امریکہ اور یورپ اقتصادی بحران کی لپیٹ میں!

سیاسی ومعاشی مسائل کے باعث علیحدگی کی تحریکوں میں شدت․․․ یورپی یونین میں بے روزگاری کی شرح11‘ امریکہ میں 8 فیصد سے تجاوز کرگئی

جمعہ 20 اکتوبر 2017

America or Yourp iqtsadi Buhraann
محبوب احمد :
امریکہ اور یورپ کا معاشی بحران جہاں علیحدگی کی تحریکوں کا سبب بن رہا ہے وہیں درپیش خراب اقتصادی صورتحال نے قومیتوں کے پرانے تصور کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ امریکی مالیاتی بحران کے بعد یورپ کو جن شدید مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے اثرات اب ترقی پذیر ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں ، اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہیں کہ حالیہ برسوں سے شروع ہونے والا معاشی بحران دنیا کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکا، یہی وجہ ہے کہ معاشی بحران کے اثرات اس تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں کے امریکہ اور یورپ میں علیحدگی کی جن تحریکوں نے جنم لیا ان میں اب شدت دکھائی دے رہی ہے ۔

عالمی کساد بازاری اور مالیاتی بحران کے اثرات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ گھر،گاڑی حتیٰ کے ضروریات زندگی کی عام اشیاء کی خریداری بھی قرضے کی رقوم سے کرنے پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

امریکہ اوریورپ کی حالت جو تفریط زر کے بحران کی زد میں ہے عالمی نقطہ نظر سے معاملات میں مزید بگاڑ کا سبب بن رہی ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق یورپی یونین میں بے روز گاری کی شرح 11 فیصد جبکہ امریکہ میں 8 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔

عالمی معاشی حالات ان دنوں انتہائی ابتری کا شکار ہیں ، لہٰذا ایسی صورت حال میں یورپ اور امریکہ اپنے معاشی استحکام کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ کو ایران تجارتی تعلقات میں خرابی کی وجہ سے 2014ء میں 175 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا تھا اسی لئے اب ٹرمپ انتظامیہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کو ترجیح دے رہی ہے ، یہ بات قابل غور ہے کہ ایران امریکہ تجارتی سرگرمیاں از سر نو شروع ہونے کی صورت میں امریکی مصنوعات قطر بتوسط ایران پہنچتی رہیں گی اورقطر کی دولت سے امریکہ کو بالواسطہ طور پر فائدہ حاصل ہوتا رہے گا اور ایران بھی ان حالات سے مستفید ہوگا۔

قطر میں2022ء میں ہونیوالے فٹ بال کے سب بڑے فائنل کے لئے تیاریاں زور وشور سے جاری تھیں لیکن اب فیڈریشن آف انٹر نیشنل فٹبال ایسوسی ایشن کا عالمی کپ قطر میں منعقد ہوگا یا نہیں اس پر سوالیہ نشان لگائے جانے لگے ہیں اور قوی امکان ہے کہ اب یہ کھیل کسی یورپی ملک کو منتقل کردیئے جائیں گے تاکہ وہاں کی معیشت کو مستحکم بنانے میں تعاون کیا جاسکے۔

دیکھا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بھی عالمی معیشت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور برطانیہ کا یورپی یونین کو خیر باد کہنا عالمگیریت کے اختتام کا نقطہ آغاز ثابت ہورہا ہے۔ فرانس ، ہالینڈ اور آسٹریلیا کے سیاسی رہنما بھی ریفرنڈم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔2016ء میں برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کے بعد یورپی معیشت اس قدر تباہ ہوچکی تھی کہ ”یورو“ کی براخوستگی اور ڈالر کے کنٹرول کے متلعق مذاکرات شروع ہوچکے تھے۔

یورپ میں جنم لینے والا قرضوں کا بحران بھی عالمی مالیاتی بحران کا ہی شاخسانہ ہے جس سے یورپ بالعموم سپین ، یونان، اٹلی اور پرتگال جیسے ممالک بالخصوص متاثر ہوئے ہیں۔ معاشی لحاظ سے یورپ کے سب سے زیادہ مضبوط ممالک جرمنی میں بے روزگاری کی شرح 5.5 فیصد ہے،، آسٹریا میں 4.5 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اقتصادی بحران کے باعث یورو زون میں شامل بعض ممالک جن میں یونان، آئر لینڈ، پرتگال،قبرص اور سپین شامل ہیں نے مالی امداد بھی طلب کی، ان ممالک کو یورپی یونین، یورپی مرکزی بینک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے مخصوص مگر سخت شرائط کی بنیاد پر اربوں ڈالر فراہم کئے گئے اور ان کی نگرانی کا بیڑہ بھی قرض دہندہ اداروں نے اٹھایا، یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یورپ کا قرضوں کے بحران ، اقتصادی مفادات پر مبنی ریاستوں کے اتحاد پر کافی اثر پڑااور اس کے نتیجے میں یورو زون کے بیشتر ممالک میں آنے والے سیاسی بحران کی وجہ سے وہاں کی حکومتیں بھی تبدیل ہوئی ہیں۔

یورپ میں معاشی بحران سے نمٹنے اور بڑی کمپنیوں کو بچانے کے لئے تنخواہوں اور صحت کی سہولتوں میں کمی جبکہ ٹیکسوں اورطلبہ کی فیسوں میں اضافہ کیا گیا جس پر کئی ممالک میں پر تشدد احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے لیکن حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہ آسکی، یہی وجہ ہے کہ یورپ کے مختلف ممالک میں آزادی کے حصول کی جدوجہد جاری ہے۔ سپین میں باسک علیحدگی پسند خودمختاری کا مطالبہ کررہے ہیں ۔

باسک علاقے رقبے کے لحاظ سے سپین کا 10 فیصد بنتے ہیں ، تاہم مجموعی قومی پیداوار میں ان علاقوں کا حصہ ایک چوتھائی بنتا ہے، اسی طرح اب اگر شمالی اٹلی اور میلان کے ارد گرد کے علاقوں کی بات کی جائے تو وہ ملک کے معاشی اعتبار سے کمزور جنوبی حصے کی مزید مدد نہیں کرنا چاہتے ، اسی طرح سکاٹ لینڈ بھی تیل کی پیداوار سے ہونے والی آمدنی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے۔

بیلجیئم میں صورتحال بہت ہی نازک ہے ، جہاں ولندیزی اور فرانسیسی بولنے والوں یعنی فلمیش اور والونیہ آبادیوں کے مابین شدید اختلاف پائے جاتے ہیں ۔ ولندیزی اکثریت والے علاقوں کا ملک کے دیگر حصے سے الگ ہونے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے ، یہاں بھی اقتصادی پہلو نمایاں ہے کیونکہ بیلجئیم کی مجموعی قومی پیداوار میں ولندیزی علاقوں کے حصہ 60 فیصد بنتا ہے۔

مغربی ممالک اور سازشی عناصر اقتصادی بحران سے چھٹکارے اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اب عالم اسلام کو تقسیم کرنے کے لئے سازشوں میں مصروف ہیں ۔ عرب دنیا کی یہ ترقی کس کی آنکھ میں کھٹک رہی ہے اس بات کو محسوس کررہے ہیں لیک سبھی ممالک مصلحت پسندی کا شکار ہیں اور یہی مصلحت پسندی ان ممالک کے زوال کا سبب بن رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ اب اپنے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا پوری طرح ادراک ہے کہ اگر معاشی بحران بدستور برقرار رہا تو ایسی صورت میں ان کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America or Yourp iqtsadi Buhraann is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.