امریکہ ایک با رپھر نشانے پر

50امریکی شہری ہلاک ۔۔۔۔ امریکی شہر” اورلینڈو“ میں ہونے والی فائرنگ،دنیا بھر میں امریکی مداخلت اور جنگی پالیسیوں کے ر دعمل پر خصوصی رپورٹ

Zabeeh Ullah Balghan ذبیح اللہ بلگن منگل 14 جون 2016

America Aik bar Phir Nishane Per
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے کلب میں فائرنگ کے واقعہ میں 50افراد ہلاک اور تقریباََ پچاس سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ہم جنس پرستوں کے کلب پلس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ کلب اورلینڈو سٹی کے سب سے بڑے نائٹ کلبوں میں سے ایک ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ تین گھنٹے جاری رہنے والی اس کاروائی میں حملہ آور کو بھی ہلاک کر دیا گیاہے ۔

امریکی میڈیا نے فائرنگ کے اس واقعے کو امریکہ کی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا ہے ۔بعض اخباری اطلاعات کے مطابق حملہ آور عمر متین نے حملہ کرنے سے قبل پولیس ایمرجنسی نمبر پر کال کر کے بتایا کہ اس کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے ہے اسی طرح ا مریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور نے دولتِ اسلامیہ سے وفاداری کا اعلان کر رکھا تھا۔

(جاری ہے)

فائرنگ کے اس واقعہ کے فوری بعد دولت اسلامیہ سے منسلک نیوز ایجنسی عماق پر تنظیم نے بیان میں کہا کہ یہ حملہ دولت اسلامیہ کے ایک جنگجو نے کیا ہے۔مختلف ممالک نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے جبکہ امریکی صدر باراک اوباما نے ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب میں فائرنگ کے واقعے کو درجنوں معصوم لوگوں کا خوفناک قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اس تکلیف اور ظلم میں متحد ہیں اور اپنے لوگوں کا دفاع کرنے کا پختہ ارادہ کرتے ہیں۔


امریکی سکیورٹی ادارے عمر متین نامی ایک نوجوان کو اس حملہ کا زمہ دار قرار دیتے ہیں ۔حملہ آور عمر متین کے بارے میں منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق عمر متین کی پیدائش نیویارک میں ہوئی تھی اور اس کے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے جبکہ بعد ازاں یہ لو فورٹ پیئرس منتقل ہو گئے۔ 29سالہ عامرمتین کے حوالے سے اس کی سابق اہلیہ کا ایک بیان امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے شائع کیا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ عامر متین پرتشدد اور خلل دماغ کے مرض کا شکار تھا اور اس نے مجھ پر متعدد بار تشدد کیا۔

ان کی شادی سنہ 2009 میں انٹرنیٹ پر بات چیت کے بعد ہوئی تھی لیکن خاتون کے والدین کو جب مار پیٹ کا علم ہوا تو انھوں نے اپنی بیٹی کی اس سے علیحدگی کروا دی۔عامر متین کی سابق اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ بہت مذہبی نہیں تھا اور جب وہ اس کے ساتھ تھی تو وہ پابندی سے جم میں ورزش کیا کرتا تھا۔عامر متین کے والد میر صادق کا کہنا ہے کہ اس واقعے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ میامی میں ایک ہم جنس پرست جوڑے کے بوسے پر اسے شدید غصہ آیا ہو۔

انھوں نے کہا کہ گھر کے لوگوں کو اس کے حملے کے منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے خاندان کی طرف سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ تمام امریکیوں کی طرح وہ بھی اس واقعہ سے صدمے میں ہیں۔ عامر متین کے بارے میں ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ اس نے گذشتہ تین سال میں متین کے ممکنہ شدت پسند رابطے کے تعلق کے حوالے سے تین بار اس سے ملاقات کی تھی۔

ایف بی آئی ایجنٹ رونالڈ ہوپر نے کہا کہ ایجنسی کو پہلی بار متین کے بارے میں سنہ 2013 میں پتہ چلا تھا جب اس نے اپنے ساتھیوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیا تھا اور شدت پسندوں سے روابط کا دعوی کیا تھا۔اہلکار کا کہنا ہے کہ اس کے بعد معاملے کی پوری تحقیقات کی گئی تھی لیکن بعد میں کیس کو ختم کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد ان سے سنہ 2014 میں منیر محمد ابو صالحہ سے تعلق کے بارے میں گفتگو کی گئی لیکن اس کے خاطر خواہ شواہد نہیں ملے۔

ایف بی آئی کے ریڈار پر ہونے کے باوجود متین کو باضابطہ دہشت گردی کی واچ لسٹ میں نہیں رکھا گیا تھا اور فلوریڈا کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق اسے اسلحہ رکھنے کا لائسنس دیا گیا تھا۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ متین جی فور ایس کے لیے مسلح سکیورٹی افسر کے طور پر سنہ 2007 سے کام کر رہا تھا۔
دنیا بھر میں امریکی مداخلت
اس وقت تمام دنیا یہ سوچ رہی ہے کہ امریکہ پوری دنیامیں کسی بھی ملک میں ہونے والے معاملات میں خود کو شریک کر لیتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟۔

جنوبی ایشائی ممالک کے معاملات ہوں یا مشرق وسطیٰ کے ممالک کا عد م استحکام،اہلیان یورپ کا کوئی سیاسی و جغرافیائی فیصلہ ہو یا برطانیہ کا یورپی یونین کے حوالے سے ریفرنڈم ، ہر معاملے میں امریکی مداخلت واضح دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا تھا آج پندرہ سال کے بعد اس جنگ نے پوری دنیا کو تیزی کے ساتھ تشدد تباہی اور بربادی میں گھسیٹ لیا ہے۔

امریکی سر براہی میں جن حملوں اور مداخلتوں کو افغانستان ، عراق لبیا اور شام میں شروع کیا گیا تھااس کے نتائج یہ ہیں کہ ان ممالک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیاہے۔ اب حالات یہ ہے کہ نیٹو روس کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں بڑے پیمانے پر نئے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خود کو مسلح کر رہاہے۔ اسی طرح افریقہ مسلسل امریکی اور یورپی جدید نو آباد یاتی سازشوں کا ہدف ہے ۔

جنوبی امریکہ ، مشرقی یو رپ ،ٹرانس کا کیشیا اور بر صغیر میں ہمسایہ ریاستوں کے درمیان سرحدی تنازعات کو ہوا دیتے ہوئے کشید گی اور علاقائی جھڑپوں کی لپیٹ میں لے لیاہے۔مشرقی ایشیا میں اوباما انتظامیہ کی ”ایشیا کے گرد گھیرا تنگ “اور امریکہ کی چین کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی نے پورے خطے کو جنگ میں ملوث کر دیاہے۔ امریکہ نے روس، چین، افغانستان، عراق، کوریا، جرمنی، جاپان، ویت نام، کیوبا سمیت تقریبا تیس ممالک سے جنگ کی ہے اور امریکی مداخلت ہی کے سبب لبنان، شام، اردن، مصر، سعودی عرب، عراق، ایران سبھی غیر محفوظ ممالک ہیں۔

ظاہر ہے جنگ کا نتیجہ جنگ، عالمی نفرت ہی نفرت ہے اور یہ نفرت امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف تیزی سے پھیلی ہے۔ان حالات میں امریکہ سے استفسار کیا جاسکتا ہے کہ جناب آپ نے اب تک کوئی جنگ جیتی بھی ہے ؟۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ویت نام جنگ کے بعد سے ابھی تک امریکہ کو کسی جنگ میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ افغان اور عراق جنگ بھی امریکہ کے لئے ویت نام جنگ ثابت ہوئی۔

ویت نامیوں نے بھی بڑی خوفناک اور خونی جنگ لڑی تھی۔ ویت نام بھی بالکل تباہ ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں تقریبا 20لاکھ ویت نامی ہلاک جبکہ58 ہزار امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ تقریبا اتنی ہی بڑی تعداد میں امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے جو ابھی تک ویت نام جنگ کے زخموں کے ساتھ زندہ ہیں۔اسی طرح ہمیں جاپانیوں کے ساتھ امریکہ کے سلوک بھی یاد رہنا چاہئے ۔

6 اگست 1945 اور 9 اگست 1945 دنیا کی تاریخ کے وہ سیاہ ترین دن ہیں جب امریکہ کی فوج نے جاپانیوں پر ایٹم بم گرائے تھے۔6 اگست 1945 کو ہیروشیما پر اور اس کے تین روز بعد یعنی 9 اگست 1945کو ناگا ساکی پریہ ایٹم بم گرائے گئے جس کے نتیجے میں صرف پہلے دو سے چار ماہ کے دوران ہیروشیما میں ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار (166000) افراد جبکہ ناگا ساکی میں اسی ہزار (80000) شہری ہلاک ہوئے جن میں سے نصف سے زائد لوگ ان بموں کے گرائے جانے کے پہلے روز ہی مر گئے۔

یاد رہے کہ ایٹمی تابکاری کے باعث ان دونوں شہروں اور ان سے ملحقہ علاقوں میں کئی سال تک لوگ مرتے رہے ہیں اور کئی لاکھ معذور ہوئے جب کہ کئی نسلیں پیدائشی معذور پیدا ہوئی ہیں۔
عالم اسلام تو بالخصوص اس احساس کا شکار ہے کہ امریکہ نے عالم اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔اہلیان اسلام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکہ دراصل اسی استعماری اور سامراجی قو ت کا تسلسل ہے جس نے مسلمانوں کے ساتھ صلیبی جنگیں چھیڑیں اور جو بعد میں یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی شکل میں ایشیا اور پھر افریقہ پر قابض ہوئی ۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ پچھلے پچاس برس سے اسرائیل کی مسلسل اور غیر متزلزل حمایت کر رہا ہے ۔امریکہ نے میں خلیجی جنگ کے بعد تمام خلیجی ملکوں اور سعودی عر ب میں اپنے فوجی اڈے قائم کرلیے ۔ القاعدہ کے بہانے سے اس نے طالبان کی حکومت ختم کر دی اور اب عراق کے درپے ہے۔ اسی طرح اب امریکہ کی ایران اور پاکستان پر نظر ہے ۔باقی دنیا کو تو ایک طرف رکھئے خود امریکی یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کیا حاصل کیا ہے ؟۔

مشہور امریکی یونیورسٹی برانن نے جو حالیہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں اس میں واضح لکھا ہے کہ افغانستان، عراق اور پاکستان میں ایک لاکھ 37 ہزار شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ 98لاکھ سے زائد شہریوں کو پناہ گزین بننا پڑا ہے ان جنگوں میں امریکہ اب تک مجموعی طور پر 40کھرب ڈالر کی بھاری رقم پھونک چکا ہے اور یہ رقم اس کے گذشتہ 6 سال کے مجموعی بجٹ خسارے کے برابر ہے۔

افغانستان اور عراق میں 6 ہزار امریکی فوجی اور اتحادی افواج کے ہزاروں فوجی مارے جا چکے ہیں۔یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہی سے مبہم اور مشکوک رہی ہے اور سا مراجی لا محدود فریب پر مبنی ہے ۔اس جنگ نے لاکھوں انسانوں کا قتل عام اور لا تعداد انسانوں کو اپاہج اور اذیت سے دو چار کیا ہے۔خود ساختہ امریکی جنگ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کے بحران کو پیدا کیاہے۔

ابھی تک 60 ملین افراد اپنے ملکوں سے ہجرت کر چکے ہیں۔سینکڑوں ہزاروں افراد جو ایک مایوس کن ، خطرناک اور دشوار سفر کر نے کے بعد یورپ میں داخل ہوئے ہیں وہ حراستی مراکز میں انتہائی دگرگوں حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یہاں تک کہ ان سے روزمرہ کا معمولی سازو سامان بھی چھین لیا گیاہے۔محنت کشوں کی یکجہتی کو کمزور کر نے کی غرض سے سا مراجی حکومتیں سر ما یہ دار سیاسی پارٹیاں ، میڈیا قومی شاونز م اور نسل پرست تعصبا ت کو ابھا ر رہی ہے۔

عالمی حالات کا واجبی مطالعہ بھی اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ آج شمالی امر یکہ ، یو رپ اور آسٹریلیامیں ذرائع ابلاع کے ذریعے مسلمانوں کو بد نام کیا جا رہا ہے۔اور ریاستی سرپرستی کے ذریعے انہیں امتیاز ی سلوک نسل پرستی اور فا شسٹ تشددکا نشانہ بنا یا جارہاہے۔ ورلڈ سوشلسٹ کمیونٹی نے انتہائی شاندار الفاظ میں امریکی جنگ اور دیگر ممالک میں مداخلت کے حوالے سے تجزیہ کیا ہے ۔

تجزیے میں کہا گیا ہے کہ” 15 سالو ں سے جاری دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کے جرائم کے لیے کسی سرکاری آفسیرز یا فوجی انٹیلی جنس اہلکاروں کو جواب دہ نہیں ٹھہرایاگیا ۔بین الاقوامی قانون یکسر غیر متعلقہ ہو چکا ہے۔ وائٹ ہا س قانون کے بر عکس غیر قانونی طور پر اغوا قید و بند ٹارچر اور اپنے مخا لفین کو قتل کروانے کی حمایت اور قیادت کر رہا ہے ۔سا مراجی ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بہانہ بنا کر اسے اپنے ہاں سیاسی مفادادت کے لیے استعما ل کر رہے ہیں ۔

دہشت گردی کی کا روئیوں میں اکثر ریا ستی نگرانی میں رہنے والے افراد ملوث ہیں اور انہیں استعمال کرتے ہوئے جمہوری حقوق کو بری طرح پامال کیا جارہا ہے۔بو سٹن ،فرگوسن اور دیگر شہر وں میں کر فیودراصل مارشل لا کے نفاد کے لیے ایک ریہرسل ہے۔ نومبر 2015 میں فرانس میں حملوں کے بعد اسے ہنگامی حالت کے تحت رکھا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں دسویں لاکھوں افراد کا ڈیٹا بیس اکھٹا کر کے بڑے پیمانے پر جاسوسی کررہی ہیں۔

محنت کش طبقے کے علاقوں میں پولیس کے مظالم قتل وتشدد روزمرہ کا معمول اور حقیقت بن چکا ہے۔حکمران طبقے سماجی عدم مساوات کی وجہ سے پیداہونے والی کشیدہ دھماکہ خیزصورت حال سے نمٹنے کے لیے حزب مخالف کو مستقل پولیس جبر اور تشددکے ذریعے دبانے کی تیاریاں کر رہی ہیں“۔
امریکی جنگ ،فتح یا شکست؟
مندرجہ بالاحقائق و واقعات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی جنگی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا ردعمل کی کیفیت سے دوچار ہے ۔

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ امریکہ نے پوری دنیا میں جس انداز سے مداخلت کی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آگ سے کھیل کر پھولوں کی توقع کی جائے۔امریکہ آگ برسائے گا تو اس کے نتیجے میں اسے پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائے جائیں گے ظاہر ہے استحصال زدہ عوام جب امان کا کوئی راستہ نہیں پاتے تو وہ زندگی یا موت میں سے ایک کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔

سرکردہ امریکی ریٹائرڈ جنرل، ڈینئل بولگر نے اپنی چشم کشا کتاب ”ہم کیوں ہارے؟“Why We Lost: A Generals Inside Account of the Iraq and Afghanistan Wars میں امریکہ کی غلطیوں کو بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے ۔بولگر نے کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کہ ”میں امریکا کا جرنیل ہوں اور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہار چکا ہوں“۔یہاں ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ بولگر معمولی امریکی جرنیل نہیں، وہ عراق اور افغانستان میں ان فورسز کے سربراہ رہے ہیں جو عراقی و افغان افواج کو عسکری تربیت دیتی رہیں۔

مزید براں تاریخ کا (پی ایچ ڈی)پروفیسر ہونے کی وجہ سے بھی انھیں امریکی عسکری حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جنرل بلوگر نے افغان و عراق جنگوں میں شکست کے باعث اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔بولگر لکھتے ہیں کہ ویت نام جنگ کے بعد امریکی افواج کا ڈھانچا سریع الحرکت فوج کی طرز پر بنایا گیا تھا جو جلدازجلد فوجی آپریشن ختم کرسکے۔

لیکن افغانستان اور عراق، دونوں جگہ امریکی فوجیوں کو طویل عرصہ جنگجووں سے نبردآزما ہونا پڑا۔دوم افغانستان اور عراق میں فوری کامیابیوں نے امریکی جرنیلوں و حکومت میں حد سے زیادہ خود اعتمادی پیدا کردی۔ امریکی جرنیل سمجھنے لگے کہ وہ تمام مشکلات پہ قابوپا سکتے ہیں۔ مگر ان کی توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔سوم افغانستان اور عراق میں مزید فوجی بھجوانے کی حکمت عملی ناکام رہی۔

وجہ یہی کہ صدر اوباما نے آتے ہی اعلان کر دیا کہ فلاں تاریخ تک امریکی افواج دونوں ممالک سے نکل جائیں گی۔ چناں چہ جنگجو پسپا ہوکر امریکی فوج کے جانے کا انتظار کرنے لگے۔چہارم جب ایک فوج کسی ملک پر حملہ آور ہو، تو پہلے وہاں کی تہذیب، ثقافت، معاشرت، روایات وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کرتی ہے۔ مگر امریکی افواج نے افغانستان و عراق پر دھاوا بولتے ہوئے مقامی معلومات لینا ضروری نہیں سمجھا۔

چنا نچہ بعدازاں انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔کتاب کے اشاعت کے بعد دیے گئے ایک انٹرویو میں بولگر کا کہنا تھا کہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی افواج سے صحیح طرح کام نہیں لے سکے۔ یہ افواج طویل عرصہ چھاپہ مار جنگ لڑنے کے قابل نہیں تھیں۔ماضی میں جب کبھی امریکی فوج کسی ملک پر حملہ آور ہوتی، تو اس موضوع پر عوامی بحث ہوتی ۔ یوں منصوبے کی خامیاں و خوبیاں سامنے آجاتیں۔

مگر افغانستان و عراق پر لشکر کشی کرتے ہوئے کوئی عوامی مباحثہ نہیں ہوا۔ابتداََ ان دونوں ممالک میں امریکی افواج کو کامیابیاں ملیں، لیکن کوتاہیوں پر کسی کی نظر نہیں گئی۔خصوصا یہ سوال اٹھایا ہی نہیں گیا کیا یہ بات درست ہے کہ ہزارہا نوجوان امریکی لڑکے لڑکیوں کو بیرون ممالک بھجواؤ تاکہ وہاں وہ گھر گھر تلاشی لے کر دیکھ سکیں، کون جنگجو ہے اور کون دیہاتی؟ ہم نے ویت نام میں بھی یہی عمل اپنایا مگر اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا۔

اس کے باوجودافغانستان اور عراق میں اسے دہرایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں، اس غلطی نے ہمیں شکست خوردہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ایک اور سوال کے جواب میں بولگر کہتے ہیں” عراقی فوج کی شکست پر حیران مت ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا، 1991 اور 2003 میں جب بھی ہمارا عراقی فوج سے مقابلہ ہوا، وہ بہت جلد تتر بتر ہوگئی۔ اب وہ داعش کا مقابلہ نہ کرسکی۔وجہ یہ ہے کہ ایک ملک کی مضبوط، تجربہ کار اور پیشہ ور فوج کئی عشروں کی تربیت و محنت سے وجود میں آتی ہے۔

چند برس کی تربیت، رائفل رینج میں چاند ماری اور اِدھر ادھر مارچ پاسٹ سے طاقتور فوج جنم نہیں لیتی۔مثال کے طور پر 1950 میں جنوبی کورین فوج ناتجربے کار اور بوری تھی، اسی لیے جنگ میں مات کھاگئی۔ وہ نصف صدی بعد اب اس قابل ہوئی کہ ایک مضبوط فوج کا روپ دھارسکے۔ایک مضبوط و طاقتور فوج لڑاکا طیاروں اور ہزارہا فوجیوں کی موجودگی سے وجود میں نہیں آتی۔

ضروری ہے کہ فوج میں مٹھی بھر تجربے کار تربیت کار اور محبت وطن افسر موجود ہوں۔ وہ پھر فوجیوں کو تربیت دیتے اور ایک طاقتور فوج وجود میں لاتے ہیں۔ دراصل جب ایک ملک میں بغاوت یا خانہ جنگی ہو تو اسے اس دیس کے باشندے ہی ختم کر سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ عسکری سے زیادہ سیاسی پہلو رکھتاہے۔ میں نے آرمی وار کالجوں میں تعلیم پاتے ہوئے یہی سیکھا کہ ایک ملک کی فوج چاہے کتنی ہی بڑی اور تجربہ کار ہو وہ دوسرے ملک جا کر خانہ جنگی پر قابو نہیں پا سکتی۔

بدقسمتی سے مجھ سمیت تمام امریکی جرنیل یہ بنیادی بات بھول گئے ۔ دراصل ہم غرور یا حد سے زیادہ خود اعتمادی میں مبتلا ہو بیٹھے۔ ہم نے سوچا ہمارے پاس جدید ترین اسلحہ ہے ہم بہترین تربیت یافتہ فوجی رکھتے ہیں۔ انہیں عوام کی بھی حمایت حاصل ہے۔ لہذا اب ویت نام کے برعکس افغانستان و عراق جا کر انہیں کامیابیاں ملیں گی۔ ہم فراموش کر بیٹھے کہ روایتی جنگ اور خانہ جنگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے بولگر کہتے ہیں مجھے علم نہیں کہ کیا سابق امریکی صدر پہ ازروئے قانون جنگی جرائم کا مقدمہ چل سکتا ہے۔ تاہم میں رچرڈ کلارک کے اس استدلال سے اتفاق کرتا ہوں کہ افغان و عراقی جنگوں پر عوامی سماعت (Congressional hearing)منعقد ہونی چاہیے تاکہ ہماری سیاسی و عسکری کوتاہیاں سامنے آ سکیں۔آپ یہ دیکھئے کہ کوریائی جنگ 1950 تا1953 کے دوران امریکا میں اہم عوامی سماعتیں منعقد ہوئیں۔

ان کا مقصد دوران جنگ امریکی سیاسی و عسکری قیادت کی خامیاں تلاش کرنا تھا۔ ان سماعتوں میں امریکی صدر ٹرومین کے علاوہ سبھی اہم جرنیل و سیاسی راہنما شریک ہوئے۔ مثال کے طور پر جنرل ڈگلس میک آرتھر چیرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل عمر بریڈلے اور سیکرٹری داخلہ ڈین ایچسن! ویت نام جنگ کے دوران سینٹر فل برائٹ نے ایسی ہی عوامی سماعتیں منعقد کیں۔

ان میں بھی سبھی اہم جرنیل وسیاست داں آئے اور انہوں نے ویت جنگ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔لیکن عراقی اور افغان جنگوں پر منعقد ہونے والی عوامی سماعتیں کہاں ہیں؟ عوامی عدالتیں لگنی چاہئیں اور ان میں رچرڈ کلارک جیسے سرکاری افسر سیاسی راہنما اور فوجی افسر اظہار خیال کرنے آئیں۔ان عوامی سماعتوں کا فائدہ یہ ہے کہ سبھی کے سامنے ایک معاملے کی خامیاں و خوبیاں سامنے آ جاتی ہیں۔

پھر غلطیوں سے سبق سیکھ کر اگلی بار بہتر عمل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن امریکا میں پچھلے بارہ سال سے حالیہ جنگوں میں کوئی عوامی سماعت منعقد نہیں ہوئی۔ بس امریکی حکومت سالانہ بجٹ پاس کر دیتی ہے اور اس پر کوئی عوامی بحث نہیں ہوتی۔
بھارتی شاعر راحت اندوری نے کہا تھا کہ
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر اور بھی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
امریکی حکام کو یہ ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ دوسروں کے گھروں کو آگ لگا کر آپ اپنے گھر کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔

پتھر مارنے کے بعد پھول کی امید رکھنا احمقانہ فعل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اگر یہ حملہ فی الحقیقت افغان نژادعمر متین نے کیا ہے تو کیا امریکیوں کیلئے سوچنے کا مقام نہیں کہ ان کی حکومت نے افغانستان پر آگ وآہن کی بارش کر کے لاکھوں معصوم افغانیوں کو قتل کر دیا تھا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔لہذا مکرر عرض ہے کہ دوسروں کے گھروں کو آگ لگا کر آپ امن و آتشی کی امید نہیں رکھ سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America Aik bar Phir Nishane Per is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 June 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.