بھارت کی اشتعال انگیزیاں

دنیا کے بہت سارے ممالک کے آپس میں اختلافات بھی ہیں اور کشیدگی بھی مگر پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات دْنیا بھر میں بہت سے حوالوں سے منفرد ہیں۔ ایک ہی ملک سے معرض وجود میں آنے والے ممالک میں کشیدگی ایک قابلِ فہم بات ہے۔ اس طرح کی مثالیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ملتی ہیں مگر کہیں بھی پاک بھارت تعلقات جیسی کیفیت نظر نہیں آتی

جمعہ 9 دسمبر 2016

Baharat Ki Ishteyal Angeziyaan
رابعہ رحمن:
دنیا کے بہت سارے ممالک کے آپس میں اختلافات بھی ہیں اور کشیدگی بھی مگر پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات دْنیا بھر میں بہت سے حوالوں سے منفرد ہیں۔ ایک ہی ملک سے معرض وجود میں آنے والے ممالک میں کشیدگی ایک قابلِ فہم بات ہے۔ اس طرح کی مثالیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ملتی ہیں مگر کہیں بھی پاک بھارت تعلقات جیسی کیفیت نظر نہیں آتی۔

1947 میں دونوں ممالک کے قیام کے بعد سے ہی باہمی تعلقات میں کشیدگی چلی آرہی ہے۔ اس کشیدگی کی بنا پر دونوں ممالک میں چار جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں مگر معاملہ آج بھی جوں کا توں ہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو تنازعے کی بہت سی وجوہات ہیں مگر اس میں ہمیشہ سے کشمیر کا مسئلہ سرِ فہرست رہا ہے۔ اسکے علاوہ ہندوستان ہر وقت کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں لگا رہتا ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے چاہے وہ مسئلہ آبی وسائل کا ہو جیسا کہ حال ہی میں بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی نے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہا ہے کہ اس پانی پر صرف بھارت کا ہی حق ہے اس لیے اس کو پاکستان میں نہ جانے کے اقدامات کیے جائیں یا پھرسرحدی تنازعات کا جیسا کہ آج کل لائن آف کنٹرول کے حالات پوری دنیا کے سامنے ہیں اور یا پھر پاکستان میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو ہوا دینے کا۔

(جاری ہے)

پاکستان کی تقریباً ہر حکومت نے یہ کوشش کی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بات چیت کے ذریے حل کیا جائے مگر دوسری طرف سے ہمیشہ اس جذبے کا جواب منافقت،نفرت اور عدم تعاون کی صورت میں دیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر تقریباً ایک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے اور ہمارے ہاں سیاست میں کبھی بھی ہندوستان داشمنی حاوی نہیں ہوئی جبکہ ہندوستانی سیاست میں پاکستان دشمنی کوووٹ اور حمایت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

نریندر مودی کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد سے لے کر آج تک دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کی طرف گامزن ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کی ناعاقبت اندیشانہ اور انتہا پسندی پر مبنی سوچ اور دل میں بسی ہوئی پاکستان دشمنی ہے حالانکہ اس کے بر عکس وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومت نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے بلکہ انکے فراخدلانہ رویے پر اندرون ملک میں بہت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

گذشتہ دنوں میں روس میں ہونے والی دونوں ممالک کے وزیر اعظم کی ملاقات میں جس اعلامیے پر دستخط کئے گئے اْس پر پاکستان کے اندر بہت تنقید کی گئی مگر وزیراعظم نے اپنی سیاسی ساکھ بھی داوٴ پر لگا کر باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی باوجود اس کے کہ ہندوستان کی طرف سے اس کا جواب دشمنی، نفرت، کنٹرول لائن پر شدید خلاف ورزیوں اور را کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی صورت میں دیا گیا۔

ہندوستان اپنے ہی تجویز کردہ ایجنڈے سے منحرف ہو گیا۔ دراصل ہندوستان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پاکستان ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔ تمام تر اندرونی مشکلات (جن میں بھی ہندوستان کا براہِ راست ہاتھ ہے) کے باوجود پاکستان ہر طرح سے نہ صرف ہندوستان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اسے ناکوں چنے بھی چبوا سکتا ہے۔

پاکستان کی بہادر اور پیشہ وارانہ افواج ہندوستان کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کو نہ کوئی زیر کر سکتا ہے اور نہ مرغوب۔نریندر مودی جیسے ناعاقبت اندیش اور انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے حکمران اپنے ملک اور قوم کیلئے کبھی بھی مسیحا نہیں بن سکتے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم یا حکمران نے انتہا پسندی پر مبنی رویہ اختیار کیا یا اسے ترویج دی تو بعض اوقات وقتی طور پر تو فائدہ ہوا مگر آخرکار ناکامی اورتباہی ہی مقدر بنی۔

زمانہ قدیم میں بھی سلطنت روم او ر فارس کے بہت سے حکمران اس چیز کا شکار ہوئے اور اپنی اقوام کیلئے نہ صرف ناکامی کا سبب بنے بلکہ رہتی دنیا تک نفرت کی علامت بھی بن گئے۔ ہلاکوخان کو لوگ آج بھی نفرت اور دہشت کی علامت سمجھتے ہیں۔گذشتہ ایک صدی کے دوران ہٹلر اور سٹالن جیسے لوگ بھی ملتے ہیں جنہوں نے وقتی کامیابیاں تو حاصل کیں لیکن آخرکار اپنی اقوام کو تباہی کے دہانے پر لے آئے۔

آج دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً افغاستان اور مشرق وسطیٰ میں اسلامی شدت پسندی کا چرچا ہے جس کی وجہ سے پورا خطہ شدید بحران کا شکار ہے اس سارے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور روز بروز وہاں پر مذہبی اور معاشرتی تفریق کی بنیاد پر انتہا پسندی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ ہندوستانی حکومت کی صورت میں وہاں ایک شدت پسند گروہ حکمران ہے جس کا ماضی اسلام دشمنی سے بھرا پڑا ہے۔

نریندر مودی کی سیاست کا محور ہی انتہا پسندی کے گرد گھومتا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں جن میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس انتہا پسندانہ سوچ سے ہندو معاشرے کے اپنے نچلی ذات کے طبقے بھی محفوظ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر ہو یا کوئی بھی اور مسلم اکثریت والا علاقہ کشیدگی اور شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔

شیو سینا پہلے دھمکی دیتا ہے اور پھر اسے عملی جامہ بھی پہناتا ہے مگر حکومتی سطح پر اسے روکنے کیلئے کوئی بھی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ انتہا پسندی کے یہ رجحانات بنیادی طور پر یا تو پاکستان اورمسلمانوں کیخلاف ہیں مگر اس سے ہندوستان میں بسنے والی دیگر اقلیتیں اور چھوٹی ذات کے ہندو بھی محفوظ نہیں۔ بی۔جے۔پی حکومت کا یہ رویہ ایک ایسی ریاست کا قطعاً علمبردار نہیں جو اپنے آپ کو سیکولر بھی کہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہورت بھی اور یہ توقع بھی رکھے کہ اسے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بنایا جائے۔

پاکستان بجا طور پر ہندوستان کی طرف سے خطرہ محسوس کرتا ہے اور جوابی حکمت عملی کے طور پر تمام اقدامات اْٹھانے میں حق بجانب ہے۔ اپنے آپ کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کرنے والا بھارت اپنے بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ رویوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سامنے اپنی اصل صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اب جو ہمارے بے گناہ شہری بھارت کی اشتعال انگیزی سے شہید ہو رہے ہیں توبھارت کو جان لینا چاہیے کہ ہماری عسکری قیادت گولی کا جواب بارود کے گولے سے دے گی اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ قوم اور ریاست جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف دی آرمی سٹاف کی ایک آواز پہ لبیک کہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Baharat Ki Ishteyal Angeziyaan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.