وزیراعظم کا عام انتخابات کیلئے مسلمہ سیاسی عزم!

2018ء”نام نہاد “ متحدہ اپوزیشن پر بھاری نظر آتا ہے لاہور کے ” فلاپ شو“ میں ایک طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرکے پوری قوم کو یہ پیغام دیا ہے وہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت گرانے میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے تیار نہیں

پیر 29 جنوری 2018

Wazir e Azam Ka Aam Intakhabat K Liay Muslima Siasi Zzm
نواز رضا:
2018ء”نام نہاد “ متحدہ اپوزیشن پر بھاری نظر آتا ہے لاہور کے ” فلاپ شو“ میں ایک طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرکے پوری قوم کو یہ پیغام دیا ہے وہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت گرانے میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے تیار نہیں ۔

دوسری طرف انہوں نے اپنی” بغل بچہ“ پارٹی کے سربراہ شیخ رشید احمد کے ہمراہ پارلیمنٹ پر ”لعنت“ بھیج کر جہاں پوری پارلیمنٹ کو اپنا مخالف بنا لیا ہے وہیں اس ”لعن طعن“ کرنے پر مسلم لیگ (ن) سے زیادہ سخت رد عمل پیپلز پارٹی کی طرف سے آیا ہے۔سرد ست پوری پارلیمنٹ عمران خان اور شیخ رشید احمد کے طرز عمل کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

(جاری ہے)

عمران خان اور شیخ رشید احمد کی جانب سے لعنت بھیجنے پر پارلیمنٹ متفقہ طور پرمذمتی قرارداد منظور کر چکی ہے جب کہ تحریک انصاف کے ارکان کی جانب سے ”لعنت“ کا لفظ استعمال کرنے پر معذرت کی بجائے اصرار پر منگل کو قومی اسمبلی کا ”پرائیوٹ ممبرز ڈے“ ہنگامے کی نذر ہو چکا ہے۔

شیخ رشید احمد نے لاہور کے جلسہ میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا ڈرامہ رچایا تھا لیکن تاحال استعفیٰ نہیں دیا دوبئی سے واپسی کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا ہے کہ انہیں عمران خان نے استعفیٰ دینے سے روک دیا ہے تاہم انہوں نے اب نئی تاریخ 28 جنوری 2018ء دے دی ہے اور کہا ہے وہ28جنوری2018ء سے قبل استعفیٰ نہیں دیں گے تاکہ اس نشست ضمنی انتخاب نہ ہو سکے جبکہ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے تمام ارکان کے استعفے ان کے پاس جمع ہوگئے ہیں وہ استعفے دینے کے بارے میں مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے گویا انہیں بھی استعفے دینے کی جلدی نہیں ہے اس دوران الیکشن کمیشن نے بھی اپنے اجلاس میں 2فروری 2018ء کو سینیٹ کی خالی ہونے والی 52نشستوں کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان کا فیصلہ کر لیا ہے لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے اپوزیشن کی جماعتیں سینیٹ کے انتخابات رکوانے میں کس حد تک سنجید گی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ؟ شیخ رشید احمد نے جذباتی انداز میں مستعفی ہونے کا اعلان کر کے ”مین آف دی میچ“ کا اعزاز تو حاصل کر لیا ہے لیکن اب وہ عمران خان کی طرح تذبذب کا شکار ہیں دونوں نہیں چاہتے کہ ان کی خالی ہونے والی نشتوں پر ضمنی انتخاب ان کے لئے مسئلہ ہی نہ بن جائے۔

عمران خان اور شیخ رشید احمد اس بات سے خوف زدہ ہیں دکھائی دیتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل ضمنی انتخاب مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ”ریفرنڈم “ کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کی کسی نشست پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے اس لئے شیخ رشید احمد اور عمران خان استعفوں کے معاملہ پس و پیش سے کام لے رہے ہیں سپیکر نے تو شیخ رشید احمد سے یہ کہا ہے کہ” وہ ٹیلیفون پر بھی استعفا دیں تو بھی قبول کرلوں گا “ تحریک انصاف کا ایک رکن امجد نیازی قومی اسمبلی میں نعرے بازی کرتے ہوئے اپنے استعفے کا اعلان کر رہا تھا اگر اس وقت اس کا مائیک کھلاہوتا تو اس کا استعفا ریکارڈ ہونے کے باعث منظور کر لیا جاتا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا شمار پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی ٹی وی ٹاک شو دیکھتے ہیں اس لئے وہ خوش رہتے ہیں۔

انہوں نے ڈیوس میں اکنامک فورم میں شرکت کے لئے روانگی سے قبل اخبار نویسوں کے تین گروپوں سے الگ الگ ملاقاتوں میں اعادہ کیا ہے ”ایک روز قبل بھی عام انتخابات نہیں ہوں گے“ انہوں نے کہا ہے” میں پاکستان کی تاریخ کا خطرناک وزیراعظم ہوں جو کچھ بھی کہہ اور کر سکتا ہے، ماضی کی طرح کرپٹ ترین شخص کو نگران وزیراعظم نہیں لگایا جائے گا سابق نگران وزیراعظم کے دور میں اس قدر رشوت کا بازار گرم ہوا کہ ان کے دو سیکرٹریز استعفے دے کر چلے گئے، پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔

قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے ہیں انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ ”مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کی قیادت ہی میں انتخابات 2018ء کو لڑے گی شہباز شریف یا میری تصویر لگانے سے کوئی ووٹ نہیں دے گا۔نوازشریف کی تصویر ہی چلے گی سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا فیصلہ پاکستان کے عوام 2018ء کے انتخابات میں کریں گے“ اگلے روز فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے دئیے گئے اس بیان کا نوٹس لیا جس میں انہوں نے کہا کہ ” فوج عام انتخابات بروقت کرانے کی ضمانت دیتی ہے اللہ نہ کرے فوج کا سربراہ عام انتخابات کا اعلان کرے “ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ” الیکشن کرانے کی گارنٹی دینا فوج کام نہیں “ وزیر اعظم کی” باڈی لینگوئج “ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ان تمام قوتوں پر واضح کر دیا ہے وہ کسی کے دباؤ میں آکر قومی اسمبلی نہیں توڑیں گے۔

تاہم اگر ان کے قائد میاں نواز شریف قومی اسمبلی توڑنے کا اشارہ بھی کریں تو وہ قومی اسمبلی توڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہر سال کو انتخابات کا سال قرار دیتے تھک گئے ہیں لیکن ان کا انتخابات کا سال نہیں آیا، کچھ یہی صورت حال ان کی طفیلی پارٹی کے سربراہ شیخ رشید احمد کی ہے جو سال میں چھ بار ملک کے لئے آئندہ تین ماہ اہم قرار دینے کی شہرت رکھتے ہیں قیاس آرائیاں غلط ثابت ہونے کے باوجود وہ کبھی بد مزہ نہیں ہوئے۔

عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ ماہ میاں نواز شریف کو سزا ہو جائے گی ، اس لئے وہ عدلیہ کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ غالباً نواز شریف کو بھی اس حقیت کا احساس ہے لہذا وہ سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کا مقابلہ کر نے کے لئے گھر سے نکل آئے ہیں ان کی رابطہ عوام کو جہاں زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے وہاں چکوال کے ضمنی انتخا بات میں شاندار کامیابی نے میاں نواز شرف کا”مورال “بلند کر دیا ہے میاں نواز شریف نے کوٹ مومن کے بڑے جلسہ میں اپنی ”سیاسی جانشین “ مریم نواز کو لانچ کر دیاہے ایسا دکھائی دیتا ہے وہ اپنے جیل جانے سے قبل زیادہ سے زیادہ جلسوں خطاب کرکے مریم نواز کو اپنے سیاسی جانشین کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے تاحال عدلیہ کے بار ے میں اپنا” بیانیہ“ تبدیل نہیں کیا ، پارٹی میں ”نوواردوں “ اور ”ہارڈ لائنرز “ نے اپنی جگہ بنانے کے لئے چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کے درمیان فاصلے پیدا کر دئے ہیں۔ یہی وجہ ہے چوہدری نثار علی خان کی میاں نواز شریف سے پچھلے ایک ماہ کے دوران کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

میاں نواز شریف جو اس سے قبل چوہدری نثار علی خان سے مشارت کے بغیر ایک قدم نہیں چلتے تھے آج ”ہارڈ لائنرز “ کے نرغے میں ہیں جو انہیں ریاستی اداروں سے ٹکرا جانے کے مشورے دیتے ہیں۔میاں نواز شریف کے گرد گھیرا ڈالنے والے ”ہارڈ لائنرز“ پارٹی کی سینئر لیڈر شپ کو ان سے دور کرتی جارہی ہے اور مشاورتی عمل محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جب بھی میاں نواز شریف پیشی کے لئے اسلام آباد آتے ہیں تو ان کے ساتھ پارٹی کے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق ہی نظر آتے ہیں پچھلے ایک ماہ کے دوران4،5 بار میاں نواز شریف اسلام آباد آئے تو چوہدری نثار علی خان یا تو اپنے حلقہ انتخاب میں مصروف نظر آئے یا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے مشاورت کے لئے لاہور میں تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صورت حال یک طرفہ طور پیدا ہوئی ہے یا دونوں جانب سے کوئی اقدام غلط فہمیوں کا باعث بنا ہے ؟چوہدری نثار علی خان کی ناراضی میں سینیٹر پرویز رشید کی ان کے خلاف بیان بازی نے شدت پیدا کی ہے۔ چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف سے اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ سینیٹر پرویز رشید کو ایسے بیانات دینے سے کیوں نہیں روکا گیا؟ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے اس مشکل وقت میں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان ایک ساتھ کیوں نہیں بیٹھ رہے ، کیا چوہدری نثار علی خان کی پارٹی کیلئے خدمات کو فراموش کر دیا گیا ہے؟ سینئر لیڈر شپ کو سامنے آکر صورت حال بہتر بنا نا چاہیے۔

اس وقت راجہ محمد ظفر الحق، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، میاں شہباز شریف ، سر انجام خان ، اقبال ظفر جھگڑا، سردار مہتاب خان ،خواجہ سعد رفیق اور دیگر سینئر مسلم لیگی رہنماوٴں کو مثبت کردار ادا کرکے غلط فہمیوں کو دور کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wazir e Azam Ka Aam Intakhabat K Liay Muslima Siasi Zzm is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 January 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.