کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے جس کی دولت چوری کرکے اسے غربت، افلاس، بھوک ننگ، جہالت اور بے روزگاری کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کی 3نومبر کی سماعت پر وزیراعظم کی جانب سے جواب داخل کرادیا گیا جبکہ عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کو جواب داخل کرانے کے لیے 7نومبر تک مہلت دی ہے۔

عمران خان کے نامور وکیل حامد خان نے سپریم کورٹ میں ٹی او آر پیش کردئیے ہیں جبکہ وزیراعظم کے وکلاء نے ابھی ٹی او آر داخل نہیں کئے۔آئین اور قانون کے ماہرین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ وزیراعظم کے وکلاء یہ قانونی نکتہ اْٹھاسکتے ہیں کہ کیا عدلیہ کو ٹی او آرز بنانے کا آئینی اختیار ہے۔ یہ نکتہ مقدمے کو طول دینے کے لیے اْٹھایا جائے گا مگر ججوں کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ پانامہ لیکس کا مسئلہ جلد حل کرنا چاہتی ہے تاکہ ریاست سیاسی بحران سے باہر نہ نکل سکے۔

عدالت نے ایک رکنی کمشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے لمحات آتے ہیں جب ریاست کا طاقتور ادارہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ثابت قدمی سے کھڑا ہوجاتا ہے اور آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دے کر ریاست کی سمت درست کردیتا ہے۔ شاید وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا ہے اور قوم کو کرپشن کے عذاب سے نجات ملنے والی ہے۔سپریم کورٹ کے معزز اور محترم جج اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ”کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا اور یہ کہ میں ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا“ فیصلہ سنائیں گے۔

بعض تبصرہ نگار اور اینکرز ماضی کے بعض عدالتی فیصلوں کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جو بلاجواز نہیں ہیں مگر عدالتی تاریخ میں ایسے مثالی جج بھی آتے رہے جنہوں نے ہر قسم کے دباوٴ کو مسترد کرتے ہوئے بلاخوف و خطر یادگار اور تاریخی فیصلے سنائے۔ ریاست کے طاقتور ادارے شاید اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سیاسی لیڈروں کو ”سیاسی شہید“ بننے کا موقع نہیں دینا چاہیئے ان کو سیاست سے باہر کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہونا چاہئے جو انتخابات میں ان کو ”ووٹ آوٴٹ“ کر دیں البتہ پاکستان کا آئین عدلیہ کو اختیار دیتا ہے کہ سیاستدان اگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کریں تو عدلیہ ان کو نااہل قراردے سکتی ہے جس کی بیسیوں مثالیں عدالتی تاریخ میں موجود ہیں۔

اگر عدلیہ کسی سیاستدان کو نااہل قراردے تو وہ سیاسی شہید نہیں بن سکتا۔ شاید سیاسی منظر تبدیل ہونے والا ہے اور نئے انتخابات کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ ریاست کے استحکام کے لیے جمہوری راستہ ہی بہترین راستہ ہے البتہ موجودہ اشرافیہ کی جمہوریت کو حقیقی اور عوامی جمہوریت بنانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Supreme Court Ka Danishmandana Faisla is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 November 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.