برہان مظفر وانی کی شہادت سے دہلی کا تخت بھی دہل گیا

بے پناہ بھارتی مظالم کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر کمزور ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہو رہی ہے۔۔۔ وانی کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے بیسیوں مجایدین بھارتی فوج کے خلاف کمر بستہ ہوگئے

پیر 31 جولائی 2017

Burhan Muzaffar Wani Ki Shahadat Se Dhilli Ka Takht Bhi Dehal Gaya
ارشاد احمد ارشد:
ہاتھی بہت شہ زور جانور ہے بہت بڑی جسامت اور ڈیل ڈول کا مالک ہے۔ طاقتور ایسا کہ بڑے بڑے پہلوانوں کو کچل دے،سونڈ سے پٹخ کر مار ڈالے اور تناور درختوں کو اکھاڑ ڈالے۔ ایسے طاقتور جانور کی ناک میں چیونٹی گھس جائے تو اسے بے بس وبے حال کردیتی اور موت سے ہمکنار کردیتی ہے۔ حالانکہ ہاتھی اور چیونٹی کا کوئی جوڑ نہیں۔

چیونٹی زرہ ہے تو ہاتھی پہاڑ ہے چیونٹی حقیر سا کیڑا ہے تو ہاتھی ہیبت ناک جانور ہے۔ ہاتھی کی موت چیونٹی سے اور نمرود جیسے سفاک وظالم اور جابر انسان کی موت معمولی مچھر سے دراصل اللہ کی قدرت کاملہ کا اظہار ہے۔ ان واقعات میں اللہ کی طرف سے کمزور قوموں کے لئے پیام اور سبق ہے کہ وہ حالات کے جبر او ر ظالموں کے ظلم سے مایوس وناامید نہ ہوں بلکہ اپنی کوشش ،جدوجہد اور تگ ودو جاری رکھیں اس لئے کہ کوشش کرنا انسان کاکام ہے اور نتائج کو انسان کے حق میں کرنا اللہ کاکام ہے۔

(جاری ہے)

اپنے ڈیل ڈول اور حجم کی وجہ سے بھارت بھی بدمست ہاتھی بن چکا ہے۔ یہ اپنے ہاں بسنے والے مسلمانوں ،کشمیر کے باشندوں اور اپنے پڑوسی ممالک کو روند دینا چاہتا ہے۔ پاکستان ،سری لنکا ،افغانستان اور بنگلہ دیش بھارت کے ستائے ہوئے اور اس کے ہاتھوں زخم اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ بدمست ہاتھی 69 سال سے مقبوضہ جموں کشمیر میں دندناتا پھر رہا ہے۔ اہل کشمیرکی آزادی اور خود مختاری کو اس نے پامال کررکھا ہے ۔

بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جو سرکاری سطح پر دہشت گرد تیار کرتا اور اپنے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کرتا ہے ۔ دوسری طرف بھارتی حکمرانوں کی ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ وہ پاکستان اورمقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں حالانکہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی تحریک ہے دہشت گردی ہرگز نہیں یہاں تک کہ اہل کشمیر کا آزادی کا حق جواہر لال نہرو نے بھی تسلیم کیا تھا اور یواین اونے بھی تسلیم کررکھا ہے۔

چنانچہ اہل کشمیر نے حق خودارادیت تسلیم کروانے کے لئے ہرشریفانہ کوشش کرڈالی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا ۔ سو۔۔۔ اہل کشمیر نے” تنگ آمد بجنگ آمد“ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے 1988ء میں مسلحہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ بھارت اس تحریک کو دہانے اور کچلنے کے لئے ہرحربہ وہتھکنڈہ استعمال کرچکا ہے۔ بھارتی مظالم کا اندازہ درج ذیل واقعات سے کیا جا سکتا ہے1988 میں ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا ”مقبوضہ جموں کشمیر میں روارکھے جانے والے بھارتی مظالم کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔

بیٹوں کو ماؤں بہنوں کے سامنے ننگا کرکے ماراجاتا ہے،ان کے جسموں پر کھولتا ہو اپنی ڈال دیا جاتا ہے جس سے ان کی کھال اتر جاتی ہے بعدازاں ان کے زخموں پر مرچیں چھڑک دی جاتی ہیں ،جس سے وہ تڑپ تڑپ اور سسک سسک کر موت کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔ 2007ء میں ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا “مقبوضہ جموں کشمیر میں گرفتار شدہ افراد پر وحشیانہ تشدد کے علاوہ ان کی خوراک اور پانی بند کردیا جاتا ہے، انہیں سونے نہیں دیا جاتا،بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں اور جسموں میں سوراخ کردیئے جاتے ہیں۔

“ مقبوضہ جموں کشمیر کے سرکاری انسانی حقوق کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ ایم وائی نے اپنی رپورٹ میں صورت حال کا رتذکرہ ان الفاظ میں کیا”مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی میں انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں،ہزاروں ماؤں کی گود اجڑ چکی ہے،لاتعداد بچے یتیم و معذور ہو چکے ہیں اور ہزاروں نوجوانوں کی لاشوں سے قبرستان آباد ہو چکے ہیں۔


بھارتی فوج کے بے پناہ مظالم کی وجہ سے مقبوضہ جموں کشمیر میں حریت پسند جنم لے رہے ہیں اور تحریک آزادی کشمیر کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہورہی ہے۔ جب ایک نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے تو اس کا انتقام لینے کے لئے کئی نوجوان اسلحہ تھام کر انتقام لینے کے لئے میدان میں آجاتے ہیں۔ اس کی تائید ہیومن رائٹس واج کی عہدیدار پیٹر شیانے بھی وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کی تھی۔

بی بی سی کے مطابق ایک رپورٹ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔بی بی سی کے مطابق ایک انڈین فوجی نے اپنی ڈائری میں ایک واقعہ لکھا”بھارتی فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑرہی ہے مگر ایسا نہیں ہم جموں کشمیر میں جنہیں مارہے ہیں وہ بے گناہ لوگ ہیں باقی رہے ہم فوجی ہم تو حکم کی تعمیل پر مجبور ہیں ہمیں جو کہا جاتا اور تربیت میں سکھایا جاتا ہے ہم وہ کرتے ہیں۔

“مئی 2006ء میں بھارتی مصنفہ ارون دتی رانے نے کہا تھا ”مقبوضہ کشمیر میں ساتھ لاکھ بھارتی فوج نے صورتحال کو ابتر بنا رکھا ہے ۔ بھارتی معاشرہ نازیوں جیسا ہے، مقبوضہ جموں کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا تک امن ممکن نہیں۔ “ حق خودارادیت کے وعدوں کو ایفانہ کرنے اور بھارتی فوج کے اس طرح کے بے پناہ مظالم نے کشمیری نوجوانوں کے مسلح تحریک چلانے پر مجبور کردیا ہے جبکہ مجاہدین کی کاروائیاں صرف بھارتی افواج تک محدود ہیں اس بات کا اعتراف مقبوضہ جموں کشمیر کے سیکرٹری داخلہ تک راج کاکڑ نے ان الفاظ میں کیا تھا ” مجاہدین کسی سیاح یا بے گناہ شہری کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ ان کا ہدف صرف اور صرف بھارتی فوج اور چند بھارت نواز سیاستدان ہیں۔

اگرمجاہدین بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنائیں تو یقینی بات ہے کہ ان کے کاز کو نقصان پہنچے گا۔ “یہ مقبوضہ جموں کشمیر کے زمینی حقائق ہیں جہاں تک بھارتی حکمرانوں کا تعلق ہے ان کا رویہ اس سے مختلف ہے وہ کسی اہل کشمیر کی تحریک آزادی کا الزام پاکستان کے سر تھوپتے رہتے ہیں، کبھی کہتے ہیں وادی میں مسلح تحریک دم توڑچکی ہے،کبھی کہا جاتا ہے ہم نے دراندازی کے تمام راستے بند کردیئے ہیں،کبھی فوج کے انخلا کا ڈرامہ کرتے ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے دراندازی کی جارہی ہے۔

“ اس ضمن میں مختلف اوقات میں بھارتی فوج کے مختلف ذمہ داران کے بیانات اگر اکٹھے کئے جائیں نہایت ہی مضحکہ خیز صورت حال بنتی ہے۔ بہر حال بھارتی فوج کے جرنیلوں کے بیانات جو بھی ہوں امر واقعہ یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی گلے کی ایسی ہڈی بن چکی ہے جسے بھارت نگل سکتا ہے اور نہ اگل سکتا ہے۔ جس کی تازہ مثال مظفر برہان وانی کی شہادت اور اس کے بعد کی پیدا شدہ صورت حال ہے۔

حزب المجاہدین کے جانباز وسالار مظفر برہان وانی کی عمر بوقت شہادت صرف 21 سال تھی، 21 سالہ کشمیری نوجوان کی شہادت پر بھارتی حکومت کو جس شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑااس کی مثال مقبوضہ جموں کشمیر کی گزشتہ 41 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی ۔ 21 سالہ برہان مظفر وانی نے بھارتی حکومت اور مقبوضہ جموں کشمیر میں تعینات 8 لاکھ بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔

بھارتی فوج نے برہان وانی کے سر کی قیمت مقرر کررکھی تھی۔ اس کی جرأت و بہادری اور شجاعت ودلیری سے بھارتی فوج کے بڑے بڑے سورما خوف کھاتے اور اس کے قریب جانے سے ڈرتے تھے یہی وجہ تھی کہ برہان کے خلاف ہونے والے آپریشن میں بیک وقت تین فورسز راشٹریہ رائفلز،پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ اور سنٹرل ریزرو پولیس نے حصہ لیا۔ بات وہی ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں کہ جب ایک مجاہد شہید ہوتا ہے تو اس کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے بیسیوں مجاہد میدان میں آچکے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پورا کشمیر آتش فشاں بن چکا ہے۔ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تادم تحریر وادی کے مختلف علاقوں میں بھارتی فوجی،نیم فوجی اداروں اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں چالیس سے زائد افراد جام شہادت نوش کرچکے جبکہ 300 سے زائد کشمیری مطاہرین زخمی ہوئے ہیں۔ 30 پولیس تھانوں پر حملے ہوئے اور کئی تھانوں سے اسلحہ لوٹنے کی اطلاعات ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ دفاتر پر بھی حملے ہوئے ہیں۔ وادی میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل ہوچکی ہے، حریت کانفرنس کے رہنماؤں سید علی گیلانی، سید شبیر شاہ،میرواعظ عمر فاروق،مسرت عالم بٹ،یاسین ملک،اور محترمہ آسیہ اندرابی کی اپیل پر وادی میں آٹھ جولائی سے کاروبار زندگی ٹھپ ہے۔ برہان وانی کی شہادت پر ردعمل اتنا شدید ہے کہ بھارت کا پایہ تخت دہلی۔

۔۔دہل کر رہ گیا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر فاروق عبداللہ کو بھی کہنا پڑا کہ ”برہان وانی نہ تو پہلا شخص ہے جس نے بندوق اٹھائی اور نہ ہی آخری ہوگا“۔ آئیے دیکھتے ہیں وادی کشمیر کا بہادر دلیر سپوت کون تھا اس نے میدان جہاد میں کب اور کیوں قدم رکھا۔۔۔۔؟ مقبوضہ کشمیر کے ایک علاقے ترال کے گاؤں شریف آباد میں ریاضی کے استاد اور ہائی اسکول ہیڈ ماسٹر مظفر وانی رہتے ہیں ۔

ان کی اہلیہ میمونہ وانی بھی پوسٹ گریجویٹ ہاؤس وائف ہیں۔ ان دونوں کے چار بچے تھے۔ بڑا بیٹا خالد مظفر وانی ایم کام تھا۔ چھوٹا بیٹا برہان وانی میٹرک میں تھا۔ ان دونوں سے چھوٹی ایک بہن اور ایک بھائی ابھی زیر تعلیم ہیں۔ شریف آباد کے لوگ بتاتے ہیں کہ اب سے چھ برس پہلے دو ہزار دس کے کسی ایک دن دونوں بھائی خالد مظفر،برہان مظفر اور ان کا ایک دوست موٹر سائیکل پر جا رہے تھے کہ پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کے اہلکاروں نے انہیں بلاوجہ روکا،تلاشی کا مطالبہ کیا تینوں نے نہائت خاموشی اور شرافت سے تلاشی دی لیکن پولیس اہلکاروں نے ان کی خاموشی کو بزدلی سمجھتے ہوئے پیٹنا شروع کردیا۔

نازو نعم میں پلا خالد بے ہوش ہو گیا جبکہ برہان اور اس کا دوست وہاں سے فرار ہوگئے۔ ایک برس بعد شریف آبادکے لوگوں نے سنا کہ برہان حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا ہے ۔ یہ برہان کی جہادی زندگی کا آغاز تھا۔ اس نے سب سے پہلے سخت ترین عسکری تربیت لی اور پھر بھارتی فوج پر توبڑ توڑ حملے شروع کردیئے ،جلد ہی وہ کشمیری نوجوانوں کا ہیرو بن گیا۔ ہندوستان ٹائمز کے بقول برہان وانی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سری نگر میں 40 بار اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، اس کے جنازے میں ایک لاکھ سے زائد عام کشمیریوں نے شرکت کی اور مجاہدین نے کلا شنکوفوں سے سلامی دی۔

پاکستان میں جماعت اسلامی اور جماعہ الدعوة نے وسیع پیمانے پر اور ملک بھر میں برہان وانی کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا۔ جماعہ الدعوة نے لاہور سے اسلام آباد اظہار یکجہتی کشمیر کارواں چلایا جبکہ ان سطور کی اشاعت تک اسلام آباد میں جماعہ الدعوة کے اظہار یکجہتی کشمیر جلسہ کا نعقاد ہوچکا ہوگا ۔ حکومت کی طرف سے بھی 20 جولائی کو سرکاری سطح پر اظہار یکجہتی کشمیر کا دن منایا گیا۔ بلاشبہ یہ سب کچھ بہت ہی خوش آئند ہے اور اس سے اہل کشمیر کے حوصلے یقینا بلند ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Burhan Muzaffar Wani Ki Shahadat Se Dhilli Ka Takht Bhi Dehal Gaya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.