مزدور بچے

پھول ہاتھوں کو اس عید پر بھی کوئی عیدی دینے والا نہ ملا۔۔۔ پاکستان میں مزدور بچوں کیلئے این جی اوز اور بے شمارادارے کام کررہے ہیں۔ سوچنے کاپہلو یہ ہے کہاں لاکھوں ننھے مزدوروں کی زندگیوں میں کیا بہتری آئی جوعید کے روز بھی اپنے تنگ وتاریک گھروں سے بے ذائقہ چائے کے چند گھونٹ پی کر رزق تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے

پیر 25 جولائی 2016

Mazdoor Bache
رانا زاہد اقبال :
پاکستان میں مزدور بچوں کیلئے این جی اوز اور بے شمارادارے کام کررہے ہیں۔ سوچنے کاپہلو یہ ہے کہاں لاکھوں ننھے مزدوروں کی زندگیوں میں کیا بہتری آئی جوعید کے روز بھی اپنے تنگ وتاریک گھروں سے بے ذائقہ چائے کے چند گھونٹ پی کر رزق تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ اس کا مطلب ہواکہ ان تمام کوششوں سے کچھ بھی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی صرف حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کا پیٹ کچھ عرصہ کیلئے بھر جاتا ہے کہ اس کی بنیاد پر وہ اپنی فائلوں میں اپنی کارکردگی کی داستانیں تحریرکرسکیں۔


پرانے کپڑوں میں ملبوس ان بچوں کیچروں پر عید کے روزگار کی ایک عجیب سی سنجیدگی طاری رہی، خوشیوں بھرے روز بھی بھوک اور افلاس کی گرد تہہ ان کے چہروں پر جمی نظرآئی۔

(جاری ہے)

ان کمسن کارکنوں کی عید کا مسرت بھرا دن بھی اپنے مالکوں کی جھڑکیاں کھاتے، ماریں سہتے اور مشقت کرتے گزر گیا۔ عید کے روز شہر کی مصروف شاہراہوں پر جہاں تاحدنظر قطاردرقطار قیمتی اور شاندار گاڑیوں میں بچے اپنے والدین کے ساتھ عید کی خوشیوں کو دوبالاکرنے کیلئے تفریح کرتے گھوم پھر رہے تھے وہاں چلچلاتی دھوپ میں ننھے بچے خوشیوں سے دور ننھے ہاتھوں سے محنت تے معاشرے کیلئے ایک لمحہ فکر یہ ہیں۔


ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں محنت کش افرادی قوت میں بچوں کی تعداد تقریباََ 7.5ملین ہے۔ جس میں سے 14 سال تک کے بچوں کی تعداد 27لاکھ ہے، 87فیصد کمسن کارکن دیہی علاقوں میں مقیم ہیں اور بقیہ 13 فیصد شہری علاقوں میں ہیں، 56 فیصد لڑکے اور 44 فیصد لڑکیاں ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں مزدور بچے کل چائلڈ لیبر کا 60فیصد ، صوبہ خیبر پختونخواہ میں 20فیصد، صوبہ سندھ میں 14فیصد اور صوبہ بلوچستان میں 6فیصد ہیں۔

ملک میں اس وقت 40لاکھ سے زائد بچے جیری مشقت کاشکار ہین۔ پاکستان میں 6سے 13سال کے 85فیصد نابالغ بچے جبری مزدوری کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور جیسے جیسے غربت بڑھ رہی ہے جبری مشقت کا یہ عمل بھی بڑھتا جارہاہے۔ ہر پانچویں گھر میں ایک بچہ نوکری کررہاہے۔ صرف پاکستان کی جیلوں میں 2500 سے زائد بچے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
دیہاتوں میں لوگ اپنے روز مرہ کے اخراجات، شادی بیاہ یابیماری کیلئے شہروں میں متمول لوگوں سے قرض لے لیتے ہیں اور اس کے عوض اپنے کمسن بچوں بچیوں کو گھروں میں چھوڑجاتے ہیں جن سے دان رات پورا سال 24 گھنٹے کام لیاجاتا ہے اور غلطی پر انہیں سخت سزا بھی دی جاتی ہے۔

والدین جب تک قرض کی ادائیگی نہیں کردیتے یہ بچے بچیاں بغیر کسی معاوضے کے کام کرتے رہتے ہیں۔ والدین کو آمدنی اور رہائش کی اس قدر سہولیات میسر ہی نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ ان کی تعلیم اورکھانے پینے کے اخراجات برداشت کرنے کے اہل بھی نہیں ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کیلئے یہ بات باعث اطمینان ہوتی ہے کہ کم ازکم ان کے بچوں کوکھانا پینا اور رہائش تو میسر ہے۔


ہمارے ملک میں اینٹیں بنانے والے بھٹوں پر بھی کم عمر بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں ۔ جس کی بنیادی وجہ غربت ہے۔ غربت کے باعث سارا کاساراخاندان بشمول چھوٹی بڑی خواتین کو بھٹہ مالکان کے ہاں ایک طرح کا گروی رکھ دیاجاتا ہے۔ ان کوایڈوانس ادائیگی کے ذریعے جال میں پھانس لیاجاتا ہے۔ بھٹہ مالکان غریب پر اتنا قرض چڑھادیتا ہے کہ اس کو ملنے والی محدود اجرت اسے اتارنے کے قابل ہی نہیں ہوتی اور وہ پورے کے پورے گروی کنبے بھٹوں پر مستقل مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اگر وہ ظلم سے نجات کیلئے بھاگنے کی کوشش کربھی لیں تو کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ بااثر بھٹہ مالک پولیس کی مدد سے انہیں پکڑلاتا ہے جھوٹے بچوں اور تشدد سے ان پر ظلم کرتا ہے جو دوسرے مزدوروں کیلئے مثال بن جاتی ہے اور پھر آئندہ کوئی ایسی حرکت کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔
پاکستان میں چائلڈ لیبرایکٹ کی ببانگ دہل خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں سے جبری مشقت لی جارہی ہے مگر پھر بھی تمام سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں اس اہم مسئلے کے خلاف جدوجہد نہیں کرتے۔

حقیقت یہ ہے کہ جاگیردار، سود خور اور سرمایہ دار افراد ان بچوں سے زبردستی مشقت کرواتے ہیں۔ ہمارے ملک کی 50فیصد سے زائد آبادی حالات کے رحم وکرم پرہے اور ان کی بہتری کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی ہے۔ ایسے نچے جن سے زیادہ تر محنت زراعت کارخانوں، فیکٹریوں، ورکشاپوں، ہوٹلوں، اینٹوں، کے بھٹوں، قالین، بافی ماہی گیری، کان کنی اور گھروں میں لی جارہی ہے ، وہ تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اور مستقل میں وہ کسی دوسرے کام کے قابل بھی نہیں رہتے، نہ ہی معاشرے میں ترقی کے مواقع پاسکتے ہیں اس طرح سے ان کی صحیح نشوونما ، تعلیم وتربیت رک جاتی ہے۔ جب تک جبری مشقت کے خلاف سب مل کرکام نہیں کریں گے تو بچوں پر یہ ظلم جاری رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mazdoor Bache is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 July 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.