مزدوروں کی خون پسینے کی کمائی بیرون ملک منتقل

یوم مئی دنیا بھرکے مزدوروں کے لیے جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اپنے حقوق کے لیے عزت نفس آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے ترقی خوشحالی کے لیے استحصالی طبقوں غاصبوں لٹیروں کے خلاف متحدہ ہونے اور شہدائے شگا گو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تجدید عہد کا یہ دن ہمیں ان شہدا کی یاد دلاتا ہے

جمعہ 29 اپریل 2016

Mazdoroon Ki Khon Pasene Ki kamai
غازی احمد حسن کھوکھر:
یوم مئی دنیا بھرکے مزدوروں کے لیے جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اپنے حقوق کے لیے عزت نفس آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے ترقی خوشحالی کے لیے استحصالی طبقوں غاصبوں لٹیروں کے خلاف متحدہ ہونے اور شہدائے شگا گو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تجدید عہد کا یہ دن ہمیں ان شہدا کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے یکم مئی 1886 کے دن امریکہ کے صنعتی شہر شگاگو میں سرمایہ داروں ، صنعت کاروں اور ریاتی اداروں کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور رہتی دنیاتک مزدوروں کے لیے لازوال قربانی دے گئے۔

مزدورراہنماوں نے پھانسی کے پھندے خوشی سے پھولوں کے ہار سمجھ کر گلے لگائے اور کہا کہ تم ہماری جان تو لے سکتے ہیں ہو مگر ہماری یہ آواز کبھی نہیں دبا سکو گے ہماری زبان سے نکلے ہوئے مزدور طبقہ کے حقوق کی خاطر الفاظ رہتی دنیا تک ہر ظالم جابر سرمایہ دار، صنعت کار حکمرانوں کا تعاقب کرتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

قصہ کچھ یوں ہے کہ امریکہ کے شہر شگاگو جو قدیمی صنعتی شہر ہے وہاں مزدوروں کا استحصال عروج پر تھا۔

صنعت کار سرمایہ دار مزدور کو مشنری کا پرزہ سمجھ کر استعمال کرتے جب مزدور بوڑھا یا لاغر،معذور ہو جاتا تو بغیر وجہ ہٹائے فیکٹری سے نکال دیتے یہی نہیں بلکہ ڈیوٹی ٹائم مقررنہ تھے جب تک چاہتے مزدور سے کام لیتے تھے واجبات مقرر نہ تھے صحت ، رہائش، خوراک اور حفاظتی انتظامات کام کی نوعیت کا تعین تھا نہ ہی ریٹائرمنٹ وغیرہ کی شرائط مقر تھیں ۔

اس استحصال کے خلاف مزدوروں نے ایک یونین قائم کی اور حقوق ومراعات کے لیے کوششیں کیں جب ریاستی اداروں اور صنعت کاروں کوعلم ہوا تو انہوں نے مزدوروں کے اس اتحاد کو نہ صرف اپنے مفاد کے منافی تصور کیا بلکہ کمزور طبقہ کی طرف سے حق کی آواز کو اپنے خلاف گستاخی سمجھتے ہوئے ظالمانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ مگر مزدور باشعور ہوچکے تھے جو دن بدن مضبوط ہوتے گے اب سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے لیے مزدور تحریک سر درد بن چکی تھی کیونکہ مزدوروں کے اس طرز عمل کو ہرگز پسند نہ کرتے ہوئے تسلیم نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی مزدوروں کے مطالبات ماننے کو تیار تھے مزدور آئے روز احتجاج کرتے ، جلسے جلوس نکالتے ۔

ڈیمانڈ نوٹس جاری کرتے جسکی وجہ سے صنعت کاروں پر دباو بڑھتے بڑھتے پورے شہر کے صنعتی ادارے مفلوج ہو کر رہ گے تاریخ بتاتی ہے کہ مزدوروں نے اپنے تئیس آٹھ گھنٹے وقت مقرر کر لیا تھا جو 8 گھٹنے کام کرتے اور پھر اپنے گھروں کو چلے جاتے یہ سلسلہ کافی عرصہ چلتا رہا اور تنخواہ کے دن فیکٹری مالکان کو وارننگ دیتے کہ اگر ہمیں بروقت تنخواہ نہ دی گئی تو پورے شہر کے صنعتی ادارے بند کر دئیے جائیں گے۔

صنعت کار واجبات دینے پر مجبور ہو جاتے کیونکہ سرمایہ دار 18گھنٹے تک کام لینے کے عادی تھے وہ 12 گھنٹے تا 18گھنٹے کی بجائے صرف 8 گھنٹے کام پر کہاں خوش تھے۔ اس لیے حکومتی اداروں کے تعاون کے ساتھ انہوں نے مزدوروں کی تحریک کو ختم کرنے کی ٹھان لی اور وہی ہوا کہ یکم مئی کے دن امریکی ریاستی اداروں نے نہتے مزدوروں پر گولیاں برسائیں وحشیانہ تشدد کیا جسکی وجہ سے مزدوروں کے خون کی ندیاں بہادیں ۔

لاتعداد مزدوروں کا قتل عام ہو ا کئی مزدور زخمی ہوئے کئی اپاہج ہو گے مگر مزدوروں کے حوصلے پست نہ ہوے وہ جواح مردی سے گولیوں کو اپنے سینوں پر روکتے روکتے جان قربان کرتے رہے ایک طرف مزدوروں کی لاشیں تھی تودوسری طرف مزدوروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر حدنگاہ تک بڑھتا جا رہا تھا۔بالآ خر سرعام مزدوروں کو پھانسیاں دی گئیں مگر مزدور لیڈ ر کمال حوصے سے پھانسی کے پھندوں کو گلے میں ڈال کر ابدی نیند سو جاتے انہیں کے اس جذبہ کے آگے ریاستی ظلم جبر بربریت نے ہتھیار ڈال دئیے اور مزدوروں سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کر دی مذاکرات میں سب سے پہلے شہداء کے ورثا کو حقوق دئیے گے صنعت کاروں اور ریاستی اداروں کے ذامہ داران کے خلاف کارروائی کی گئی۔

ڈیوٹی کے اوقات کار تسلیم کرتے ہوئے 8گھنٹے ڈیوٹی، معذور ہونے ، وفات پانے والے مزدوروں کے لیے مراعات وحقوق ریٹارمنٹ کی مدد بچوں کے علاج معالجہ ، تعلیم ، رہائش، سوشل سکیورٹی، بڑھایا الاونس کے لیے قانون سازی کی گی۔ محکمہ لبیر، سوشل سکیورٹی، لیبر الاونس قائم ہوئیں۔ بایئر اینڈ فائر کے ضوابط طے ہوئے پھر کیا ہوا دنیا بھر کے صنعت کاروں نے مزدوروں کے حقوق تسلیم کئے عالمی سطح پرتمام ممالک نے مزدور تحریک کے ممکنہ خدشات کے پیش نظر قانون سازی کی محکمہ محنت و افرادی قوت کی وزارت قائم کی جسکی بدولت آ ج دنیا بھر میں مزدور طبقہ اپنے حقوق حاصل کر رہا ہے یورپی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں مزدوروں کو قابل ذکر بلکہ قابل رشک سیاسی، سماجی، معاشی حقوق حاصل ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں مزدوروں کی حالت قابل افسوس بلکہ قابل رحم ہے پاکستان میں1886 جیسے حالات موجود ہیں ۔

صنعت کار طبقہ ٹھیکیداری نظام کے تحت مزدوروں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے لیبر عدالتیں کمزور اور مشکل ترین طریقہ کار پر مزدوروں کو بروقت اور مکمل حقوق دلانے میں بری طرح ناکام ہیں صنعت کار خود حکمران اور کھربوں ڈالرز ملک سے لوٹ کر بیرونی سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی ہیں جو انہیں اپنے ملک پاکستان میں اقتدار دلوا کر اپنے سامنے کمزور جبکہ مظلوم عوام پر مضبوط بنا کر رکھتی ہیں۔ سوئٹرز لینڈ اور دیگر بااثر ممالک میں پاکستان کے سرمایہ دار صنعت کار حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کھربوں روپے کی رقم موجود ہے جبکہ اس سے کہیں کم قرضے ملک پر مسلط نہیں جس کی وجہ سے شکاگو کے مزدوروں کی طرح متحدہو کر حقوق حاصل کرنے ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mazdoroon Ki Khon Pasene Ki kamai is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 April 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.