برہان وانی کی شہادت۔۔ دہلی کا تخت بھی ہل گیا

بھارت دنیا کا واحدملک ہے جو سر کاری سطح پردہشت گردی کوفروغ دیتا،پروان چڑھاتا، دہشت گردتیار کرتا اوراپنے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کرتا ہے دوسری طرف بھارتی حکمرانوں کی ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گردقراردیتے ہیں

پیر 10 جولائی 2017

Burhan Wani Ki Shahadat
ارشاد احمد ارشد:
بھارت دنیا کا واحدملک ہے جو سر کاری سطح پردہشت گردی کوفروغ دیتا،پروان چڑھاتا، دہشت گردتیار کرتا اوراپنے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کرتا ہے دوسری طرف بھارتی حکمرانوں کی ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گردقراردیتے ہیں حالانکہ مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری جدوجہددہشت گردی نہیں بلکہ آزادی کی تحریک ہے۔

یہاں تک کہ اہل کشمیر کا آزادی کا حق جواہر لال نہرو نے بھی تسلیم کیا تھااور یو این او نے بھی تسلیم کر رکھا ہے۔چنانچہ اہل کشمیر نے حق خودارادیت تسلیم کروانے کے لئے ہر کوشش کرڈالی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔سواہل کشمیر نے ”تنگ آمد بجنگ آمد“کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے1988ء میں مسلح جدوجہدکا آغاز کیا۔

(جاری ہے)

بھارت اس تحریک کو دبانے اورکچلنے کے لئے ہر حربہ و ہتھکنڈہ استعمال کرچکا ہے۔

بھارتی مظالم کا اندازہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی درج ذیل رپورٹ سے کیاجاسکتاہے جس میں بتایاگیاتھاکہ ”مقبوضہ جموں کشمیر میں روارکھے جانے والے بھارتی مظالم کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔بیٹوں کو ماوٴں بہنوں کے سامنے ننگا کرکے ماراجاتا ،ان کے جسموں پر کھولتا ہوا پانی ڈال دیا جاتاہے جس سے ان کی کھال اتر جاتی ہے بعدازاں ان کے زخموں پر مرچیں چھڑک دی جاتی ہیں جس سے وہ تڑپ تڑپ اور سسک سسک کر موت کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔

“2007ء میں ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا”مقبوضہ جموں کشمیر میں گرفتار شدہ افراد پر وحشیانہ تشدد کے علاوہ ان کی خوراک اور پانی بند کر دیا جاتا ہے،انہیں سونے نہیں دیا جاتا،بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے اورجسموں میں سوراخ کر دیئے جاتے ہیں۔“امرواقعہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کے مظالم تحریک آزادی کو تیزدم کررہے،تازہ ایندھن اورگرم خون مہیاکررہے اور تحریک آزادی کشمیر کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہورہی ہے ۔

جب ایک نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے تو کئی نوجوان اسلحہ تھام کر انتقام لینے کے لئے میدان میں آجاتے ہیں۔اس کی تائید ہیومن رائٹس واچ کی عہدیدارپیٹر شیا نے بھی وائس آف امریکہ کو انٹریو دیتے ہوئے کی تھی۔اس کے علاوہ بی بی سی کی ایک رپورٹ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔بی بی سی کے مطابق ایک انڈین فوجی نے اپنی ڈائری میں ایک واقعہ لکھا” بھارتی میڈیا اور بھارتی حکمران کہتے ہیں مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے مگر ایسا نہیں ہم جموں کشمیر میں جنہیں مارہے ہیں وہ بیگناہ لوگ ہیں باقی رہے ہم فوجی ہم تو حکم کی تعمیل پر مجبور ہیں ہمیں جو کہا جاتا اور تربیت میں سکھایا جاتاہے ہم وہ کرتے ہیں۔

“مئی 2006ء میں بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے کہا تھا ”مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج نے صورت حال کو ابتر بنا رکھا ہے بھارتی معاشرہ نازیوں جیسا ہے اورمقبوضہ جموں کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا تک امن ممکن نہیں۔“حق خود اردیت کے وعدوں کو ایفا نہ کرنے اور بھارتی فوج کے اس طرح کے بے پناہ مظالم نے کشمیری نوجوانوں کو اسلحہ اٹھانے ،مسلح تحریک چلانے،مرنے اور مارنے پر مجبور کردیا ہے جبکہ مجاہدین کی کاروائیاں صرف بھارتی افواج تک محدود ہیں اس بات کا اعتراف مقبوضہ جموں کشمیر کے سیکرٹری داخلہ تلک راج کاکڑ نے ان الفاظ میں کیا تھا”مجاہدین کسی سیاح یا بیگناہ شہری کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ ان کا ہدف صرف اور صرف بھارتی فوج اور چند بھارت نواز سیاستدان ہیں۔

اگر مجاہدین بیگناہ لوگوں کو نشانہ بنائیں تو یقینی بات ہے کہ ان کے کاز کو نقصان پہنچے گا۔“
یہ مقبوضہ جموں کشمیر کے زمینی حقائق ہیں جہاں تک بھارتی حکمرانوں کا تعلق ہے ان کا رویہ اس سے مختلف ہے وہ کبھی اہل کشمیر کی تحریک آزادی کا الزام پاکستان کے سر تھوپتے ہیں،کبھی کہتے ہیں وادی میں مسلح تحریک دم توڑچکی ہے،کبھی کہتے ہیں ہم نے دراندازی کے تمام راستے بند کردیئے ہیں ،کبھی فوج کے انخلا کا ڈرامہ کرتے اور کبھی کہتے ہیں دراندازی جاری ہے۔

“اس ضمن میں مختلف اوقات میں بھارتی فوج کے مختلف ذمہ داران کے بیانات اگر اکٹھے کئے جائیں تو نہایت ہی مضحکہ خیز صورت حال بنتی ہے۔بہرحال بھارتی فوج کے جرنیلوں کے بیانات جو بھی ہوں امر واقعہ یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی گلے کی ایسی ہڈی بن چکی ہے جسے بھارت نگل سکتا ہے اور نہ اگل سکتا ہے۔ جس کی تازہ مثال ابوالقاسم اوربرہان مظفر وانی کی شہادت اور اس کے بعد کی پیدا شدہ صورت حال ہے۔


مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقے ترال کے گاوٴں داد سارامیں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ متوسط گھرانے میں برہان نے آنکھ کھولی۔شہیدکے والد مظفر وانی گورنمنٹ سیکنڈری اسکول لوری گرام ترال کے ہیڈماسٹراورحساب کے استادہیں۔والدہ میمونہ ظفرسائنس گریجوایٹ اوراتوارکے روزگاوٴں کی خواتین کوقرآن پڑھاتی ہیں۔ان دونوں کے چار بچے تھے۔

بڑا بیٹا خالد مظفر وانی ایم کام میں تھا۔ چھوٹا بیٹا برہان وانی میٹرک میں تھا۔18سالہ بہن ارم مظفروانی انٹرکی طالبہ اور16 سالہ چھوٹابھائی نویدعالم وانی میٹرک کاطالب علم ہے۔ترال گاوٴں کے لوگ بتاتے ہیں کہ اب سے چھ برس پہلے دو ہزار دس کے کسی ایک دن دو نوں بھائی خالد مظفر ، برہان مظفر اور ان کا ایک دوست موٹرسائیکل پر جا رہے تھے کہ پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کے اہلکاروں نے انھیں بلاوجہ روکا تلاشی کا مطالبہ کیا تینوں نے نہایت ہی خاموشی اور شرافت سے تلاشی دی لیکن پولیس اہلکاروں نے ان کی خاموشی کو بزدلی سمجھتے ہوئے پیٹنا شروع کردیا۔

ناز و نعم میں پلاخالد بے ہوش ہو گیا جبکہ برہان اور اس کا دوست وہاں سے فرار ہوگئے۔برہان شہیدکے والدمظفروانی کہتے ہیں ” بھارتی فوجیوں کے مظالم کی داستانیں سن کرکم عمربرہان بے چین ہوجایاکرتاتھا۔وہ بھارت فورسز کے مظالم کے کئی واقعات اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ چکاتھالہندا درندہ صفت فوجیوں کے خلاف اس کے دل میں نفرت کالاواپک رہاتھا۔

بڑے بھائی خالد کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد وہ بہت بے چین رہنے لگاتھا۔پھرایک دن موسم سرما کی صبح وہ اچانک گھرسے غائب ہوگیا۔یہ سولہ اکتوبرکادن تھااورصرف دس دن بعداس کا دسویں کلاس کاسالانہ امتحان تھا۔ نویں جماعت میں میرے بیٹے نے پورے کشمیرمیں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔وہ ایک خاموش طبع، حساس ، دیندار اورہونہارطالب علم اورایک اچھاکرکٹرتھا۔

کچھ عرصے بعدہمیں اطلاع ملی کہ وہ حرب المجاہدین میں شامل ہوچکا ہے۔“تھوڑاہی عرصہ بعد حزب المجاہدین نے اس کی صلاحیتیں دیکھ کر باقاعدہ کمانڈرڈکلیئر کردیا۔اگلے پانچ برس تک برہان سیکورٹی فورسزکوتگنی کاناچ نچاتارہا۔اس دوران وہ مقبوضہ وادی کاسب سے مقبول جہادی کمانڈربن چکاتھا۔اس کی حیثیت ایک افسانوی کردارجیسی تھی۔نوجوان کشمیری نسل نے اسے اپنارول ماڈل قرار دیااورپورے کشمیرمیں بچے بچے کی زبان پراس کا نام تھا۔

پانچ برس کے دوران برہان وانی شہید نے قابض بھارتی فوجیوں کے خلاف کئی خطرناک، کامیاب آپریشن کئے اورمعرکے لڑے،جن میں بیسیوں فوجیوں کے علاوہ اعلی عہدوں کے حامل بہت سے افسرمارے گئے۔2014ء میں برہان نے اپنے14مجاہدوں کے ساتھ ایک گروپ سوشل میڈیاپرپوسٹ کی جس میں سب نوجوان ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھامے فوجی وردیوں میں ملبوس تھے۔سوشل میڈیاپر یہ گروپ فوٹووائرل ہوگیا اوراس نے عالمی توجہ بھی حاصل کی۔

اس کے بعدہی بھارتی حکومت نے برہان وانی شہید کے سرکی قیمت دس لاکھ مقررکردی۔ 8 جولائی کو برہان وانی ککرناگ میں اپنے دیگر دو جہادی ساتھیوں کے ہمراہ ایک مقامی دوست فاروق احمدکے گھرمیں موجود تھا کہ بھارتی افواج نے فاروق احمدکے گھرکامحاصرہ کرلیا۔اس مقابلہ میں برہان نے اپنے دوساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔ 21سالہ برہان وانی کی شہادت پر بھارتی حکومت کو جس شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی مثال مقبوضہ جموں کشمیر کی گذشتہ تاریخ میں نہیں ملتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Burhan Wani Ki Shahadat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.