ریلوے کی نجکاری ملازمین میں بے چینی کی لہر

پاکستان ریلوے غریب عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولت کی فراہمی کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس کو نہ صرف ریلو ے بلکہ سول اور سیاسی بیوروکریسی بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت لوٹنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ریلوے میں پراکس، ریل کاپ، ریل کام ، ڈبلنگ آف ٹریک، سگنل پروجیکٹ، ٹریک رینیول پروگرام78 کلومیٹر، ری ہیلیٹیشن آف فلڈ 2010ء سروے اینڈ کسٹریکشن وغیرہ جیسی کمپنیاں اور ادارے بنائے۔ اسی طرح گاڑیوں کے ساتھ چلنے والے لیکج وانز اور بریک وانز کو ٹھیکہ پر دے کر ملک کی اشرافیہ کو نوازا گیا ہے

ہفتہ 15 اکتوبر 2016

Railway Ki Nijkari Mulazmin Main Bechaini Ki leher
پاکستان ریلوے غریب عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولت کی فراہمی کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس کو نہ صرف ریلو ے بلکہ سول اور سیاسی بیوروکریسی بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت لوٹنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ریلوے میں پراکس، ریل کاپ، ریل کام ، ڈبلنگ آف ٹریک، سگنل پروجیکٹ، ٹریک رینیول پروگرام78 کلومیٹر، ری ہیلیٹیشن آف فلڈ 2010ء سروے اینڈ کسٹریکشن وغیرہ جیسی کمپنیاں اور ادارے بنائے۔

اسی طرح گاڑیوں کے ساتھ چلنے والے لیکج وانز اور بریک وانز کو ٹھیکہ پر دے کر ملک کی اشرافیہ کو نوازا گیا ہے۔ ریلوے پارسل کو ان کے حوالے کرنے اسٹیشنوں پر 5منٹ سے کم سٹاپ والی گاڑیوں پر پارسل بک کرنے کی پابندی عائد کرا دی۔ نتیجتاً نجی گاڑیوں کی پارسل ٹریفک میں اضافہ اور ریلوے کی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

(جاری ہے)

مزید یہ کہ ان تمام کمپنیوں اور پرائیویٹ اداروں کے انتظامی امور ریلوے کے بڑے بڑے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے ہاتھ میں ہیں جس کے عوض یہ ان کمپنیوں سے نہ صرف بھاری تنخواہ وصول کررہے ہیں بلکہ ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے سہولت کار کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے غیر تربیت یافتہ عزیز و اقارب، رشتہ داروں من پسند ریٹائرڈ ملازمین کو بھی بھرتی کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی، غیر ملکی سطح پر ریلوے کی بحالی کے لئے ملنے والے فنڈز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ اس عمل کی نگرانی کا کوئی طریقہ کار موجود نہ ہے۔ ان کمپنیوں میں بھرتی ہونے والے بیشتر ملازم گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔

دیگر ملازمین بھی اپنی جائے تعیناتی کی بجائے ڈویڑنل ریلوے دفاتر میں اپنی مرضی کے افسران کے تحت ان کی منشاء کے مطابق فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں حال ہی میں ریلوے نے 3 گاڑیوں خوشحال خان خٹک، ہزارہ ،فرید ایکسپریس کو پراکس اور ایس جمیل اینڈ کمپنی کو ٹھیکہ پر دیا ہے۔ پراکس نے یکم اگست 2016 ء سے خوشحال خان خٹک جبکہ ایس جمیل اینڈ کمپنی نے 14 اور 21 اگست سے ہزارہ اور فرید ایکسپریس کی کمرشل ذمہ داری سنبھال لی ہے۔


معاہدہ کے تحت ان گاڑیوں کی کمپنیاں اپنی ٹکٹیں بھی خود چھپوائیں گیں لیکن معاہدہ کے برعکس ریلوے ہیڈ کوارٹر نے ریلوے کی ٹکٹیں پراکس کو دینے کے احکامات بھی جاری کر دئے ہیں۔ اسی طرح ان کمپنیوں کو ٹکٹوں کی فروخت کیلئے اسٹیشنوں پر دئے گئے کاوٴنٹرز کا ماہانہ کرایہ بڑے اور چھوٹے اسٹیشن کے مطابق 10 ہزار، 8 ہزار اور 5 ہزار روپے ماہانہ مقرر کیا گیا ہے۔

بجلی کاکنکشن کمپنی اپنے خرچ پر لگوائے گی۔ ان ہی اسٹیشنوں پر وینڈنگ سٹالوں سے سالانہ لاکھوں روپے کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ کمپنیوں سے ہزاروں روپے وصول کر کے انہیں نوازا گیا۔ قبل ازیں بھی شالیمار ایکسپریس، نائٹ کوچ اور بزنس ایکسپریس کو نجی کمپنیوں ائرریل سروس اور میسرز فور برادرز کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ یہ تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

کیونکہ غیر تربیت یافتہ سٹاف کی مسافروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں۔ بزنس ایکسپریس کے ٹھیکیدار نے ریلوے کو تقریباً 50 کروڑ روپے جمع کروانے ہیں یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے جبکہ اب ٹرین بھی ریلوے کے تحت چل رہی ہے۔ خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو پراکس نے بذریعہ ٹینڈر پراسس ٹھیکہ پر حاصل کیا۔ پراکس انتظامیہ ریلوے کے بعض حاضر سروس افسران پر مشتمل ہے۔


حاضر سروس افسران پر مشتمل انتظامیہ کسی بھی سرکاری یا نجی سطح پر ٹھیکہ حاصل نہیں کر سکتی اس لئے یہ ٹھیکہ خلاف ضابطہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بارہا یقین دہانی کروائی تھی کہ ریلوے کو پرائیویٹ نہیں کیا جائے گا لیکن ریلوے اور سیاسی بیوروکریسی ذاتی اور مالی مفادات کی خاطر ریلوے کو مرحلہ وار پرائیویٹ کرنا شروع کیا ہوا ہے جس سے نہ صرف ریلوے ملازمین بے چینی کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ عوام کی سستی سفری سہولت کو مہنگا اور مشکل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ریلوے کی تمام ٹریڈ یونین بارہا اس امر کا اظہار کر چکی ہیں کہ ملازمین کو کسی بھی طرح کی نج کاری منظور نہیں ہو گی۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کی نشاندہی کرنے پر ٹریڈ یونینز کو یہ کہہ کر بین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ریلوے ملٹری آف ڈیفنس (ایم او ڈی) کے تحت ہے لیکن ملٹری آف ڈیفنس کو نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہے۔ ریلوے ملازمین کسی بھی طرح کی پرائیویٹائزیشن کے خلاف ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ریلوے کو ”ایسٹ انڈیا کمپنیوں“ سے گاڑیاں لے کر نجات دلائی جائے تاکہ ملازمین احسن طریقہ سے اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Railway Ki Nijkari Mulazmin Main Bechaini Ki leher is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 October 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.