برما میں قتل عام پر اقوام متحدہ کی خاموشی سوالیہ نشان؟

روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی․․․․․ بچوں اور خواتین سمیت جلی ہوئی انسانی نعشوں کے ڈھیر دور قدیم کی یادتازہ کرنے لگے۔

جمعہ 15 ستمبر 2017

Barma Main Qatal Aamm Pr Aqwame MutHida Ki Khamoshi
محبوب احمد:
دنیا کا ہر قانون اور ضابطہ انسانی قتل عام کی شدید مذمت کرتا ہے لیکن اس کے برعکس برما میں مسلمانوں کے قتل کے جو روح فرسا واقعات سامنے آرہے ہیں اس نے دنیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ برما میں جاری بربریت انسانی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک ہے۔عدم تشدد کے پرچاری بدھ مت انتہا پسندوں کے ہاتھوں روہنگیائی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی نسل کشی کی تاریخ بڑی پرانی ہے جو کہ ایک سنگین دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔

روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ کئی عشروں سے ایسا ظلم وستم روار کھا جا رہا ہے کہ جسے ضبط تحریر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ ماضی ہزاروں روہنگیائی مسلمان ظلم وستم سے بچنے کے لئے دیگر ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ برمی فوج اور بلوائیوں کے ہاتھوں انسانی ہلاکتوں کے حالیہ واقعات نہایت ہی دلخراش ہیں کہ ان میں سینکڑوں افراد کو تشدد اور زیادہ تر افراد کو زندہ آگ لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے ، ہرطرف بچوں اور خواتین سمیت جلی ہوئی انسانی نعشوں کے ڈھیردور قدیم کی قتل وغارت گری کی یاد تازہ کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

روہنگیا مسلمانوں اور برما کی ریاست کھائین کے بدھ مت پیروکاروں کے درمیان جھگڑا ڈیڑھ صدی پر محیط ہے جب انگریز دور میں بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں سے بڑی تعداد میں محنت مزدوری کرنے والے غریب مسلمان برما کی ریاست رکھائین میں آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔لیکن اصلی فوجی آپریشن برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف 1982ء میں جنرل ون نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد شروع کیا جو برمی قانون شہریت کے نفاذ پر منتج ہوا اور اسی کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت سے محروم کیا گیا ۔

بری حکومت نے 1982ء کے سیٹیزن شپ قانون کے تحت روہنگیا ئی نسل کے 8لاکھ افراد اور برما میں موجود دیگر10 لاکھ چینی وبنگالی مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کیا تھا، لہٰذا ان مسلمانوں کو اپنے علاقے سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ تھی، روہنگیائی مسلمانوں کو برما کے کسی بھی حصے میں نہ تو ملکیت کو ئی حق حاصل تھا اور نہ ہی وہ دو بچوں سے زیادہ پیدا کرسکتے تھے۔

روہنگیاتحریک سے تعلق رکھنے والے بعض ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ روہنگیا وہاں کے مقامی باشندے تھے جبکہ کچھ کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب تاجروں کی اولاد ہیں جو کچھ صدیوں پہلے یہاں آباد ہوئے تھے لیکن برمی حکومت کا یہ مئوقف ہے کہ روہنگیائی مسلمان بنگالی آباد کا ر ہیں اس لئے انہیں واپس چلے جانا چاہیے۔ 1947ء میں روہنگیا رہنماؤں نے شمالی اراکان میں حریت پسند تحریک شروع کی تھی تاکہ ارکان کو ایک مسلم ریاست بناسکیں، 1962ء میں برمی فوج نے جنگی کاروائیاں کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قتل عام کیا، 1978میں ”آپریشن کنگ ڈریگون“ کے دوران روہنگیائی مسلمانوں کی کافی تعداد ہجرت کر کے پاکستان بھی آئی1991.92 ء میں بھی روہنگیائی مسلمانوں کا برمی فوج اور پولیس کی طرف سے معمولی پر قتل کرنا عام سی بات تھا۔

بھارت کی طرح برما میں مسلمانوں کو زندہ جلانا ایک مرغوب مشغلہ بن چکا ہے، مساجد کو شہید کر کے جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں لیکن انسانی حقوق کے علمبردار ، اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم تاحال ان کی مدد کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کر سکی، سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ8لاکھ برمی مسلمانوں کیلئے، تمام اسلامی ممالک کی زمین تنگ پڑچکی ہے اور حالات کے ستائے برمی مسلمان بیچ منجدھار سمندر کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں، ہزاروں روہنگیا مسلمان سمندر میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں محصور بے بسی کی تصویر بنے ماتم کناں ہیں کیونکہ کوئی بھی ہمسایہ ملک انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد بنگلہ دیشی حکومت بھی روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے درپے ہے،بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں اس وقت ہزاروں روہنگیا پناہ گزین ہیں جن کی شہریت کا تنازع دن بدن گھمبیر صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور گزشتہ چار پانچ عشروں سے برما میں قائم فوجی آمریت نے اس بحران کو اب مزید سنگین تر کردیا ہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے مسلمانوں کی تباہی پر ہمیشہ خاموشی کا کردار ادا کیا ہچس کا واضح ثبوت ہے آج برما میں روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم سے لگایا جا سکتا ہے۔

فلسطین، کشمیر،شام،بوسنیا عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ نے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں،اگر روانڈا میں قتل عام پر بین الاقوامی عدالت کو سودہ پر براہ راست بمباری کا حکم دے کر روانڈا کی فوج کے جرنیلوں کو سزائیں سناسکتی ہے تو برما کے جرنیلوں کے خلاف مقدمات کیوں درج نہیں کئے جارہے، برما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے جہاں ایک طرف پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے تو وہیں دوسری طرف یو این او،او آئی سی، انسانی حقوق کی تنظیموں او ر عالمی طاقتوں کی خاموشی لمحہ فکریہ سے کم نہیں، یہاں ضرورت اس امرکی ہے کہ برمی حکومت پر روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وتشدد کو روکنے اور انہیں شہرت دینے سے انکار کے قانون کو منسوخ کرنے کیلئے برمی حکومت پر دباؤ ڈال کر روہنگیائی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک مئوثر اور فعال کردار ادا کیا جائے۔

خون مسلم کی ارزنی پر دنیا کا ہر انسان دکھی ہے ۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو مصلحتوں اور مفادات سے باہر نکل کربرما میں ہونے والے ظلم وستم کو روکنے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Barma Main Qatal Aamm Pr Aqwame MutHida Ki Khamoshi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.