امریکہ اور افغانستان کی روس کے خلاف نئی حکمت عملی!

اشرف غنی کا اسلحہ اور ہیلی کاپٹرز خریدنے سے انکار․․․․ ٹرمپ ایسا موحول پیدا کررہے ہیں کہ روس پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکاری ہوجائے

ہفتہ 7 اکتوبر 2017

America or Afghanistan Ki roos K Khilaf Nai Hikmate Amliii
محمد رضوان خان:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس تواب عالمی رہنماؤں کا ایک پکنک سپاٹ بن چکا ہے جہاں سرابراہان مملکت اپنا اپنا مدعا بیان کرکے چلتے بنتے ہیں اور کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوتی گویا نشستن گفتن اور برخاستن والا معاملہ ہے جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ابھی تک اقوام متحدہ کے ماتھے پر سات دھائی پرانا کلنک کا ٹیکہ ہے جو وہ ابھی تک نہ صاف کرپایا اور نہ ہی اس کی نیت ہے۔

اس حقیقت کے باوجود سربراہان کے اس عالمی میلے میں کی گئی باتوں پر تبصرے کئے جاتے ہیں اور انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ حالیہ اجلاس کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم خاقان عباسی کے خطاب پر جہاں امریکہ، افغانستان اور ہندوستان نے کان دھرا وہیں پاکستان نے بھی افغان صدر اشرف غنی کے خطاب پر خصوصی توجہ دی جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دیدی۔

(جاری ہے)

اس پیشکش کا خوب چرچا ہورہا ہے جس کے دوران اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ”میں پاکستان سے کہتا ہوں کہ وہ اسٹیٹ ٹو اسٹیٹ (ریاست)کی سطح پر امن ، سلامتی اور علاقائی تعاون و خوش حالی کے لئے ہمارے ساتھ مذاکرات کرے۔ “ اشرف غنی نے اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خطے سے متعلق نئی پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اب ہم دہشت گرد ی کے خاتمے اور انتہا پسندی کو روکنے کے لئے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سنجیدگی سے مذاکرات کرسکتے ہیں ۔

اشرف غنی کے اس خطاب میں پاکستان کو جو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے اس کی پذیرائی ہورہی ہے۔ یادر ہے کہ اشرف غنی نے یہ پیشکش عید الاضحی کے موقع پر دی تھی، تاہم جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اعادہ کرکے انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ واقعی سنجیدگی سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہ رہے ہیں، اس پیشکش کو وہ عملی جامہ کب تک پہنائیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس کا اعادہ کرنے سے اس امر کا عندیہ دیا گیا کہ گویا پردہ جو قربتیں استوار کرنے کی کوششیں جاری تھیں وہ رنگ لارہی ہیں۔

افغان حکومت خواہ کسی بھی ڈگری پر چلے لیکن افغانستان میں عوامی سطح پر ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو نہ صرف پاکستان کی اہمیت جانتا ہے بلکہ اس اکثریت کا اصرار ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہی رکھنے چاہیے، وہ افغان جو اپنے ملک کو واپس بھی لوٹ چکے ہیں وہ اب بھی علاج کی غرض سے پشاور ہی آتے ہیں اس لئے ان حلقوں کا اصرار ہے کہ نہ صرف اشرف غنی بلکہ عبداللہ عبداللہ بھی پاکستان کے نقل وحمل کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔

یاد رہے کہ پاک افغان سرحد پر گیٹ کی تنصیب کے موقع پر جو بد مزگی ہوئی تھی اس کی وجہ سے 32 روز تک پاکستان نے افغان سرحد بند کئے رکھی۔ سرحد کی اس بندش سے اگرچہ پاکستانی تاجروں کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا لیکن جو تکالیف سرحد پار دیکھی اور محسوس کی گئیں ان میں انسانی المئے بھی دیکھے گئے جن کو ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں یاد رہے کہ افغانستان میں اب بھی صحت کی کوئی ایسی سہولیات نہیں جن کے تحت انسانی زندگی کو بچایا جاسکے، اس لئے افغان آج بھی اپنے مریضوں کو لے کر فوراََ پشاور کا رخ کرتے ہیں۔

افغان بغرض علاج صرف پشاور تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ وہ اسلام آباد تک کے معالجین کے پاس جاتے ہیں ۔ یہ مریض پاکستان کیلئے منفعت بخش ہیں جبکہ انہیں پاکستان میں ان کی مرضی کے مطابق صحت کی سہولیات مل جاتی ہیں۔ افغانستان کے عوام کی صحت کی سہولیات کی بابت پاکستان پر انحصار کی یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے اور یہ سلسلہ بہت آگے تک جاتا ہے جس کیلئے وہ ہندوستان پر انحصار نہیں کرسکتے اور نہ یہ ممکن ہے اس بناء پر افغانستان کی جانب سے مذاکرات کی جو پیشکش آرہی اس میں افغان حکومت کی رضا مندی سے زیادہ مجبوری شامل ہے۔

پاکستان میں صاحب الرائے طبقے کی رائے یہ ہے کہ پاک افغان حالات بدل رہے ہیں برف پگھل چکی ہے اور اشرف غنی جن کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ افغانستان کی مقبول قیادت کوبھی اس امر کا ادراک ہوگیا ہے کہ امریکہ یا بھارت کی ہاں میں ہاں ملا کر چلنے سے افغان عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اشرف غنی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن دوسری طرف وہ واشنگٹن اور ہندوستان کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف غنی ان دونوں کشتیوں میں سواری کیسے کریں گے یہ بہت دلچسپ امر ہوگا کیونکہ ابھی تک وہ اگر ایک طرف پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کررہے ہیں جس میں ایک جملے میں بات چیت کی پیشکش ہورہی ہے تو دوسرے جملے میں وہ امریکی صدر ٹرمپ کو بھی ان کی پالیسی پر خراج تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں جس میں موصوف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی کی وجہ سے وہ کھل کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پڑوسی ممالک سے بات چیت کررہے ہیں۔

واقفان حال جانتے ہیں کہ اشرف غنی کو ٹرمپ کو کیوں ساتھ رکھنا پڑتا ہے؟ ۔ اشرف غنی نے مذاکرات سے متعلق افغان پالیسی کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ” انہوں نے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ امن عمل میں سنجیدہ ہیں ، ان کا استدلال تھا کہ ان کی اس مذاکراتی پالیسی کا منہ بولتا ثبوت افغان حکومت اور متحارب دائیں بازو کی سیاسی جماعت حزب اسلامی کے درمیان امن معاہدہ ہے۔

یاد رہے کہ حزب اسلامی سابق افغان وزیراعظم گلبدین حکمتیار کی جماعت ہے اور ان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر اشرف غنی کو بہت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا لیکن افغان حلقوں کے مطابق اس معاہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ غنی حکومت اس تجربے کا کامیاب ثابت کرکے طالبان کو بھی مذاکرات کی میز پر لانا چاہتی تھی۔ واضح ہو کہ یہاں پر سبیل تذکرہ یہ ذکر بھی برمحل ہوگا کہ گلبدین حکمتیار کے معاملے پر عوام نے ابھی تک اشرف غنی حکومت کو معاف نہیں کیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ گلبدین حکمتیار کو 22 ستمبر ہرات میں مسجد کے اندر تقریر کرتے ہوئے ایک نوجوان نے ان کو جوتی دے ماری۔

بہر حال طالبان کو اس جانب راغب کرنے کیلئے افغان حکومت نے گلبدین حکمتیار پر عائد ہر قسم کی پابندی اٹھوائی اس کے باوجود تاحال افغان طالبان نے اس پیشکش کا جواب نہیں دیا بلکہ ان کا موقف وہی پرانا ہے جب تک خارجی فوج افغانستان سے واپس نہیں چلی جاتی اس وقت تک طالبان کسی سے امن کے بارے میں بات چیت نہیں کریں گے۔ افغان طالبان نے تو اپنا فیصلہ سنادیا لیکن اشرف غنی پھر بھی چاہتے ہیں کہ طالبان سے اگر ان کی ڈیل ہوجائے تو وہ اس کیلئے بہت آگے تک جانے کو تیار ہیں۔

اشرف غنی کو اب اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اس عوام اور خاص کر افغانستان کی پشتون آبادی کا جھکاؤ واضح طور پر پاکستان کی طرف ہے۔ افغانستان میں عوامی سطح پر شمالی اتحاد سے وابستہ عوام کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہے جو کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شمالی اتحاد یا ان کے دیگر ہم خیال طبقے افغانستان کی اقلیت ہیں جبکہ آج بھی اکثریت پشتون آبادی کی ہے جو ملک کی بڑی آبادی ہے۔

افغانستان میں عوامی دباؤ اپنی ایک اہمیت ضرور رکھتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ افغانستان روس کو دبانے کیلئے افغانستان کارڈ استعمال کررہا ہے، اس سلسلے میں تازہ واردات امریکہ نے بذریعہ کابل یہ کروائی ہے کہ افغانستان نے روس کوکوراجو ا ب دے دیا ہے کہ وہ روس سے روسی ساختہ MI-17 اور MI-35 ہیلی کاپٹر ز کی خریدار ی نہیں کرسکتے۔

اس انکار نے جنوبی ایشیاء میں تھرتھلی مچاکر رکھ دی ہے ۔ افغان حکومت نے اس انکار کے بارے میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس وقت مذکورہ دونوں ساخت کے سپیئر پارٹس انہیں نہیں مل رہے۔ ان پرزوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان کا کوئی فائدہ نہیں ، یہ مسئلہ ایک ایسے وقت میں افغانستان نے اٹھایا ہے کہ جب امریکہ اعلان کرچکا ہے کہ وہ افغان فضائیہ کو ڈیڑھ سو جدید بلیک باکس ہیلی کاپٹر دے گا۔

امریکہ اس سلسلے میں چھ بلیک باکس ہیلی کاپٹر افغان فضائیہ کے حوالے کرچکا ہے ان ہیلی کاپٹر ز کو دینے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ افغان طالبان کا قتل عام کرے اور ان کے قبضے میں جو علاقہ ہے داگزا کرایا جائے۔ اس طرح ایک طرف تو امریکہ طالبان پر دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ وہ ڈر کر مذاکرات کی میز پر آجائیں تو دوسری طرف افغانستان میں ان ہیلی کاپٹرز کی کھیپ سے وہ روس کو بھی دباؤ میں لانا چاہ رہا ہے کہ خطے مین چین کی سربراہی میں نیا بلاک بن رہا ہے روس کو اس سے باہر کیا جائے تاکہ اس اتحاد کو کمزور کیا جاسکے، اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران افغانستان اور پاکستان کیلئے امریکی ایلچی ایلس ویلز نے اپنے روسی ہم منصب ضمیر کا بلوف سے ملاقات کی ہے، اس ملاقات کو کابل میں بہت اہمیت دی جارہی ہے جس کے دوران امریکہ نے روس کو کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کروائے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ ایک طرف تو روس سے یہ فائدہ لینا چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ روس پر پہلے سے عائد پابندیاں بڑھا نے کی دھمکی بھی دے رہا ہے۔ یہ ایسی صورت ہے کہ پابندیوں کی وجہ روسی اسلحے کی مارکیٹ سے ہی اسے زرمبادلہ مل رہا ہے، اس تازہ دھمکی کے بعد روسی موقف میں کسی نہ کسی سطح پرنرمی بھی آسکتی ہے کیونکہ افغانستان نے روس سے MI-17 اور MI-35 ساخت کے جنگی طیاروں کے خریدنے کی بات کی تھی لیکن اب افغانستان بھی اس ڈیل سے پیچھے ہٹ رہا ہے تاکہ روس کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں لایا جائے۔

روس کے خلاف افغانستان اور امریکہ کے اس غیر مرئی اتحاد کے بعد روس نے MI-37 اور MI-35 کے پرزہ جات دینے کی یقین دھانی کرادی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ روس ان حالات میں کس حد تک دباؤ برداشت کرتا ہے کیونکہ پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے وہ اب اسلحہ امریکہ کے بجائے روس سے خریدیں گے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے مبینہ طور پر روس پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کو اسلحہ نہ دے اور امریکہ کا ساتھ کر خطے کو پرامن بنائے۔

ان حالات میں روس کے گرد شکنجہ کسا جارہا ہے تاکہ امریکہ ان اقدامات سے بیک وقت روس اور پاکستان سے اپنی بات منوا سکے۔ ان حالات میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اشرف غنی کو شائد یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ کسی طرح امریکہ سمیت بیرونی قوتیں افغانستان کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کررہی ہیں اس لئے وہ ان قوتوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے تو ساتھ ہی ا نہیں ایک بار یہ احساس ہورہا ہے کہ پاکستان کو بائی پاس کرنا حماقت ہے اسی لئے وہ اب پاکستان سے پھر مذاکرات کی بات کرنے لگے ہیں جو اہم تبدیلی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America or Afghanistan Ki roos K Khilaf Nai Hikmate Amliii is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.