وزیر اعلیٰ سندھ کا اسمبلی تحلیل کرنے کا عندیہ

صوبے کی وفاق سے شکایات 68 ارب روپے کم ملنے کا واویلا، دہشت گردی کا حق دوبارہ نہیں دیں گے،مراد علی شاہ کا متحدہ پر طنز

جمعرات 29 جون 2017

Wazir e Aala Sindh Ka Assembly Tehleel Karnay Ka Andia
سالک مجید:
حکومت سندھ نے ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا تاریخ ساز بجٹ تو اسمبلی سے منظور کرالیا ہے لیکن یہ بات سوالیہ نشان بن گئی ہے کہ اب سندھ اسمبلی اپنی مدت پوری کرپائے گی یا اسے تحلیل کر دیا جائے گا۔کسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اسمبلی میں خطاب کے دوران یہ معاملہ اٹھا دیا ہے،ان کی باتوں پر سیاسی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے کہ یہ باتیں کیوں کی گئیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ اسمبلی اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور اسمبلی تحلیل کردی جائے۔سیاسی حلقوں میں بحث ہورہی ہے کہ وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی باتیں شروع ہوگئی تھیں،ہر جگہ وزیر اعلیٰ کو یہی بات سننے کو مل رہی تھی اس لئے انہوں نے جوابی کاروائی کے طور پر یہ شوشا چھوڑدیا کہ یہ اسمبلی اپنی مدت مکمل نہیں کر سکے گی اور اسے تحلیل کر دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

،بظاہر سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی،اگر اسے پانامہ کیس میں وزیراعظم نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس صورت میں بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خراب سے خراب حالات میں بھی وزیر اعظم صرف قومی اسمبلی کو تحلیل کراسکتے ہیں صوبائی اسمبلی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔خصوصاََ سندھ میں تو حکومت بھی وزیر اعظم کی مخالف سیاسی جماعت کی ہے لہٰذا سندھ اسمبلی کو کیوں تحلیل کی جائے گی یہ بات اگر قومی اسمبلی کے حوالے سے کی جائے تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ان دونوں صوبوں میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت ہے،لہٰذا خراب سے خراب حالات میں اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کریں تو صرف اپنے زیر اثر اسمبلیوں میں یہ فیصلہ کرسکتے ہیں،پھر سوال اٹھتا ہے کہ کے پی کے اور سندھ اسمبلی کا مستقبل کیا ہوگا؟۔


سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ نے اپنے اوپر آنے والا دباؤ کم کرنے کے لئے یہ بات کی ہے اور سندھ اسمبلی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔صوبائی حکومت آرام سے کام کررہی ہے اور وزیراعلیٰ خود بھی کافی متحرک اور سرگرم ہیں۔ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر ان کی بھر پور توجہ مرکوز ہے اور بجٹ میں بھی اربوں روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں اس لئے مالیاتی اعتبار سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو وزیراعلیٰ کی کارگردگی سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے البتہ پارٹی قیادت کے قریبی دوستوں ساتھیوں کو جو ریلیف درکار ہے اور جس طرح کی سہولتیں اور مراعات درکار ہیں وہ حاصل نہ ہونے پر پارٹی قیادت کا دباؤوزیر اعلیٰ سندھ پر بڑھ رہا ہے،اسی تناظر میں متبادل وزیر اعلیٰ کے طور پر ناصر علی،سہیل انور سپال،جام خان شورو،امتیاز شیخ کے نام مارکیٹ میں گردش کر رہے ہیں جبکہ خود ناصر شاہ اس قسم کی خبروں کی تردید کرچکے ہیں اور وزیر اعلیٰ نے بھی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔

ان کو ہٹانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے،پارٹی قیادت کا بھر پور اعتماد انہیں حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری ان دنوں لندن گئے ہوئے ہیں،ان کا پارٹی رہنماؤں سے مسلسل رابط ہے وہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر نظر بھی رکھے ہوئے ہیں،ان کی بیرون ملک موجودگی کہ وجہ سے ان کی ہمشیرہریال تالپور اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کافی سرگرم ہیں۔

افطار پارٹیوں میں بھی فریال تالپور اور وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ ایک ساتھ شریک ہورہے ہیں۔صوبائی حکومت کے اہم فیصلوں میں بھی وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ بلاول بھٹو سے رہنمائی لیتے ہیں اور فریال تالپور سے بھی مشاورت کرتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی طبیعت بہتر نہیں ہے اور ڈاکٹروں نے ان کو طبی معائنے اور آرام کرنے کی ہدایت کی ہے۔

صوبائی حکومت کی راہداریوں میں بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ خواجہ انور مجید کو مطمئن نہیں کیا جاسکا۔اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کے عہدے سے فارغ کرنے میں وزیر اعلیٰ کامیاب نہیں ہو سکے،اس طرح ڈاکٹر عاصم کو جلد بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کا معاملہ بھی حل نہیں ہو سکا اور ان کو بھی عدالتوں کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ کو پارٹی قیادت کی جانب سے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے حوالے سے جو ٹاسک سونپا گیا اس میں حسب منشا نتائج نہیں آئے اس لئے وزیر اعلیٰ سے پارٹی قیادت کو ناراض بتایا جاتا ہے۔


پیپلز پارٹی کی قیادت ان دنوں اس لئے بھی پریشان ہے کہ پنجاب میں اس کی بڑی بڑی وکٹیں کپتان نے گرادی ہیں ا ور یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا بلکہ اس میں ہرگز رنے والے دن کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔فردوس عاشق اعوان،نذر گوندل،امتیاز وڑائچ،وغیرہ پیپلز پارٹی کو چھو ڑ گئے تو یہ پارٹی قیادت کے لئے اچھی خبریں نہیں ہیں،ان واقعات کی وجہ سے پارٹی قیادت پر دباؤ آنا فطری بات ہے۔

ایسی صورتحال میں دباؤ نیچے والے پارٹی رہنماؤں پر بھی آتا ہے اور غصہ اتارا جاتا ہے،اُدھر پی ٹی آئی نے سندھ میں اپنی پارٹی پوزیشن مضبوط بنانے کی حکمت عملی وضع کرلی ہے،گزشتہ دنوں جہانگیر ترین نے کراچی کا اہم دورہ کیا اور سیاسی ملاقاتیں کیں اور کراچی کے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 114 پر 9 جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن کو جیتنے کے لئے لابنگ کر کے گئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر علی اکبر گجر یہاں سے ضمنی الیکشن لڑرہے ہیں۔
امکان ہے کہ پی ٹی آئی سردار عبدالرحیم کو میدان میں اتارے گی ان سے جہانگیر ترین کی ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی بھی اس نشست پر اپنا زور آزمائیں گی۔ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ کی تقریر کے موقع پر نعرے لگائے کہ ”اختیار دو،اختیار دو‘میئر کراچی کو اختیار دو“اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایم کیو ایم پر طنز کرتے ہوئے جواب دیا کہ اگر کسی کو دوبارہ دہشت گردی کا حق چاہیے تو وہ انہیں نہیں ملے گا۔وزیر اعلیٰ نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ اب سندھ کے بن جائیں اور سندھ کی تقسیم کی بات بھول جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wazir e Aala Sindh Ka Assembly Tehleel Karnay Ka Andia is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 June 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.