امریکہ کی افغان پالیسی پر اشرف غنی کا یوٹرن

افغانستان پاکستان سے جامع مذاکرات کرنے پر تیار! طالبان کی جانب سے 2017ء سب سے زیادہ جارحانہ سال قرار دیا جارہا ہے

جمعہ 15 ستمبر 2017

America Ki Afghn Palisi pr Ashraf Ghani ka u Turn
محمد رضوان خان:
افغان صدراشرف غنی نے سال رواں کے مہینے مئی میں یہی کہا تھا کہ”میں تب تک پاکستان نہیں جاؤں گا جب تک پاکستان مزار شریف،امریکن یونیورسٹی کابل اور قندھار حملوں کے ذمہ داروں کو افغانستان کے حوالے نہیں کرتا اور پاکستان میں موجود افغان طالبان کے خلاف عملی طور پر قدم نہیں اٹھاتا“،یہ فرمودات انہوں نے اس وقت جاری کئے تھے جب اشرف غنی کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی تھی اور یہ ایسے وقت میں دی گئی تھی جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی زروں پر تھی اور بد اعتمادی اس قدر درآئی تھی کہ اشرف غنی کے بیانات کو دیکھ کر مودی کا خیال آجاتا تھا، خاص کر اشرف غنی نے جو زبان ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے دوران بھارت کے شہر امرتسر میں استعمال کی تھی اس نے پاکستانیوں کو بہت رنجیدہ بھی کیا تھا، ویسے تو اشرف غنی اس کے علاوہ بھی پاکستان پر متعدد بار الزام لگا چکے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ان طالبان جنگجوں کو پناہ دیتا ہے جو افغانستان میں حملے کرتے ہیں، اس الزام کے جواب میں پاکستان ہمیشہ اس کی تردید کرتا رہا ہے لیکن ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے اب برف پگھل رہی ہے جس کا پتہ س وقت چلا کہ جب افغانستان میں عید الضحیٰ کے موقع پر اچانک اشرف غنی نے ایک بیان دے کر سرحد کے آر پار خوشی کی لہر دوڑادی ، خوشی کی اس لہر کا منبع یہ تھا کہ افغان صدر اشرف غنی نے عید کے دن یہ خوشخبری دی کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جامع امن مذاکرات کیلئے تیار ہیں، سیاسی حلقے اشرف غنی کے اس اعلان کو دونوں ممالک کے عوام کیلئے عید کی خوشخبری گردان رہے ہیں یاد رہے کہ افغانستان میں پاکستان سے ایک روز قبل عید قربان منائی گئی۔

(جاری ہے)

اشرف غنی نے عید کی نماز کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان سے جامع سیاسی مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ایسا امن چاہتے ہیں جس کی بنیاد سیاسی نظریہ پر ہو، انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ بھی بتادیا کہ افغان قوم کسی کے اشاروں پر نہیں ناچتی اور یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کو معلوم ہوچکا ہے کہ اس ملک کو زور زبردستی سے کسی کام کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا ،لیکن خطے کی سلامتی کی خاطر ہم منطق اور استدلال کے تحت ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔

اشرف غنی نے لگے ہاتھوں طالبان کا نام لئے بغیر کہا کہ افغانستان کے مسلح دشمنوں کے پاس ایک راستہ ہے کہ وہ بدامنی ترک کردیں انہوں نے کہا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ انہیں(متحارب گروپوں کو) معلوم ہونا چاہیے۔کہ وہ افغان ہیں اور انہیں افغان امن کیلئے ہی کام کرنا چاہیئے، میں سب کی طرف امن کا ہاتھ بڑھا رہا ہوں ،اور کہتا ہوں کہ امن خدا کاحکم ہے اپنے خطاب میں اشرف غنی نے یہ بات کھول کر کہی کہ ان کے دروازے طالبان سمیت سب کے لئے کھلے ہیں لیکن ہم کسی کی طاقت کے آگے سر نہیں جھکائے گے۔

اشرف غنی کو یہ بات شاید اس وجہ سے کھول کر کرنی پڑی کہ جب سے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کررکھا ہے اس وقت سے لے کر اب تک 2017ء کو طالبان کی جانب سے سب سے زیادہ جارحانہ سال قرار دیا جارہا ہے جس کے دوران انہوں نے افغانستان کے شمالی علاقے قندوز پر چڑھائی کی جبکہ کابل میں مختلف دہشت گردی کی کاروائیوں کو بھی انہی سے منسوب کیا گیا جس کی وجہ سے طالبان کی دھاک مزیدبیٹھ گئی اور اسی وجہ سے اشرف غنی کو اس بات کی وضاحت دینی پڑی کہ وہ طالبان کی جارحیت سے موعوب نہیں ہوئے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی طرف سے پیشکش ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے کہ اس سے چند دن پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کی نئی پالیسی کی آڑ میں پاکستان پر جس انداز سے دباؤ بڑھانا شروع کیا گیا اس کے بعد افغانستان سے اس قسم کی پیشکش کوئی غیر متوقع بھی نہ تھی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی پالیسی حالات کا توازن برقرار رکھنے کیلئے متعارف کی جاتی ہے کیونکہ اگر ایک حلیف دباؤ بڑھا رہا ہوتو اس کے دیگر ساتھی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے مخالف کا بالکل دیوار سے لگنے نہ دیں،یہی وجہ ہے کہ وہ اشرف غنی جواب سے چار ماہ پہلے پاکستان دشمنی میں اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ انہوں نے پاکستان کی امداد بھی ٹھکرادی تھی اور امریکہ پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی یوٹرن لیتے ہوئے پاکستان سے جامع مذاکرات کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے، اس موقع پر صدر اشرف غنی کی یہ بات خوش آئند ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی وہ جو کہہ رہے ہیں وہ ان کے اپنے فرمودات ہیں یا امریکہ کے قصر سفید سے بجھوائے گئے سندیسے ہیں جو موصوف ادا رکررہے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اشرف غنی جس چیز کو اپنا قومی ایجنڈا گردان رہے ہیں درحقیقت وہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کا توازن برقرار رکھنے کی ایک سعی ہے اور اس ڈھول کو جب تک پیٹا جا سکتا ہے ، اس وقت افغانستان اسے پیٹے گا اور پھر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے پاکستان پر الزامات لگا نے شروع کردئے جائیں گے، اس تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ افغان سے پاکستان بھی ایک عرصے سے یہ تقاضا کررہا تھا کہ اوروں کے بہکاوے میں آئے بغیر دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے لیکن پاکستان کی ان کوششوں کا اثبات میں جواب نہیں دیا جارہا تھا اس حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو قریب لانے کی جوسفارتی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں وہ رنگ لے آئیں، عین ممکن ہے کہ یہ کوششیں کسی حد تک درست ہوں لیکن اگر دونوں صورتوں کا موازنہ کیا جائے تو پہلی رائے زیادہ صائب لگتی ہے ،بہر حال اشرف غنی کی بات سے یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ جیسے انہوں نے پاکستان سے جامع مذاکرات کی پیشکش پاکستانی کوششوں کے جواب میں کی ہے ، اس تاثر کیلئے اشرف غنی کی تقریر سے استدلال پیش کیا جارہا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ”میرے خیال میں اب افغانستان کو علم ہے اور پاکستان کو بھی دونوں کے مفاد میں ہے کہ بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کیا جائے اور ایسی پالیسیاں اختیار کی جائیں جو ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں“ یہ آراء اپنی جگہ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان امن مذاکرات حکومتی سطح پر کب شروع کرتے ہیں؟۔

پاکستان نے ظاہر ہے اس تجویز کا خیر مقدم ہی کرنا تھا جو اس نے اشرف غنی کی پیشکش کے بعد کیا۔پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ”افغان صدر کے اس بیان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں کی راہ ہموار ہوگئی ہے“ یہاں یہ امربھی اہم ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سول انتظامیہ کی سطح پر بات چیت کا آغاز کب ہوگا اس بارے میں ابھی کوئی شیڈول تو سامنے نہیں آیا لیکن اس ضمن میں دونوں ممالک کی عسکری قیادت کے درمیان بھی ایک رابطہ کا استوار ہوگیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کی افواج کے درمیان ورکنگ گروپ تشکیل دیا جارہا ہے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ورکنگ گروپ کے بھی قیام کی بات بھی امریکہ کی جانب سے نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد طے پائی، اس اعتبار سے اس گروپ کے قیقم کو بھی اشرف غنی کے جامع مذاکرات کی پیشکش کے تناطر میں دیکھا جائے تو بات سمجھنا آسان ہو جاتی ہے ،تاہم اسے سفارتی اصطلاح میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی کہا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے کم از کم رابطے کا ایک ذریعہ موجود رہتا ہے جو ورکنگ گروپ کی تجویز کی ہی کل میں سہی لیکن اس کی موجودگی اعتماد سازی کیلئے زینہ ثابت ہوسکتی ہے، یادرہے کہ یہ تجویز پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دی تھی جس کے جواب میں افغان چیف جنرل سٹاف نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر آمادگی ظاہر کردی تھی، اس گروپ کا قیام اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ مشترکہ فوجی گروپ دونوں حکومتوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے تجاویز دے گا، اس گروپ کی تشکیل کے بار ے میں دونوں ممالک کے سپہ سالاروں کے درمیان چند روز قبل دو شنبے میں اتفاق طے پایا تھا۔

پاکستان اور افغانستان کی عسکری قیادت ے درمیان یہ ملاقات اس اعتبار سے اہم تھی کہ اس کے دوران ایک تو دونوں ممالک کی سرحدی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا تو دوسری اہم پیشرفت یہ تھی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور افغان چیف آف سٹاف جنرل شریف یفتالی نے اس گروپ کے قیام سے قبل اپنے اپنے تحفظات بھی کھل کر ایک دوسرے کو بیان کئے ، اس موقع پر جہاں افغان عسکری قیادت نے اپنے خدشات کا اظہار کیا وہیں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے اپنے افغان ہم منصب کو دہشت گردوں کو ختم کرنے کیلئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن ساتھ ہی افغان حکام پر یہ بھی واضح کردیا کہ پاکستان افغان جنگ کو اپنی سر زمین پر نہیں لاسکتا اور نہ لانا چاہتا ہے بلکہ پاکستان نے بلا امتیاز کاروائی کرتے ہوئے اپنے علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کردیا ہے۔

اس ورکنگ گروپ کا قیام ابھی عمل میں نہیں آیا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اگر اس پر کام شروع ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلے کی لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ افغان حکومت کو بھارت جیسے نام نہاد سٹیک ہولڈرز کے چنگل سے باہر نکل کر بات کرنی پڑے گی تب جا کر کہیں بات بنے گی ساتھ ہی امریکہ جس نے خود کو پاکستان سے بظاہر دور کرلیا ہے کو اب پاکستان سے بالواسطہ رابطے کیلئے یہ پلیٹ فارم بہت موزوں ثابت ہوسکتا ہے جس کیلئے دونوں ممالک کو اپنے اپنے مفاد کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا تب جاکر افغانستان میں دائمی امن ہوگا اور اس امن کا فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America Ki Afghn Palisi pr Ashraf Ghani ka u Turn is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.