برمی مسلمانوں کا قتل عام اور ہماری بے حسی

میانمارحکومت نے ملک کو ہمیشہ غیر ملکی میڈیا سے دوررکھا

بدھ 1 نومبر 2017

Baurmi Musalmano ka Qatl Aam
اشفاق بھٹی:
برما کی کل آبادی 75 لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں سے مسلم آبادی تقریباََ%0.7 ہے، یہاں پر زیادہ ترتعداد بدھشٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے،یہ زمین ہیرے اگلنے میں ماہر ہے اسی وجہ سے یہاں کی حکومت نے ملک کو ہمیشہ غیر ملکی میڈیا سے دوررکھا ، باہری دنیا سے اس ملک کا رابطہ صرف ضرورت کی حد تک ہے، مہنگائی حد سے زیادہ ہے اور امراء انتہائی بے حس اور سخت گیر ہیں ، پوری دنیا کا غیر ملکی میڈیا اس وقت پرجوش ہوا جب مسلمانوں کی ایک بس کو روک کر اس میں سے 11 افراد کو بے دردی سے شہید کردیا گیا اور حکومت اس واقعے اور تشدد کو ہوا دیتی رہی ، یہ بس برما کے دارالحکومت رنگون سے تبلیغی سفر کے سلسلے میں جارہی تھی، اور تشدد کا یہ سلسلہ یہی ختم نہیں ہوا، اس کے بعد سے تو مسلمانوں کے قتل عام کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔

(جاری ہے)

، ہرروز بے انتہا مسلمان قتل کئے جارہے ہیں، برمی افواج اور بدھ مت کے شدت پسندوں سے تنگ آکر بنگلا دیش کی جانب فرار ہونے والے روہنگیا مسلمان بچوں کے سر قلم او ر زندہ جلانے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف عینی شاہدین نے کیا ہے ۔ دیگر ذرائع کے مطابق برما کی سرکاری افواج اور دیگر فورسز کی جانب سے مشرقی ریاست راکھین میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔

جہاں نہتے اور بے بس مسلمان ملک کی ایک اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔ راکھین کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے اور ظلم وستم سے تنگ آکر اب تک 60 ہزار سے زائد افرادبنگلہ دیش کی سرحد تک پہنچ گئے ہیں۔دوسری جانب روہنگیا مسلمانوں نے ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت بھی شروع کردی ہے، اور برمی افواج نے ایسے 400 مزاحمت کار ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن درحقیقت مرنے والوں میں عام شہریوں اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

برطانوی اخبار دی انڈی پینڈنٹ کے مطابق برمی افواج کے تشدد اور ظلم سے بچنے والے افراد نے ہولناک داستانیں بیان کی ہیں۔ 41 سالہ عبدالرحمان نے بتایا کہ اس کے گاؤں چوٹ پیون پر پانچ گھنٹے تک مسلسل حملہ کیا گیا۔روہنگیا مردوں کو گھیر کر ایک جھونپڑی میں لے جایا گیااورانہیں دائرے میں بٹھا کر آگ لگائی گئی جس میں عبدالرحمان کا بھائی بھی مارا گیا۔

عبدالرحمان نے ایک ہولناک واقعہ بتایا کہ میرے دو بھتیجوں جن کی عمریں چھ اور نوبرس تھیں، ان کے سر کاٹے گئے اور میری سالی کو گولی ماردی گئی۔ہم نے بہت سی جلی ،کٹی اور سوختہ لاشیں دیکھی جنہیں بے دردی سے مارا گیا تھا۔ 27 سالہ سلطان احمد نے بتایا کہ بعض لوگوں کے سر قلم کردیئے گئے اور انہیں بے دردی سے کاٹا گیا اور میں اپنے گھر میں چھپا تھا۔

اس کی اطلاع پاتے ہی مکان کے عقب سے فرار ہوگیا۔دیگر گاؤں میں بھی گلے کاٹنے اور ذبح کرنے کے واقعات نوٹ کئے گئے ہیں۔ ان تمام واقعات کو ایک غیر سرکاری تنظیم فور ٹیفانی رائٹس نے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ سیٹلائٹ تصاویر سے عیاں ہے کہ ایک علاقے میں کم از کم 700 گھروں کو نذرآتش کیا گیا ہے جس کے بعد لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے سربراہ فِل رابرٹسن نے کہا کہ سیٹلائٹ تصاویر سے مسلم آبادی کی تباہی ظاہر ہے جو خود ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر ہے۔

اب تک ہم نے 17 ایسے مقامات دریافت کئے ہیں جہاں آگ لگائی گئی ہے لیکن ضرورت ہے کہ فوری طور پر وہاں لوگوں کو بھیج کر صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ واضح رہے کہ آج سے ایک سال قبل دنیا بھر کے کئی نوبیل انعام یافتہ افراد اور ممتاز شخصیت نے ایک کھلے خط کے تحت اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کی اپیل کی تھی۔ ہفتے کے روز برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے آنگ سان سوچی سے کہا ہے کہ وہ اس المیے کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔

دوسری جانب اسلامی ممالک میں ترکی پیش پیش ہے اور ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولونے بنگلہ دیش سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی سرحدیں روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے کھول دے اور اس کے اخراجات ترک حکومت ادا کرے گی۔ واضح رہے کہ 25 اگست کو راکھین میں روہنگیا سالویشن آرمی نے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا جس کے بعد برمی افواج کے ظلم میں مزید شدت آگئی ہے اور اب وہ عام شہریوں کا المیہ عشروں پرانا ہے اور گزشتہ کئی برس میں یہ مزید شدت اختیار کرگیا ہے جبکہ ان کے ساتھ بدھ مذہب افراد کا ظلم اور امتیاز عروج پر ہے اور انہیں بنگالی کہہ کر بنگلہ دیش جانے کو کہا جاتا ہے لیکن بنگلہ دیش انہیں قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب ایردوان نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو نسل کشی قرار دیا ہے ۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہاہے کہ جمہوریت کے نقاب میں اس نسل کشی پر خاموش رہنے والا ہر شخص اس قتل عام میں برابر کا شریک ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Baurmi Musalmano ka Qatl Aam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.