بھارت کو ویٹو پاور بنانے کے لئے امریکہ، اسرائیل کی کوششیں جاری

پاکستان پر دہشت گردی ک ملبہ ڈالنے کی بھارتی سازشیں اور مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں ، برازیل، جاپان اور جرمنی کی مخالفت

پیر 18 ستمبر 2017

Bharat Ko Veto Power Bnanay k Liye America Israil Ki Koshishy Jari
رابعہ عظمت: بھارت کئی عشروں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقبل رکن بننے کی کوششوں میں ہے تاکہ اسے ویٹو پاور حاصل ہو اور وہ کشمیریوں کی قسمت میں مزید مظالم لکھ سکے اور کشمیروں کے حق خودارادیت کا معاملہ ہمیشہ کیلئے ہی ختم کردے مگر چین اس کی راہ میں ڈٹ کر کھڑا ہے جبکہ برازیل ، چاپان ، جرمنی بھی بھارتی خواہش کے سامنے سرجھکانے کو تیا ر نظر نہیں آتے۔

دوسری جانب ہندوستان کو ویٹو پاور دینے کے لئے امریکہ اور اسرائیل ایک بار پھر سرگرم نظر آتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقاتوں کا آغاز کررکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری ششی تھرور نے انکشاف کیا کہ نہرو نے 1953ء میں امریکہ کی جانب سے ویٹو پاور کی پیشکش کو ٹھکرادیا تھا اور اس وقت یہ موقف تیار کیا تھا کہ یہ نشست چین کو دے دی جائے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت فیصلے خوشامد کے بجائے بھارت کے بہترین مفاد میں کئے جاتے تو آج بھارت ویٹو پاور ہوتا۔ اس حوالے سے بھارت کا موقف ہے کہ سلامتی کونسل کے متعلق ارکان کی تعداد کم از کم 9 ہونی چاہیے۔ پاکستان ، کینیڈا، اٹلی،اور کولمبیا نے تجویز پیش کی ہے کہ سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کی تعداد بڑھا دی جائے۔ دیکھا جائے تو بھارت پر خطے کی سپر پاور بننے کا خبط سوار ہے اور اس کے لئے وہ اسلحہ کا انبار لگا رہا ہے۔

میزائل ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان سمیت دیگر کمزور ممالک پر اپنی دھاک بٹھانے میں مصروف ہے اس نے اسرائیل و امریکہ سے اربوں ڈالر کے جنگی معاہدے کررکھے ہیں۔ نریندر مودی جب سے برسر اقتدار آئے ہیں انہوں نے اپنے سیلابی و آفت زدہ علاقوں کو دورہ کرنا تو گوارا نہیں کیا لیکن دھڑا دھڑ بیرونی دورے کئے جارہے ہیں۔ مودی پہلا وزیراعظم ہے جس نے اسرائیل سے تعلقات مضبوط کرتے ہوئے 25 سال بعد اسرائیل کے دورے پر گیا اور فلسطین جانا گوارا تک نہیں کیا۔

بھارت میں سلامتی کونسل میں مستقل ممبر شپ حاصل کرنے کی خواہش شدید ہوتی جارہی ہے کیونکہ جب وہ ویٹو پاور بن گیا تو سپر پاور بننا آسان ہوجائے گا اور بھارتی دیرینہ خواب کی تکمیل کیلئے امریکہ واسرائیل مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں ۔ امریکی حمایت کی سب سے بڑی وجہ علاقے میں چین سے مقابلے کیلئے بھارت کو تیار کرنا ہے اور اس کے سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کی تعداد بڑھانے اور اس کی اصلاحات پر زور دیا جارہا ہے تاکہ بھارت کی ویٹو پاور بننے کی راہ ہموار ہو جائے۔

بھارت کا شمار دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں ہوتا ہے اس نے انجنئیرنگ اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں کافی ترقی کرلی ہے۔ بہت تیزی سے معاشی ترقی کی جانب رواں دواں ہے جس کی بنیاد پر وہ سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا خواہاں ہے۔ لیکن بھارتی خواہش امریکی تعاون کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی اس لئے ٹرمپ کے آتے ہی مودی اس کی گود میں بیٹھے ہیں جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے برازیل ، جاپان، جرمنی بھی مستقل ممبر شپ کے حصول کیلئے صف اول میں کھڑے ہیں۔

لیکن ابھی تک اقوام متحدہ خاموش ہے کیونکہ مذکور ہ ممالک میں سے کسی مستقل نشست مل گئی تو دیگر ریاستیں بھی میدان میں آجائیں گی جو اقوام متحدہ کے لئے سردرد سے کم نہیں۔2004ء میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں یہ موضوع زیر بحث لایا گیا تھا تو اس وقت کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ (برازیل ، جاپان، جرمنی،بھارت)جی فورسیشن کے ساتھ افریقہ اور عرب لیگ کے ایک ایک ملک کو بھی مستقل ممبر شپ دی جائے تب امریکی صدر جارج بش صرف جاپان کو مستقل ممبر بنانے پر راضی ہوئے تھے۔

کیونکہ امریکہ کے بعد اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ فنڈز جاپان ہی دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان نے بھارت کی مخالفت کرکے صرف غیر مستقل ممبران کی تعداد بڑھانے کا اٹلی نے جرمنی اور میکسیکو نے جنوبی افریقہ کی مخالفت کی تھی۔ جبکہ چین اور جنوبی کوریا جاپان کی مخالفت میں سامنے آگئے تھے۔ اس کے بعد ان ملکوں نے اپنے مطالبات منوانے کیلئے کافی کلب کے نام سے ایک گروپ بنایا تھا جو 13 ممالک ارجنٹینا، کینیڈا، انڈونیشیا، کولمبو، اٹلی، پاکستان ، جنوبی کوریا ، سپین ، ترکی اور دیگر ممالک پر مشتمل ہے۔

جن کا آج بھی مطالبہ ہے کہ سلامتی کونسل میں مستقل ممبرز کی تعداد بڑھانے کے بجائے غیر مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اسے 20 کردیا جائے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کا اقوام متحدہ سے یہ شکوہ بھی بچا ہے کہ دنیا میں صرف پانچ ملکوں کو سپر سمجھ کر انہیں ویٹو پاور دیکر دنیاوی معاملات کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا گیا ہے اور وہ دنیا کے امن سے کھیلتے ہوئے مسلسل من مانیاں کررہے ہیں۔

حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ میں سب انسانوں کو آزاد اور برابری کی بنیاد پر حقوق دینے کی بات کی گئی ہے پھر سلامتی کونسل میں یہ امتیاز کیوں برتا گیا ہے اور یہ ہیومن رائٹس چارٹرڈ کے تضاد میں ہے۔ یہ پانچ سپر پاور یہی چاہتی ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک ہمارے غلام بنے رہیں اور ہم ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرکے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھیں۔

اقوام متحدہ میں دنیا کے سارے ممالک ہی ممبر ہیں ان کے مفادات کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ اس طرح لاطینی امریکہ،سوڈان،پاکستان، نیپال، مالدیپ، اور دیگر ملکوں کو بھی حقوق ملنے چاہئیں۔ مگر ایسا نہیں ہورہا ہے ۔ اب مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم ڈھانے والے بھارت کو ہمارے سروں پر تھوپنے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ کشمیریوں نے آزادی کیلئے اٹھنے والی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کروادیا جائے اور برہمن کے نتیجہ استبداد سے کبھی چھٹکارہ نہ حاصل کرسکیں بلکہ ہندوؤں کے غلام بن کررہ جائیں۔

موجودہ حالات میں یہ انداز ہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے اور چین کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئے بھارت کی حمایت میں سب سے آگے ہے۔ بھارت اگ خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے ۔ کیونکہ ہمارا ازلی دشمن پہلے ہی ہمیں تباہ و برباد اور کمزور کرنے کی سازشوں میں ملوث ہیں۔ اس کی خفیہ ایجنسی ”را“ بلوچستان وقبائلی علاقوں میں شورش برپا کرنے میں مصروف ہے۔

ملک میں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی ہندوستان ہی ملوث ہے جس کا واضح ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری ہے۔ ویٹو پاور بننے کے بعد اس کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھوٹان ، نیپال، سری لنکا کے ساتھ اور بھی سخت ہوجائے گا۔ جس کے لئے انہیں ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ امیر جماعت اسلامی نے برما میں ہونے والے مسلم قتل عام پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کو بھی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کا حق ملنا چاہئے۔

سلامتی کونسل اقوام متحدہ کا ایک اہم ادارہ ہے ، جس کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقل ممبران ہیں ۔ غیر مستقل ممبروں کو دو سال کے لئے جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے ، جبکہ پانچ مستقل اراکین میں امریکہ، روس ،چین،برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ ان پانچ اراکین کو یہ حق حاصل ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد کو مسترد کر سکتے ہیں۔

چاہے کونسل کے 10 غیرمستقل اور باقی 4 مستقل اس قرار داد کے حامی ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کے اختیار کو عرف عام میں ویٹو پاور یا حق استبداد کہتے ہیں ۔ یہ ایک ظالمانہ حق ہے جوان پانچ ممالک کو حاصل ہے ۔ پانچ ممالک کو ویٹو پاور دنیا دراصل دنیا کے تمام آزاد اور خود مختار ممالک کے عوام کی توہین ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کسی قرارداد کی منظوری کیلئے ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کے 15میں سے کم از کم 9ممبروں کی حمایت حاصل ہو۔

لیکن ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پانچ مستقل اراکین میں سے کسی ایک کا بھی منفی ووٹ نہ آئے۔ اس اصول نے ویٹو پاور کو مصتحکہ خیز بنادیا ہے۔ پانچ ممالک کو حاصل ویٹو پاور دراصل دنیا کے تمام آزاد اور خودمختاری ممالک کے عوام کی توہین ہے۔ یہ دن دیہاڑے جمہوریت پرشب خون مارنے کے مترادف ہے۔ یعنی صرف ایک مستقل ممبر کا ویٹو کردینا قرار داد کو بے اثر بنادیتا ہے ۔

یعنی صرف ایک مستقل ممبر کا ویٹو کردینا قرار داد کو بے اثر بنادیتا ہے۔ اس کی بڑی مثالیں اسرائیل فلسطین تنازع اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ہے۔ ان دونوں ایشو پر اسرائیل و بھارتی جارحیت کے خلاف اب تک سینکڑوں قرار دادیں پیش کی جاچکی ہیں ان میں کچھ جنرل اسمبلی سے منظور بھی ہوئیں مگر ان میں سے کسی ایک پر بھی ابھی تک عملدرآمد نہیں کروایا جاسکا۔

سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اس کے لئے بھارت کافی تگ ودو کررہا ہے ،خلیج تعاون کونسل، نے سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے بھارتی مطالبے کی حمایت کرچکی ہے۔ مستقل رکنیت کے سلسلے میں اگرچہ امریکہ نے جاپان کو مستقل رکنیت بننے کی خواہش ظاہر کی تھی، تاہم کچھ عرصے سے امریکہ کا پلڑا بھارت کے حق جاتا دکھائی دیتا ہے اور پاکستان موقف یہ ہے کہ مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے سے کئی خطوں میں کشیدگی بڑھ جائے گی اور سلامتی کونسل میں فیصلہ کونا دشوار ہوجائے گا۔

المیہ تو یہ ہے کہ 56مسلم ممالک کی موجودگی کے باوجود سلامتی کونسل میں ایک بھی مسلمان ملک بطور رکن موجود نہیں ہے۔ مسلم ممالک عالمی سطح پر اپنے کو منوا نہیں سکے۔ تعلیم، معیشت اور اقتصادیات میں وہ مغربی اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔ اس وقت دنیا کی پچاس بڑی کمپنیوں میں سے ایک بھی مسلمان ملک کی کمپنی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں عالمی سطح پر یہ بات اٹھائی گئی تھی کہ سلامتی کونسل میں ایک مستقل رکن اسلامی دنیا سے لیا جائے مگر وقت نے ان کے ساتھ وفانہ کی اور وہ راستے سے ہٹا دیئے گئے ۔

پھر معاملہ ایسا سرد خانے کی نذر ہوا کہ آج تک دوبارہ نہ اٹھایا جاسکا۔ اگر دیگر ممالک سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا قانونی حق رکھتے ہیں تو یہ حق مسلم ممالک بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان مسلم امہ کی قیادت کا اہل ہے پاکستان کو بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت سے مسلم امہ کو ایک مستقل نشست دی جائے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پوری دنیا کو صرف مسلم ممالک میں انسان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیوں نظر آتی ہے؟ اقوام متحدہ کے بیبنر تلے سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں توسیع اور درجہ بندی وہ عوامل ہیں جن سے مسلم امہ کو ہلاکوں کی صورت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

برطانوی اخبار، ”ڈیلی میل“ کی ایک رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل کی مستقل نشست کیلئے صرف امریکہ کا حمایت کردنیا کافی نہیں کیونکہ امریکہ اس سے قبل برازیل ، جرمنی، جاپان کو بھی اپنی حمایت کا یقین دلا چکا ہے لیکن وہ آج تک ویٹو پاور حاصل نہیں کرسکے۔ اقوام متحدہ میں اصلاحات اور توسیع کی باتیں 1990ء سے جاری ہیں لیکن آج تک عملدآمد نہیں ہوسکا۔

امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھی دورہ بھارت کے دوران ہندوستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں چین کے مقابلے میں ایک متبادل قوت کو لاکھڑا کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسے چین کی تیز رفتار اور عسکری قوت کھٹکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کی خاطر بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے اور ایک ارب سے زائد کی تجارتی منڈی کو کیش کرنا چاہتا ہے۔

اخبار کے مطابق چین کیلئے بھارت کی ویٹو پاور کے لئے حمایت خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ دے گی اور ا س کے لئے مسائل پیدا ہونگے۔ اگر بھارت کو ویٹو پاور مل گئی تو یہ پاکستان کے لئے باعث تشویش ہوگا اور پاکستان اس ادارے کا ایک معطل رکن بن کررہ جائے گا۔ اور ہندوستان علاقے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرے گا۔ بھارت کا اصل مقصد مسئلہ کشمیر کو سرے سے ہی ختم کردینا، پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا اور ا س کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی ہے۔ اپنے انہی مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے بھارت ویٹو پاور کے حصول کیلئے مسلسل سرگرم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharat Ko Veto Power Bnanay k Liye America Israil Ki Koshishy Jari is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.