خصوصی بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع

ملک بھر میں ان کیلئے ایک بھی یونیورسٹی نہیں دنیابھر میں خصوصی افراد کیلئے مخصوص ادارے ہوتے ہیں جو انہیں معاشرے میں بہتر کردار ادا کرنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔ معذور بچوں کیلئے الگ نصاب بنتا ہے، الگ اساتذہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس جانب توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ہمارے یہاں پہلے تو معذور بچے کو اس کے اپنے گھر والے ہی نظر انداز کردیتے ہیں

پیر 16 مئی 2016

Khasoosi Bachoon K Liye Aala Taleem K Muaqey
شاہ جی:
دنیابھر میں خصوصی افراد کیلئے مخصوص ادارے ہوتے ہیں جو انہیں معاشرے میں بہتر کردار ادا کرنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔ معذور بچوں کیلئے الگ نصاب بنتا ہے، الگ اساتذہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس جانب توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ہمارے یہاں پہلے تو معذور بچے کو اس کے اپنے گھر والے ہی نظر انداز کردیتے ہیں، اگر انہیں کوئی بہتر شہری بنانے کی کوشش کرے تو بدقسمتی سے سرکاری سطح پر اس کی حوصلہ افزائی ہی نہیں ہوتی۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب میں40ہزار سے زائد خصوصی بچے ہیں لیکن ان کے لئے ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔ اسی طرح موجودہ یونیورسٹیز میں بھی ان کے لئے خصوصی ڈیپارٹمنٹ نہیں بنائے گئے۔ اس لئے خصوصی بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مشکلات کاسامنا ہے۔

(جاری ہے)

پنجاب میں اڑھائی ہزار سے زائد تعلی اداروں میں 40ہزار سے کے قریب چار کییگریز کے خصوصی بچے زیر تعلیم ہیں۔

ان میں دو کییگریز میں شامل گونگے، بہرے اوت ذہنی معذوروں کو شدید تحفظات لاحق ہیں۔ ایسے بچوں کے والدین کاکہنا ہے کہ ان کیلئے اعلیٰ تعلیم اداروں کے نام پر کوئی خصوصی یونیورسٹی نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ یونیورسٹیز میں ان کیلئے الگ ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پڑھ لکھ جائیں تب بھی ان کے لئے ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یاد رہے ہمارے یہاں سرکاری پالیسیوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سرکار کیلئے تعلیم محض میٹرک تک ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد پڑھ لکھا پنجاب ختم ہوجاتا ہے اور مہنگی تعلیم کاآغاز ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال معذور بچوں کے حوالے سے بھی نظر آتی ہے۔ معذور بچوں کا سلبیس اور طریقہ تعلیم مختلف ہوتا ہے۔ اکثر معذور بچے عام سکولوں یا کالجز میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ۔

یہ لوگ اگر تعلیم حاصل کرکے مفید شہری بننا چاہیں تو ہمارے موجود ماحول کے سبب ایک خاص حد کے بعد ان کا سفرروک دیاجاتا ہے اور یہ معطل عضو کی طرح ہوجاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دیگر معذور افرادکے حوالے سے بھی قوانین پر عمل نہیں کیاجاتا۔ اکثر یونیورسٹیز میں وہیل چیئر کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں بنایا جاتا لہٰذا جو بچہ الیکٹرانک وہیل چیئر کی مدد سے خود آگے بڑھنا چاہتا ہو اسے بھی اکثر کلاس روم میں جانے اور سیڑھیاں چڑھنے کیلئے دوسروں کو مدد طلب نگاہوں دے دیکھنا پڑتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ لاہور بورڈ کے امتحانی سنٹر میں بھی وہیل چیئرزکیلئے کوئی انتظام نہیں اور معذور امیدور کو کرسی پر بٹھایا جاتا ہے پھر دو تین افراد اس کرسی کو اٹھا کر سیڑھیوں سے اوپر لے جاتے ہیں۔کیا معذوروں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے اور معاشرے کے قابل فخر شہری بنانے میں ہماری سرکار کی کوئی دلچسپی نہیں ہے؟ معذوروں کے نام پر دلفریب اعلانات کرنے اورکوٹہ کے نعرے لگانے کے بجائے حقیقی اقدامات ضروری ہیں تا کہ آنے والے وقت میں کوٹہ سسٹم کاخاتمہ ہو اور تمام شہری اوپن میرٹ کی بنیاد پر میدان میں اترنے کے اہل ہوسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Khasoosi Bachoon K Liye Aala Taleem K Muaqey is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 May 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.