زرداری کی واپسی ۔۔بلاول کی تیزیاں

آجکل بلاول بھٹو زرداری کافی پھرتیاں دکھا رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے چیئرمین زرداری صاحب پتلی کا تماشا کر رہے ہیں۔ بلاول کے متعلق پہلی عرض ہے کہ وہ بھٹو کیسے بن گئے جبکہ عام فہم میں وہ آصف زرداری کی اولاد ہیں۔ بھٹو کا نام ان کی کم مائیگی میں پہلا سہارا ہے۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ بھٹو کے نام کے ساتھ ایک بدنصیبی جڑی ہوئی ہے۔ کوئی بھٹو کے نام والا طبعی موت نہیں مرا۔ ذوالفقار بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ اور پھر بینظیر کی اموات کی تحقیقات کسی مثبت نتیجہ کی منتظر ہیں۔ ان سب کو سیاسی رنگ دیکر پس پشت ڈالا گیا ہے

جمعہ 30 دسمبر 2016

Zardari Ki Wapsi
ہادی اقبال حسین:
آجکل بلاول بھٹو زرداری کافی پھرتیاں دکھا رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے چیئرمین زرداری صاحب پتلی کا تماشا کر رہے ہیں۔ بلاول کے متعلق پہلی عرض ہے کہ وہ بھٹو کیسے بن گئے جبکہ عام فہم میں وہ آصف زرداری کی اولاد ہیں۔ بھٹو کا نام ان کی کم مائیگی میں پہلا سہارا ہے۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ بھٹو کے نام کے ساتھ ایک بدنصیبی جڑی ہوئی ہے۔

کوئی بھٹو کے نام والا طبعی موت نہیں مرا۔ ذوالفقار بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ اور پھر بینظیر کی اموات کی تحقیقات کسی مثبت نتیجہ کی منتظر ہیں۔ ان سب کو سیاسی رنگ دیکر پس پشت ڈالا گیا ہے۔ مرتضیٰ اور بینظیر کے قاتل کے متعلق قیاس ہے کہ وہ ابھی بقید حیات ہیں اور ان کی موت سے انہوں نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔بھٹو نام کی بدنصیبی کی وجہ بڑے بھٹو صاحب کے کارناموں کو قدرت کا فیصلہ تصور کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

پہلا کام ان حالات کا پیدا کرنا جس کی وجہ سے پاکستان دولخت ہو گیا کیونکہ بھٹو صاحب کو اقتدار کی ہوس تھی اور اس میں کئی ہزار فوجی اور عام مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے بعد FSF کا قیام اور مخالفین بھٹو کا عبرتناک انجام ہے۔ تیسرا کارنامہ دوسری اسلامک Summit کانفرنس میں لیبیا کے معمر قذافی اور شاہ فیصل کی طرف سے 160 ملین (16 کروڑ) اور 110 ملین (11 کروڑ) ڈالر کا اسلامک بم کیلئے عندیہ جو برادر ذوالفقار بھٹو کے نام چیک کی صورت میں ہے، کا سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پہلا اندوختہ تھے اور پھر اس میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ اب شاید زرداری صاحب کے زیردستخطی ہے۔

یہ دولت بھٹو کے جائز وارثین کو واپس ملنی چاہئے۔ زرداری صاحب کیلئے بہتر ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں کا اثاثہ پاکستان کے عوام کو لوٹا دیں کیونکہ وہی اس کے جائز وارثین ہیں۔بلاول زرداری صاحب کیلئے عرض ہے کہ سیاست کے میدان میں کامیابی حاصل کرنا ایک نبردآزما کام ہے۔ اس میں حکومتی سطح پر انتظامی امور کا تجربہ نہایت ضروری ہے۔ PPP نفرتوں سے پیدا شدہ تفرقوں کی پیداوار ہے۔

کبھی وہ ملازم اور مالک کے درمیان ہوگی اور کبھی صوبوں کے درمیان۔ اس نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور عوام اس سے محروم ہو گئے۔ رہی سہی کسر آصف زرداری نے نکال دی اور جماعت کو دفن کیا اور خود دبئی میں پناہ گزین ہوئے۔اب واپس آکر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ خوش قسمتی سے صوبہ سندھ میں ان کی جماعت کے پاس ابھی اقتدار ہے جو کہ پنجاب نفرت کا مرہون منت ہے۔


قائم علی شاہ صاحب کے دوران اقتدار میں سیاسی اکابرین نے شاہ صاحب کی نالائقی اور عمر رسیدہ ہونے کے ناطے ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور دبئی اور دیگر ملکوں کے بنکوں کے خزانے بھر دیئے اور جائیدادیں بنا لیں۔ سندھ کے عوام بدترین غلامی اور محرومیوں کا شکار رہے۔ چوری، جرائم، اغوا اور زمینوں پر قبضے روز کا معمول ہے۔ مراد علی شاہ اچھی شہرت کے مالک ہیں اور یہ موقع ہے کہ بلاول حکومتی انتظامی امور کا تجربہ حاصل کر لیں۔

کراچی میں امن و امان کی یقینی بحالی، کوڑا کرکٹ کا اٹھوانا، صاف پانی کی دستیابی سرفہرست ہیں۔ یہی سہولتیں سارے صوبے میں مہیا ہونی چاہئیں۔ پولیس اور دیگر حکومتی اداروں میں کرپٹ ملازمین کو فوری طورپر فارغ اور سزائیں وقت کی ضرورت ہے۔ عوام اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملنے چاہئیں۔ مثلاً سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کیلئے Desalination پلانٹ لگانے چاہئیں۔

کراچی میں زیادہ تر آبادیوں میں Tanker کے ذریعہ پانی 4500فی ٹینکر کے ذریعہ تو حاصل ہو سکتا ہے مگر جہاں پانی کی پائپ لائن ہیں‘ ان میں پانی نہیں آسکتا۔ بہت ساری آبادیوں اور DHA میں پائپ لائنیں ہی نہیں۔ ٹینکر مافیا کا راج ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں بشمول پنجاب کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کیلئے بجلی گھر بنائے جا رہے ہیں جس کیلئے کوئلہ کی ترسیل ایک نہایت مشکل کام ہے۔

اگر یہ کارخانے کراچی اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں لگائے جائیں جہاں ملکی اور درآمد شدہ کوئلہ استعمال کرکے اس کی ترسیل کے عذاب سے چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے اور بجلی Transmissionlines کے ذریعے سارے ملک میں مہیا ہو سکتی ہے۔ سندھ میں نوجوانوں کیلئے بے شمار روزگار کے ذرائع کھل جائیں گے اور جرائم میں کمی ہوگی ۔صحت مند جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کی قیادت موروثی نہیں ہوتی۔

ہر دفعہ کثرت رائے سے نئے سربراہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ رواج پسماندہ پاکستان جیسے ملک کی روایت بن گیا۔ مسلم لیگ (ن) صرف سربراہ نوازشرف سے وفادار درباریوں کیلئے کھلی ہے جس کی وجہ سے PTI معرض وجود میں آئی اور نہایت صحت مند نعرہ لیکر بڑی جماعت بن گئی۔ ہر شخص سربراہوں اور حواریوں کی بدعنوانیوں سے نالاں ہے۔ ملک میں صرف کرپشن ہو رہی ہے۔ بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں۔ PTI کا مشن عوام کی امنگوں کا مظہر ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس نہایت اچھے اکابرین ہیں۔ اعتزاز احسن اور کائرہ شامل ہیں۔ ان کی قیادت میں پارٹی کے دوبارہ میدان میں آنے کے امکانات روشن ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Zardari Ki Wapsi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 December 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.