”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“نتائج کیا ہوں گے؟

تجارت،سکیورٹی اور ثقافتی شعبوں میں تاریخی معاہدے․․․․ انتہا پسندی کیخلاف جنگ کو ملکوں کے درمیان تنازعات بنانے سے گریز کیاجائے

بدھ 31 مئی 2017

Arab America Islamic Conference Nataej Kia Hongay
محبوب احمد:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسند صدارت پر بیٹھنے کے بعد اپنے پہلے ہی عالمی دورے کے لئے سعودی عرب کو کیوں چنا اور کیا ریاض میں ہونے والی ”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“ جس میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سمیت تقریباََ 50 سے زائد ممالک سربراہان مملکت نے شرکت کی ہے۔ خطے سے انتہاپسندی کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگی؟یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہاں سب سے غورطلب سعودی فرمانرواشاہ سلمان اور امریکی صدر کے وہ بیانات ہیں جو انہوں نے ایران کے حوالے سے دئیے ہیں۔

ریاض میں”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“ کے سربراہی اجلاس میں ٹرمپ کا یہ بیان کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ عقائد کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ”نیکی اور بدی“ کی جنگ ہے۔

(جاری ہے)

لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کیونکہ صدر ٹرمپ کا حال ہی میں 6 مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکہ آنے پر سفری پابندیاں لگانے کی کوششوں کی وجہ سے اسلام مخالف کہا جارہا تھا۔

لیکن انہوں نے اپنا اولین دورہ بھی مسلم ملک کا ہی کیا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ ماضی میں اسلام کے حوالے سے متعدد متازع بیانات دے چکے ہیں جیسے کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کی ڈیٹا بیس بنانے پر بھی غور کر سکتے ہیں،ان کی اسلام کے بارے میں تقریر کے مصنف ان کے مشیر”سٹیون ملز“ہیں جنہوں نے امریکہ میں چند اکثریتی مسلمان ممالک سے تارکین وطن کی آمد کے حوالے سے پابندی تیا ر کی تھی،یہاں یہ بھی خیال رہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمزکومی کی برطرفی کے معاملے پر انہیں اپنے ہی ملک میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی روانگی سے قبل سعودی وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ امریکہ اور مغرب اسلامی دنیا کے دشمن نہیں ہیں۔یہ واقعی ایک بھرپور پیغام ہے لیکن سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اربوں ڈالرز کے طویل المدتی اسٹریجیٹک ویژن کے دفاع،عسکری پیداواری ،توانائی اور ٹیکنالوجی سمیت سرمایہ کاری،تیل او ر دیگر باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے سے متعلق معاہدوں اور یادداشتوں کے تبادلے اور امریکی صدر کے اس پہلے غیر ملکی دورے کے لئے سعودی عرب کے انتخاب کے فیصلے کو جہاں بعض ممالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔

وہیں بعض ممالک کی طرف سے تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا جاررہا ہے،اس کی بڑی وجہ سعودی عرب کے ان معاہدوں میں ایک سو پچاس ارب ڈالر کا اسلحے سے متعلق معاہدہ بھی شامل ہے جوکہ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ ہے جس سے دفاعی سازو سامان اور سروسز سے سعودی عرب اور پورے خلیجی خطے کو طویل مدت تک سکیورٹی کی مد میں معاونت ملے گی۔

یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کے مطابق دفاعی معاہدوں کا مقصد انتہا پسند ممالک خاص طور پر ایران کے ضرررساں اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔کیا مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے یہ ”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“” عرب نیٹوفورس“ کی بنیاد رکھنے کا موقع فراہم کر پائے گی؟کیا دہشت گردی کے خلاف عالم اسلام اور مغرب کے درمیان ایک نئے اتحادی کی راہ ہموار ہوگی؟کیا امریکہ اور مغرب پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائے گا کہ وہ اسلام کے دشمن نہیں ہیں؟اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ ملکوں کے درمیان تنازعات کو ہوا نہ دینے سے ہی انتہا پسندی کیخلاف اس جنگ میں یقینی کامیابی ہوگی”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“ کے دوران انتہا پسندی کے خاتمے اور تجارت ،سکیورٹی اور ثقافتی شعبوں میں ہونے والے تاریخی معاہدوں کے حوالے سے یہ چند سوال زبان زدعام ہیں کہ جن کی حقیقت وقت کے ساتھ ساتھ سب پر عیاں ہو جائے گی۔

سعودی فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بند کمرے میں ایک گھنٹے کی طویل ملاقات اور ایران کے حوالے سے بیانات نے بہت سے شکوک وشبہات کے ساتھ ساتھ کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔جن کا اگر بروقت ازالہ نہ کیا گیا تو ”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“ بھی قیام امن کیلئے دیگر منعقد کانفرنسز کی طرح وقت کا ضیاع اور بے معنی ہی ثابت ہوگی۔

امریکہ نے گزشتہ 6 دہائیوں سے خطے کی طاقتوں میں جاری رسہ کشی میں کسی کو سبقت حاصل نہیں کرنے دی اور تیل کی دولت سے مالامال خلیج میں اپنی طاقت کو برقرار رکھا ہے،اگر بغور دیکھا جائے تو سابق امریکی صدر اوباما نے اس توازن کو اس امید پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایران میں اعتدال پسند قوتوں کو تقویت ملے اور وہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بحال کر سکیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف اس پالیسی کو رد کیا ہے بلکہ اس کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کو قابو میں لانے کے بجائے اس سے ٹکر لینے کے اشارے دئیے گئے ہیں۔

لہٰذا اب ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے پر مستقبل میں عملدرآمد غیر یقینی سا ہو گیا ہے اور اس کے بھی قوی امکانات ہیں کہ اس معاہدے کو باقاعدہ ترک کرنے کے بجائے امریکی انتظامیہ کے تہران پر دباؤ اس کی ناکامی کی وجہ بے،دوسری بات امریکہ کی یمن میں خانہ جنگی میں شمولیت ہے جس میں اقوام متحدہ کے مطابق 10 ہزار شہری ہلاک جبکہ ایک کروڑ7 لاکھ فاقہ کشی کا شکار ہونے کے قریب ہیں۔

امریکہ اس وقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مبنی اتحاد کی بالواسطہ مدد کر رہا ہے جو حوثی باغیوں سے لڑ رہا ہے جنہیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔قبل ازیں بھی امریکہ ایران کا شمالی کوریا سے موازنہ کرتے اور اور ایران کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس امر کا اظہار کر چکا ہے کہ ایران کی”پریشان کن اور اشتعال انگیزی“ کی وجہ سے یمن ،عراق،شام اور لبنان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

اوباما انتظامیہ نے سعودی اتحاد کی بلا امتیاز فضائی بمباری کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے سعودی اتحاد کو فراہم کی جا نے والی مدد میں کمی کی تھی۔امریکی صدر ٹرمپ کی ریاض آمد سے چند گھنٹوں قبل ہی سعودی عرب نے یہ اعلان کیا تھا کہ سعودی ایئر ڈیفنس نے یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے فائر کئے گئے راکٹ کو دارلحکومت ریاض کے جنوب میں مارگرایا ہے اور اس حملے کے بعد سعودی فضائیہ نے یمن کے دالحکومت صنعا کے قریب حوشیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے الزام کہ خمینی انقلاب کے بعد سے ایران دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے اور عراق ،شام،یمن تک ایران نہ صرف دہشت گردی کے لئے فنڈز فراہم کر رہا ہے بلکہ وہ دہشت گردوں کی تربیت کرنے سمیت اسلحہ فراہم کرنے اور خطے میں افراتفری پھیلانے اور عدم استحکام لانے کے لئے انتہا پسند گروپ بنا رہا ہے لمحہ فکر یہ سے کم نہیں ہے۔

”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“میں جس انداز سے ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ٹرمپ کی یہ اپیل کہ جب تک ایرانی حکومت امن کے لئے ساتھ دینے پر رضا مند نہیں ہوتی اسے عالمی طور پر تنہا کردیا جائے وہ بعض مسلم ممالک کا کڑا امتحان ہے کہ ایران کے حوالے سے وہ اب کون سی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔

ایران کے حالیہ صدارتی انتخابات میں دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کرنے والے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ انتہا پسندی کے بجائے دنیا کے ساتھ مل کر کام کریں گے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر روحانی ایرانی سماج سے”طالبانائیزیشن“ کے وائرس کو ختم کرنے میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں اور کیا ایران ان کی قیادت میں موجودہ گھمبیر مسائل سے چھٹکارہ پاتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر پائے گا۔

دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی نام ونہاد جنگ میں پاکستان نے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں پاکستان کو قیمتی جانی نقصان کے ساتھ ساتھ 120 ارب ڈالر کے لگ بھگ مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا اور پاکستان آج بھی دہشت گردی کیخلاف اس جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے لیکن”عرب امریکہ اسلامک کانانفرنس“کے دوران ٹرمپ نے دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں امریکہ،آسٹریلیا،بھارت،افغانستان،روس،چین کے علاوہ جہا دیگر ممالک کا ذکر کیا وہیں پاکستان کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے نام لینا بھی گوارا نہ کیا۔

دنیا میں یہودی بستیوں کی تعمیر سے لیکر ہندو بستیوں کی تعمیر تک ایک ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ جس کی تکمیل کیلئے”فلسطین“اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کو کم کرنے کے لئے اقلیتوں کو آباد کرنے کی اسرائیلی اور بھارتی کوششوں میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے۔”فلسطین“اور جموں و کشمیر“ کے علاقوں میں معصوم بے گناہ مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور اس ظلم و بربریت سے جہاں لاکھوں مسلمان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہیں لاکھوں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی برادری ،اقوام متحدہ خصوصی طور پر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار امریکہ نے اس ظلم وستم پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“ میں ٹرمپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن اگر امریکہ واقعی دنیا میں ”جنگ“ نہیں”امن“ چاہتا ہے تو پھر بھارتی اور صہیونی درندوں کے ہاتھوں کشمیریوں اور فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کیلئے پہل کرنا ہوگی،عراق،شام اور افغانستان میں خانہ جنگی کی بھڑکتی ہوئی آگ پر قابو پانے کے لئے عملاََ اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ دنیا پر یہ باور کرایا جا سکے کہ”عرب امریکہ اسلامک کانفرنس“ کا مقصد واقعی دنیا سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہے نہ کہ انتہا پسندی کیخلاف جنگ کو ملکوں کے درمیان تنازعات میں مبتلا کرنا مقصود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Arab America Islamic Conference Nataej Kia Hongay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 May 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.