برما میں انسانیت کے قتل عام پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی

مسلمانوں کو زندہ جلانا اور مساجد کو شہید کرکے جائیدادیں ضبط کرنا بلوائیوں کا مرغوب مشغلہ بن گیا مقدس مقامات کی بیحرمتی ، آگ وخون کا رقص

جمعہ 21 اپریل 2017

Burma Main Insaniat K Qatal e Aam Par Aqwam e Muthida Khamosh Tamashai
محبوب احمد :
برماجسے میانمار بھی کہاجاتا ہے اس کا دارالحکومت ینگون اور رقبہ 7لاکھ مربع میل ہے ۔ بھارت بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کے درمیان گھرے ہوئے اس ملک کی آبادی 6کروڑ کے لگ بھگ ہے ، بدھ یہاں کی اکثریتی آبادی کا مذہب ہے ۔ برما میں بدھ مت کے پیروکار 90فیصد اور مسلمانوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور وہ متعصب بدھوں کے رحم وکرم پر کسمپری کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہین ۔

روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے میانمار میں کئی عشروں سے ظلم وستم کے ایسے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کہ اسے تحریر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ شرپسند بدھوؤں کے ستائے لاکھوں مسلمان بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر مہاجر کیمپوں میں آج بھی بے یار ومدد گار پڑے ہیں جبکہ تازہ واقعات نے ان کی تعداد میں کئی گنااضافہ کردیا ہے ۔

(جاری ہے)

بلوائیوں کے ہاتھوں قتل عام کی داستان مسلسل آج کی جدید اور انسانی حقوق کی علمبرداری کی دعویدار دنیا کے لئے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔

افسوس در افسوس کہ جان بچا کر قریبی ممالک کی طرف بھاگنے والے افراد کو بھی بدترین صورتحال کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد بنگلہ دیشی حکومت بھی روہنگیاپناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے درپے ہے ، ایک طرف بنگلہ دیش انہیں برمی کہہ کردھتکار رہا ہے تو دوسری طرف باما کے حکمران انہیں بنگالی کا طعنہ دے کر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔


بھارت کی طرح برما میں بھی مسلمانوں کو زندہ جلانا مرغوب مشغلہ بن چکا ہے ۔ مساجد کو شہید کر کے جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں ۔ انسانی ہلاکتوں کے حالیہ واقعات نہایت ہی دلخراش ہیں کہ بچوں اور خواتین سمیت چلی ہوئی انسانی لاشوں کے ڈھیر دور قدیم کی قتل وغارت گری کی یاد تازہ کردیتے ہیں ۔ بری فوج پولیس اوردیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بلوائیوں کے ساتھ اس قتل عام میں پیش پیش ہیں ۔

برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے ظلم وستم پر جہاں عالمی برداری اور اقوام متحدہ کی خاموشی لمحہ فکریہ سے کم نہیں وہیں سب سے بڑھ کرستم ظریفی یہ ہے کہ 8لاکھ برمی مسلمانوں کیلئے 57 اسلامی ممالک کی زمین تنگ پڑچکی ہے اور اب حالات کے ستائے یہ برمی مسلمان برما سے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد بیچ منجد ھار سمندر کے تھپیڑوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔

1947 ء میں روہنگیا رہنماؤں نے شمالی اراکان میں حیرت پسند تحریک شروع کی تاکی اراکان کوایک مسلم ریاست بنا سکیں گے ۔ 1962ء تک یہ تحریک کافی متحرک تھی لیکن برما کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائیاں کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قتل عام کیا ۔ 1978ء میں آپریشن کنگ ڈریگون “ کیاگیا، اس دوران کافی تعداد ہجرت کرکے پاکستان بھی آئی ۔

1991ء اور 1992 کے دوران روہنگیا مسلمانوں کو برمی فوج اور پولیس کی طرف سے بھی جبری مشقت اور معمولی بات پر قتل کرنا عام سی بات بن چکی تھی ۔ روہنگیا مسلمان مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں ،ا ن کی نقل وحرکت تعلیم اورشادیوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں ، مختلف قسم کے ظالمانہ ٹیکس ، زمین کی ضبطگی اور گھروں کو مسمار کرنا روز کامعمول بن چکا ہے ۔
برما کے روہنگیا مسلمانوں کاآج وہی حال ہے جو تقریباََ 5صدیاں پہلے اندلس کے مسلمانوں کا تھا ۔

روہنگیائی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے ، مقدس مقامات اور ان کی املاک کو جلانا معمول بن چکا ہے ۔ سکیورٹی فورسز روہنگیائی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں ، ویسے تو روہنگیا مسلمانوں اور برما کی ریاست رکھائین کے بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان جھگڑا ڈیڑھ صدی پر محیط ہے جب انگریز دور میں بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں سے بڑی تعداد میں محنت مزدوری کرنے والے غریب مسلمان برما کی ریاست رکھائین میں آباد ہونا شروع ہوئے لیکن اصل فوجی آپریشن برما میں روہنگیا مسلمانوں کیخلاف 1982 ء میں جنرل نے ون نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد شروع کئے جو برمی قانون شہریت کے نفاذ پر منتج ہوئے جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت سے محروم کردیا گیا اور انہین بنگالی مہاجر قرار دے دیا گیا ، لہٰذا اب لاکھوں روہنگیا اپنے ہی ملک میں بے گھر اور بے ریاست ہونے پر مجبور ہین ، پچھلے چار پانچ عشروں سے برما میں قائم فوجی آمریت نے اس جھگڑے کو ایک بہت بڑا بحران میں تبدیل کردیا ہے ۔

روہنگیائی مسلمانوں کو کھانا پینا مناسب دستیاب نہیں ہے اور وہ مردہ انسانوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہیں سمندر کے پانی سے پیاس بجھاتے بجھاتے ان کی اپنی زندگیوں کے چراغ گل ہوتے جارہے ہی وطن مین جان ہتھیلی پر رکھ کردربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ، غیر ملکی ہونے کا طعنہ وے کران کی زمینیں ہتھیالینے کا سلسلہ جاری ہے م تعلیم ، کاروبار ، سرکاری ملازمتیں اور دیگر بنیادی سہولیات ان سے چھین لی گئی ہیں ۔

امن کے دعویدار بدھوں نیا سی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مسلمان آبادی کے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹاڈالے ہیں ۔ روہنگیائی مسلمانوں سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے ، ایسے حالات میں حقوق انسانی کے علمبردار ! کہاں ہیں۔ برما کے مسلمانوں پر ہونے والے اس ظلم ستم پر اقوام متحدہ ۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں اور مسلم ممالک کی خاموشی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ۔ برما میں قتل عام اور مقدس مقامات کی بیحرمتی کور کوانے ، کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ، لہٰذا اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کو بھی بری مسلمان بھائیوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے خاموشی کو توڑتے ہوئے مئوثر اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Burma Main Insaniat K Qatal e Aam Par Aqwam e Muthida Khamosh Tamashai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 April 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.