بلدیاتی اداروں کا مالی بحران شدت اختیار کرگیا!

آگ بجھانے کے آلات ناکارہ۔۔۔۔۔۔ میئر کراچی نے خراب صورتحال کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈال دی

پیر 30 اکتوبر 2017

baldyati Idaroo Ka mali Buhraan Shidar Ikhtyar Kr Gaya
سالک مجید:
ایک طر شہر قائد کے بلدیاتی اداروں کا مالی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف شہری میں آئے روز لگنے والی خوفناک آگ نے شہریوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے کیو نکہ ہر واقعے میں فائر بریگیڈ کی کارکردگی پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں اور شکایت کی جارہی ہے کہ بروقت آگاہ کئے جانے کے باوجود فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موقع پر تاخیر سے پہنچتی ہیں اور جب آتی ہیں تو ان کے عملے کو مختلف وسائل کی کمی اور مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

کبھی پائپ پھٹے ہوتے ہیں کبھی ہیلمٹ نہیں ہوتا، کبھی پانی ختم ہوجاتا ہے غرض یہ کہ کوئی نہ کوئی وجہ ایسی ضرور بن جاتی ہے جس کے نتیجے میںآ گ پر فوری قابو پانے کی امیدیں دم توڑ جاتی ہیں اور کئی گنا نقصان ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر سامان اور وسائل بروقت دستیاب ہوں تو اس قدر نقصان سے بچا جاسکتا ہے ۔ اب شہر میں جب آگ لگتی ہے تو دل دھک دھک کرنے لگتا ہے کیونکہ اونچی عمارتوں تک فائر بریگیڈ کا عملہ رسائی حاصل نہیں کر پا رہا۔

اسٹارکل بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے پاتی۔ زیادہ تر فائر ٹینڈرز خراب کھڑے ہیں ، کسی کے ٹائر نہیں ہیں کسی کا انجن خراب ہے اسپئیر پارٹس کا رونا ہے۔ شہریوں کو عملی طور پر دعاؤں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ میئر کراچی وسیم اختر ہر مرتبہ وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں اور صورت حال کی خرابی کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دے دیتے ہیں ۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ایم کیو ایم اور اس کے میئر کراچی کو خرابیوں کاذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ آخر ان مسائل کا حل کون نکالے گا۔ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو کئی بار میئر کراچی وسیم اختر اور شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھا چکے ہیں اور ان کے کئی اعتراضات ہیں کہ کوئی بھی موقع آجائے شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھا چکے ہیں اور ان کے کئی اعتراضات ہیں کہ کوئی بھی موقع آجائے شہری انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے صوبائی حکومت پر الزام تراشی کرنے لگ جاتی ہے ۔

یہ رویہ اور روش مناسب نہیں ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کئی بار گلے شکوے کرچکے ہیں لیکن یہ اعلان بھی بار ہا کرچکے ہیں کہ مسائل کے حل کے لئے میئر کراچی کے ساتھ مل کر شہریوں کی خدمت کے لئے تیار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی بہت بڑا شہر ہے اور اس کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ 44 ملکوں سے بڑے شہر کے مسائل حل کرنے کے لئے منتخب قیادت موجود ہے اسے فنڈز بھی ملنے چاہئیں اور اختیارات بھی تاکہ وہ وقت پر کام کرکے دکھائے، لیکن شہریوں کو شکایت ہے کہ جن کاموں کے لئے خطیر فنڈز کی ضرورت نہیں وہ کا بھی ٹھپ پڑے ہیں۔

حالانکہ چھوٹے چھوٹے کئی مسائل چٹکی بجا کر حل کئے جاسکتے ہیں جن کے لئے صرف جذبہ درکار ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بعض مسائل اور بعض علاقوں کو جان بوجھ کر توجہ نہیں دی جارہی اور ان کر بڑھایا جارہا ہے، کیا اس حوالے سے بھی سیاست ہورہی ہے یہ شہریوں کے لئے ایک پریشان کن سوال ہے ۔ بھلا ہو محرم کا جس کی بدولت شہر کے ان علاقوں کی بھی سنی گئی جہاں پوراسال گڑھے پڑے ہوئے تھے سیوریج لائینیں بہہ رہی تھیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں ان علاقوں میں سے وہ علاقے چمک اٹھے ہیں جہاں سے محرم کے جلوس برآمد ہوتے ہیں یا ان کی گزرگاہ میں آتے ہیں اور جہاں مجالس ہوتی ہیں ایسے مقامات کی صفائی ستھرائی کرائی گئی۔

سڑکوں پر استر کاری کرائی گئی۔ گڑھوں کو بھردیا گیا اور ٹریفک کی روانی میں بہتری لانے کے دیگر اقدامات بھی کئے گئے جن پر علاقہ مکینوں نے شکر ادا کیا ہے، یہ شکایت سامنے آرہی ہے کہ بلدیاتی اداروں کا مالی بحران بڑھتا جارہا ہے۔ تنخواہوں کی ادائیگی بڑا مسئلہ بن سکتا ہے اس سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ صوبائی مالیاتی کمشن کے اجلاس میں تاخیر ہورہی ہے اسے جلد ہونا چاہیے۔

کمشن میں دو صوبائی اسمبلی اراکین کی شمولیت سے ہی کورم پورا ہوگا۔ تب ہی اوزیڈٹی کی تقسیم کے لئے سفارشات مرتب کی جاسکیں گی۔ کچرا تو اب دنیا بھر میں کراچی کی پہچان بنتا جارہا ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ شہر جو روشنیوں کا شہر تھا جس کی سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں آج گندگی اور غلاظت کے ڈھیر تلے دبا ہوا ہے۔ شہر کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں یہ مسئلہ درپیش نہ ہو۔

شہر میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد کچر ے کی صورتحال بہترہونے کی بجائے مزید خراب ہوتی گئی ہے ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ آج تک گاربیج ٹرانسفراسٹیشن قائم نہیں کیا جاسکا۔چار گاربیج ٹرانسفر سٹیشنوں کی تعمیر کا منصوبہ گزشتہ 23 سال سے التواء کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس پر نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔

شہر میں گاربیج ٹرین چلانے کا منصوبہ بھی بہت پرانا ہے لیکن آج تک یہ ٹرین بھی نہیں چل سکی۔ شہر میں بلڈنگ بالائی لاز پر عملدآمد بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اب ہائیکورٹ نے حکم دے دیا ہے کہ شہر میں 2 منزلہ سے زائد عمارتوں کے این او سی نہ دیئے جائیں کیونکہ یوٹیلٹی مسائل بڑھ گئے ہیں اس پر بلڈرزپریشان ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں قواعد وضوابط کی کھلی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا کردار بڑھتا جارہا ہے۔ شہر میں تو اب 60 منزلہ ٹاور بھی زیر تعمیر ہیں جبکہ جگہ جگہ کمرشل کنسٹرکشن کا سلسلہ بھی جاری ہے اس ضمن میں حکومت اب جاگ گئی ہے اور ضروری اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کا عزم کیا گیا ہے،لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر عمارت میں آگ سے بچاؤ کے حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ ہنگامی اخراج کے راستے بھی ہونے چاہئیں اور آگ بجھانے کے آلات کا انتظام بھی خود بلڈنگ والوں کو کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

baldyati Idaroo Ka mali Buhraan Shidar Ikhtyar Kr Gaya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.