بلوچستان میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات،انتظامیہ کی کارکردگی؟

ملک دشمن عناصر کا گٹھ جوڑامن کی راہ میں بڑی رکاوٹ، پانی کے بڑھتے بحران پر قابو پانے کیلئے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے

ہفتہ 15 جولائی 2017

Balochsitan Main Dehshatgardi K Barhtay Waqiaat
عبدالغنی شہزاد:
کیا اب بلوچستان ایک پرامن صوبہ بن چکا ہے؟یہ سوال صوبے کے موجودہ آپریشن اور فراریوں کے ہتھیار ڈالنے اور بیرون ملک بیٹھے کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور ناراض بلوچوں سے رابطے کے حوالے سے بھی سامنے آرہا ہے۔ مگر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے ابھی صوبے میں بارود کے ذخائر ہیں جو سردست مدھم ہوئے ہیں بھجے نہیں ۔

کسی وقت بھی آتش فشاں ہوسکتے ہیں۔جہاں تک آپریشن کا تعلق ہے تو بلاشبہ بے شمار کمانڈر گرفتار ہوئے کئی دہشت گرد مارے گئے پھانسیاں بھی ہوئیں۔کالعدم تنظیموں کے سرغنہ کے مارے جانے کی خبریں بھی ہیں۔ٹارگٹ کلنگ کم ضرور ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے بلوچستان میں اب تک درجنوں افراد جنہیں فراری کہاجاتا ہے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)

جیسا کہ گذشتہ 14 اگست کو 400 مسلح کمانڈروں نے ہتھیار ڈالے تھے۔حکومت نے اعلان شدہ پیکج کے تحت ان کی مالی امداد اور دیگر مراعات کا بھی اعلان کیا اور انہیں میڈیا کے سامنے پیش کیا۔جن میں اہم کمانڈر عبدالستار مسعودی جو افغان حکومت ہمیں سپورٹ کرتی تھی میرے ہتھیار دالنے سے یہ کیمپ ختم نہیں ہوں گے مگر کمزور ضرور ہوں گے۔صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ان کے ہتھیار ڈالنے کو ایک بہت بڑا بریک تھرو قرار ددیا اور اپنے خاندان کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا۔

شائد اب تعلیم کی اہمیت کا احساس بھی قبائلی سرداروں کو ہوگیا ہوگا کہ کوہلوکے علاقے میں سکولوں کے لئے ترقیاتی فنڈز کا استعمال ہوگا۔ گوادر جہاں زمین کوڑیوں کے مول بک رہی تھی ۔اب ایک طرف تو وہاں جائیدادیں خریدنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور قیمتیں بھی دس گنا بڑھ گئی ہیں۔ویسے بھی فوج کی نگرانی میں بننے والی گوادر کی سڑکیں اکنامک کاریڈور بن جائینگی۔

جہاں تک بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے بلوچ رہنما جنہیں ناراض بلوچوں کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ وہ کالعدم تنظیموں کے سربراہ ہیں اور بلوچستان میں دہشت گردی کے الزامات بھی ان پر ہیں۔تاہم خان قلات کا نام اس فہرست میں نہیں ہے مگر ان کو وطن واپس لانے کیلئے سب سے زیادہ کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ مالک بلوچ اور اب سردار ثناء اللہ زہری سمیت مختلف شخصیات نے ان سے رابطہ کرچکی ہیں۔

لندن ملاقاتوں میں ان کی بعض شرائط مانی نہیں گئیں تھیں اور باقی جاوید مینگل براہمداغ بگٹی،اور میر بیار مری مائل بہ کرم تو ہیں کہ ان پر بیرون ملک سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے ساتھ کچھ اور مسائل بھی آگئے ہیں مگر وطن واپسی کے لئے آمادہ ہیں ممکن ہے کچھ وقت کے بعد صورتحال بہتر ہوسکے۔ دلچسپ صورتحال تو حالیہ اجلاس اسمبلی میں سامنے آئی جب صوبائی وزیر اطلاعات وقانون پارلیمانی امور عبدالرحیم زیار توال نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد چیزوں کر ٹھیک ہونا چاہیے مگر صورتحال اس کے برعکس نظر آرہی ہے ۔

کوئٹہ سمیت صوبے میں پانی کی صورتحال خاصی گھمبیر ہے جو پانی زیر زمین موجود تھا وہ ہم نکال چکے ہیں۔چند سال بعد یہاں پانی کی بوند نہیں ہوگی۔ایری گیشن کے محکمے کو مسئلے سے نمٹنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ہمیں سیب کی جگہ نم پانی والے پھل کاشت کرنے ہوں گے۔زیر زمین پانی نکالنے کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی۔ہمارے پاس سیلابی پانی کو زخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔

ہنگامی بنیادوں پر پانی کے بحران پر منصوبہ کرنا ہوگی نئے ڈیمز صوبے کی بہت بڑی ضرورت ہیں ورنہ کچھ عرصہ کے بعد کوئٹہ ویران ہوجائے گا اور یہاں پانی کی بوند نہیں ہوگی۔ یقینا اس کے لئے صوبائی حکومت وفاق کی جانب دیکھ رہی ہوگی اور اپنے معاملات خود حل کرنے کے اقدامات نہیں کرے گی اور صوبائی وزیر کی بات کو ایک قرار داد کی صورت میں لاکر وفاق سے امداد کی درخواست کی جائے گی۔پسماندہ صوبے کی بھاری بھرکم کابینہ صرف اپنے مفادات کا دفاع کر سکتی ہے۔حالانکہ معدنی ذخائر کی رائلٹی میں اضافے کا مطالبہ کرکے پانی کا بحران حل کر سکتا ہے۔مگر یہ کون حل کرے گا کہ بلوچستان میں آبی بحران آنے والا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Balochsitan Main Dehshatgardi K Barhtay Waqiaat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.