اچانک بھارت یاترا۔۔۔

ہمسائے ملک جانے کی تیاری شروع کی تو قومی ٹیم کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوگئے۔۔۔ کہتے ہیں پولیو کے قطرے پی کر بھارت آئیں، اب اس عمر میں پولیو کے قطرے پینا بھلا کوئی اچھا شگون ہے ؟ معروف نیوز اینکر عائشہ یوسف کا سفر نامہ

ہفتہ 26 مارچ 2016

Achanak Baharat Yatra
عائشہ یوسف:
بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہمسایوں کے ہاں آنا جانا نہ تو اچھے ہمسائے کیلئے یہ بات اچھی نہیں ہوتی۔ ایک اچھی پڑوسی ہونے کے ناطے دو ماہ پہلے اچانک مجھے خیال آیا کیوں نہ پڑوسی ملک کی سیرکی جائے۔ اس سیر کی خواہش جب والدین سے کی جائے تو اُن کا ڈر جانا معمولی بات ہے اور اگر خواہش کرنے والی لڑکی دلیر ہو تو والدین بھی مان جاتے ہیں اور یہی میرے ساتھ ہوا میرے والدین میرے بھارت جانے پر راضی ہوگئے۔

پڑوسیوں کے جانے کی خواہش کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کی آڑ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ بھارتی حکومت پاکستانیوں کو آسانی سے ویزہ جاری نہیں کرتی اور ویزے کے حصول میں تنگ کرنے کی وجہ بھی 65برس بیت گئے کوئی ٹھوس نہیں بتائی جاتی۔

(جاری ہے)


تمام ضروری سفری دستاویزات مکمل کرکے مجھے یقین تھا کہ ویزہ آسانی سے مل جائیگا لیکن لاہور میں بھارتی ہائی کمیشن کے کورئیر آفس میں بیٹھے میرے ہم وطنوں کو سلام،انہوں نے مسافرکو تنگ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

کبھی تصویر کے بیگ گراؤنڈ کا بہانہ تو کبھی اپنے ہی گھر کے بجلی کے بل پر لکھے گئے والد محترم کے نام پر اعتراض کھڑا کرنا ان کی عادت سی ہے،اور آشٹام فارم ایسے طلب کیے جاتے ہیں جیسے ہم کوئی ناقابل اعتبار لوگ ہیں۔خیر۔ تین بار چکر لگوانے کے بعد آخر کار کاغذات قبول کرلیے گئے۔ ایک بار اس سے پہلے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ پولیو کے قطرے پی کر آئیں، اب اس عمرمیں پولیو کے قطرے پینا بھلا کوئی اچھا شگون ہے ؟ ایک تو اس عمر میں پولیو کے قطرے پینا غیرمہذب سے لگا اور اس سے بڑھ کر سرکاری ہسپتال کے چکر کاٹنا بھی کسی تلخ تجربے سے کم نہیں تھا۔

خدا خدا کرکے ویزہ کی درخواست جمع ہوئی تو دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے بھارت میں ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوگئے۔ بنگلہ دیش کے خلاف پہلے میچ میں قومی ٹیم نے کامیابی حاصل کی تو یوں لگا جیسے شاہدآفریدی کی قیادت میں قومی ٹیم پوراہندوستان ہی فتح کرلائے گی۔ مگر کلکتہ میں بھارت کیخلاف ہونیوالے میچ میں شاہین پرواز کرنا ہی بھول گئے اور ایسے حالات میں بھارت کا سفر کرنا بھی غیرمناسب لگنا شروع ہوگیا۔

پھر اچانک ایک دن خوشخبری ملی کہ پاسپورٹ واپس آگیا ہے اور ویزہ بھی مل گیا ہے۔ ویزہ ملنے کے بعد قومی ٹیم کے برے حالات کو میں نے یکسر نظرانداز کردیااور بھارت جانے کی پلاننگ شروع کردی۔ میں نے قومی ٹیم کی کارکردگی ، فتح یا جیت کو فراموش کرتے ہوئے سرحد پار کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور میں نے یہ فیصلہ ایک اچھے پڑوسی ہونے کے ناطے کیا کیونکہ چار قدم پر یہ بھارت ہے اور اگر اس کو بھی نہیں دیکھا تو پھربھلا کیا دیکھا۔

24مارچ کو گھر سے نکلتے وقت میں نے ایک عورت (لڑکی) ہونے کے ناطے تمام ضروری سفری دستاویزات مکمل احتیاط سے ساتھ لیے اور پراعتماد انداز میں دشمن ملک کے بارڈر کی طرف چل دی۔ راستے میں اچانک یاد آیا کہ پاکستانی نوٹوں کو بھارتی کرنسی میں تبدیل کرایا جائے۔یہ بھی ایک مشکل ٹاسک تھا، پاکستان میں بھارتی کرنسی تبدیل کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ جس بھی کرنسی چینجر کو کہا جائے کہ بھارتی کرنسی ملے گی وہ مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع ہوجاتا ہے۔

پاکستانی پیسے دئیے اور بھارتی پیسے لیے تو اچانک ڈر سا لگا کہ گاندھی جی کی فوٹو والے نوٹ اگر نقلی نکلے تو کیا ہوگا۔ لیکن چونکہ بھارت کا سفر کرنا تھا اس لیے یہ رسک بھی لے لیا۔ راستے میں یاد آیا کہ لاہور کے سرکاری ہسپتال سے بہت کوششوں سے بنوایا گیا کہ پولیو کارڈ گھر رہ گیا ہے۔ شدید پریشانی کے عالم میں فیصلہ کیا کہ پولیو کارڈ کے بغیر بارڈر پار کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے ، اگر کوشش کامیاب ہوگئی تو دشمن ملک میں گھس جانا ہے اور اگر ناکام ہوئی تو لاہور سے خوبصورت شہر دنیا میں نہیں اور اپنے گھر سے عزیز کوئی اور جگہ نہیں کے مصداق واپسی کی راہ پکڑلوں گی۔

اس مثبت سوچ کے ساتھ واہگہ سے امیگریشن بھی کرالی اور جب باری پولیو کارڈ کی آئی تو میں نے امیگریشن افسر کو ہاں یا ناں میں جواب دینے کی بجائے گھر والوں کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن خوش قسمتی سے جیمرز کی وجہ سے نمبر سے نہ ملا۔ میری فون کرنے کی مثبت کوشش کو دیکھ کر امیگریشن افسر نے پولیو کارڈ کے بغیر ہی سرحد پار کرنے کی اجازت دیدی۔ واہگہ بارڈر کی آخری سرحد پر کھڑے ہوکر جب پیچھے موڑ کر پاکستان کی جانب دیکھا دل سے دعا نکلی کہ میرا ملک سلامت رہے۔

واہگہ بارڈر پر کئی مرتبہ کوریج کی غرض سے جانا ہوا اور بہت بار جذبہ حب الوطنی بھی بارڈر پر لے گیا لیکن بارڈر پار کرنے کا بھی تجربہ بھی اپنی الگ اہمیت رکھتا ہے۔ وہی دن ، وہ سورج، وہی موسم، ایک جیسی شکلیں، زبان ایک لیکن اس کے باوجود بھارتی سرزمین پر جاکر دل میں کہیں نہ کہیں یہ ضرور خیال آتا ہے کہ اب میں پاکستان میں نہیں بھارت میں ہوں۔


بارڈر پار کرتے ہی غصہ بھی آخری حدیں پار کرنے لگا، ہولی تہوار کی و جہ سے بھارتی فوجی بارڈر پر اونچی آواز میں گانے لگا کر ڈانس کرتے نظر آئے اور بنیادی طور پر وہ ڈانس کرکے پاکستانیوں کو دکھا رہے تھے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ چوبیس گھنٹے بھارتی گانے اور بھارتی فلمیں دیکھ کر بھی پاکستانیوں پر بھارتیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اٹاری امیگریشن کاؤنٹر پہنچ کر سب سے پہلے جس بھارتی خاتون سے واسطہ پڑا وہ شاید کبھی بھی بھلا پاؤں۔

دیوار کے پیچھے چھپی بیٹھی 50 برس کی عمر کے لگ بھگ بھارتی ناری نے خوفناک نظروں سے میری طرف دیکھا تو مجھے بھی خوف آنے لگا لیکن جب اُس خاتون نے پیار بھرے الفاظ سے ادھر آئیے کہا توخوف قدرے معمولی پڑگیا۔ اس خاتون کی امیگریشن آفس صرف یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ آنے والے ہر پاکستانی کو پولیو کے قطرے پلائے۔ میں نے پولیو ڈراپ پینے سے بچنے کیلئے تمام تر کوششیں کیں لیکن وہ خاتون بھی بھارتی حکومت کی طرح ضدی نکلی اور اپنی مرضی کرکے ہی دم لیا اور پولیو کے قطرے پلا ہی دئیے۔

بچپن میں شاید پولیو کے قطرے پیئے بھی ہوں تواب وہ ذائقہ بھی یاد نہیں لیکن واہگہ پر زبردستی کے پولیو ڈراپ پینے کا ذائقہ شائد کبھی نہ بھول پاؤں۔ اس کے بعد امیگریشن کاؤنٹر پر اس سوال نے بھی مجھے پریشان کردیا کہ آپ کے پاس بھارتی کرنسی کہاں سے آئی؟کیونکہ پاکستانیوں پرپابندی عائد ہے کہ وہ بھارتی کرنسی لیکر بارڈر پار نہیں کرسکتے۔ شاید اگر عام پاکستانی کی طرح میرے پاس بھی وزٹ ویزہ ہوتا تو کرنسی ضبط کرلی جاتی لیکن ویزہ کے اوپر واضح نظر آنیوالی عبارت میں جرنلسٹ لکھا دیکھ کر ویزہ افسر نے قلم اٹھا کر ریکارڈ میں بھارتی کرنسی کی جگہ پاکستانی کرنسی لکھ کر ایک اچھے ہمسائے کا ثبوت دیا لیکن چونکہ اُس نے ابتدا میں سوال ہی ایسے ڈراؤنے انداز میں پوچھاکہ کرنسی کلیئر کردینے کے باوجود بھی میرا موڈ خراب ہی رہا۔

یہ آخری کاؤنٹر تھا جہاں سے کلیئرنس ملی اور میں اٹاری امیگریشن دفتر سے باہر نکلی تو پارکنگ میں اعلیٰ نسل کی نئی گاڑیاں ٹیکسیوں کے طور پر استعمال دیکھ کر برا لگا کیونکہ ہمارے ہاں اگر محلے میں کوئی ایسی گاڑی خرید کر آئے تو کئی ، کئی دن تک اپیلائیڈ فور کا ٹیگ ہی نہیں اتارتے۔(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Achanak Baharat Yatra is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 March 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.