کمپیوٹر کی غلطی

اس سے لینے کے دینے پڑجاتے ہیں

بدھ 4 مئی 2016

Computer Ki Ghalti
رے میم:
بیسوی صد کی بہترین ایجادات میں ایک کمپیوٹر بھی ہے۔ س سے دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کی وہ منازل طے کیں جس کا تصور بھی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کمپیوٹر ہر جگہ موجود ہے، گھر، دفاتر، عدالتیں، ہسپتال، ڈاک خانے، سکول، فوجی وسول اداے سمیت کوئی بھی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کمپوٹر نظر نہ آتا ہو۔ کمپیوٹر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام ڈیٹا فیڈ کر دیا جاتا ہے اور بوقت ضرورت صرف ایک بٹن دبانے سے سب کچھ نظروں کے سامنے آجاتا ہے ۔

دنیا بھی میں کمپیوٹر سے حاصل ہونے والی رپورٹ یا انفارمیشن کو حتمی سمجھا جاتا ہے اوراس پر آرام سے یقین کر لیا جاتا ہے کہ یہ انفارمیشن کمپیوٹر سے حاصل ہوئی ہے لہٰذا اسے مستند سمجھا جائے۔
کمپیوٹر جو کبھی خواب وخیال ہی تھا۔

(جاری ہے)

اب پوری رعنائیوں کے ساتھ جدید دنیا میں پنجے گاڑ چکا ہے اور ہماری کمزوری بن گیا ہے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہر کام کمپیوٹر سے ہی بہتر ہو سکتا ہے کیونکہ کمپیوٹر غلطی نہیں کرتا ۔

پچھلے دنوں میری ملاقات ایسی مریضہ سے ہوئی جو قریبی ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس جانے کو ترجیح دے رہی تھیں جس کا کلینک کافی فاصلے پر تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ متعلقہ ڈاکٹر کمپیوٹر کی مدد سے چیک اپ کرتا تھا یہی خوبی اس خاتون کو مجبور کر رہی تھی کہ وہ ان سے چیک اپ کروائے کیونکہ ہماری قوم کے ذہن میں یہ بات پختہ ہو چکی ہے کہ کمپیوٹر کاہر کام بالکل ٹھیک اور غلطی سے پاک ہوتا ہے۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ کمپیوٹر بھی غلطی کر سکتا ہے۔ انسان چونکہ خطاء کاپتلا ہے لہٰذا کمپیوٹر بنا کر اس نے یہ سوچا کہ اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے اور کمپیوٹر کبھی غلطی نہیں کرسکتا۔ مگر ریکارڈ نے ثابت کیا کہ کمپیوٹر کئی بار غلطی کر چکا ہے اور اسکا متعلقہ ادارے کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
کمپیوٹر جو اس وقت ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ے جس کے Key Board پر ہماری انگلیاں محور قص رہتی ہیں۔

جسکی سکرین پرہماری نگاہیں جمی رہتی ہیں جس نے ہم سب کو اپنا قیدی بنا لیا ہے۔ آج ہمارے بچے جیسے ہی تھوڑا سا بڑے ہوتے ہیں فوراََ کمپیوٹر کا تقاضا کرنے لگ جاتے ہیں تاکہ وہ اس پر گیمز کھیل سکیں اور زیادہ وقت کمپیوٹر پر گزار سکیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کمپیوٹر نے ہر چھوٹے بڑے کو اپنا اسیر بنا لیا ہے کیونکہ اس میں ہر سوال کا جواب ، ہرالجھن کی سلجھن اور ہر مسئلے کا حل موجود ہے بلکہ یہ آج کے دور کا آلہ دین کا چراغ بن چکا ہے۔

بٹن دبائیں تو بس چشم ما روشن، دل ماشاد کہتا ہوا پکارنے لگتا ہے۔ کیا حکم ہے میرے آقا؟ میں حاضر ہوں یہی وجہ ہے کہ آج یہ ہر گھر اور ہر دفتر کی جان بن چکا ہے بلکہ اب تو یہ انسانوں کے ساتھ ایک مخالف ساتھی کے طور پر گیم بھی کھیلنے لگا ہے اور انسانوں کو شکست دینے لگا ہے۔ پہلے لوگ اس پر گیم کھیلتے تھے اب یہ لوگوں کے ساتھ گیم کھیل رہا ہے اور سونے پہ سہاگہ انعام بھی جیت رہاہے۔

بعض اوقات یہ ایسی ایسی غلطیاں بھی کرتا ہے کہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ایسے میں لاکھ پتی کنگال اور کنگال لاکھ پتی ہو جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ برطانیہ میں پیش آیا۔ جب ایک طالب علم کے گھر اچانک قیمتی تحائف آنا شروع ہو گے اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ اس دوران برطانوی طالب علم 36000 پاونڈ کے تحائف وصول کر چکا تھا۔ اس بات کی تحقیق کی گی تو پتہ چلا کہ یہ عنایات آن لائن اشیاء فروخت کرنے والی ویب سائٹ Amazon کی طرف سے ہو رہی تھی۔

اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کمپیوٹر غلطی کر رہا تھا کیونکہ یہ تحائف جوگاہکوں کی طرف سے واپس آتے تھے وہ کمپنی میں جانے کی بجائے اس طالب علم کے گھر کے ایڈریس پر آ رہے تھے ۔ اسی طرح امریکہ میں بھی ہوا۔امریکہ میں پٹرول پمپ اور گیس سٹیشن پر کمپیوٹرائزمشین ہے اگر وہاں پٹرول یا گیس ڈلوانی ہو تو کریڈٹ کارڈ کو سوائپ کرنا پڑتا ہے یا گیس اور پٹرول کی مطلوبہ مقدار کے مطابق رقم ڈالنا پڑتی ہے اور پٹرول حاصل کیا جاتا ہے مگر پچھلے دنوں امریکی ریاست اوہائیو میں کمپیوٹر نے غلطی کر دی اور گیس کی قیمت کم کر دی اور 26 سینٹ میں گاہکوں کو ٹینکی بھر بھر کے دیتا رہا۔

ایسے میں گاہکوں کی تو چاندی ہوئی مگر مالکان کنگال ہو گے۔ پھر برمنگھم میں ایسا ہی ہوا، برمنگھم میں کرائے داروں سے دوبار کرائے چارج کئے گے اور 500000 پاونڈ وصول کر لیے گے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ کمپیوٹر نے غلطی کر دی تھی۔ اب چونکہ کمپیوٹر معافی نہیں مانگ سکتا چنانچہ آئی ٹی کنٹریکر نے خود معافی مانگی۔ ایسا ہی واقعہ 22مارچ 2016 کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیش آیا۔

جہاں بحریہ فاونڈیشن گلشن اقبال کراچی کے طلبہ رولنمبر 31790 سے لے کر 317912 تک کے نتائج گزٹ میں شامل ہی نہ تھے جس کی وجہ سے طلبہ کا رورو کر برا حال ہو گیا اور انہوں نے اسے اپنی ناکامی تصور کیا جبکہ انہیں بہت اچھے نتائج کی امید تھی۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ بھی کمپیوٹر کی غلطی تھی چنانچہ ناظم امتحان نعمان احسن نے معذرت کی اور طلبہ کی جوابی کاپیاں منگوانے کا آرڈر دیا تاکہ ان کے نتائج جاری کئے جا سکیں۔

اسی طرح لاہور بورڈ انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈ ری ایجوکیشن نے کمپیوٹر کی غلطی کی وجہ سے انٹرمیڈیٹ آرٹس گروپ کی اول پوزیشن تبدیل کر دی گئی۔ اس کے بعد چیئرمین لاہور بورڈ ڈاکٹر اکرام کا شمیری نے کہا کہ گرلز ڈگری کالج منصورہ کی طالبہ سارہ عباس کے نمبروں میں کمپیوٹر کی غلطی کی وجہ سے ایجوکیش کے مضمون کے نمبر 93 کے بجائے 29 پوسٹ ہو گے جسے بعدمیں درست کر دیا گیا۔

کمپیوٹر کی انہیں غلطیوں نے ریونیو ریکارڈ میں زمیں مالکان کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دئیے کیونکہ غلط ڈیٹا فیڈ کر دیا گیا تھا جس سے زمین مالکان کو شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کمپیوٹر کی غلطیوں پر ماہرین نے ریسرچ سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کمپیوٹر سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور اس طرح کی غلطیوں کو روکنے کے لیے پروگرام کے سیکھنے کے عمل میں انسانوں کی ضرورت ہوگی۔

ماہرین کے مطابق انسان عام طور پر یہ نہیں جانتے ہیں کمپیوٹر کو کیا بتانا یا سکھاناہے لیکن وہ اس بات کی نشاندہی کرنے میں بہتر ہیں کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے یا کیا غلط ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب کاتب غلطیاں کیا کرتے تھے ۔ اسکے بعد جب کمپیوٹر پر کمپوزنگ ہونے لگی تو خیال تھا کہ اب غلطیاں نہیں ہو نگی۔ مگر غلطیاں لگا تار ہوتی رہیں اور اب تو کمپیوٹر کی ان غلطیوں نے بہت کچھ درہم برہم کر دیا ہے۔

کبھی فلائٹ شیڈول میں غلطی ہو جاتی ہے اور کبھی بجلی کے بل یا پے رول بناتے ہوئے غلطی ہو جاتی ہے اورکبھی رزلٹ کارڈ غلط بن جاتاہے۔ ایسے میں ماہرین کو چاہیے کہ ان غلطیوں سے بروقت آگاہی کا کوئی سسٹم تیار کریں تاکہ زیادہ نقصان سے بچا جا سکے۔ اس میں شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر بہتر سے بہترین ہو تا جا رہا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب کمپیوٹر بہت وزنی اور حجم میں بھی کافی بڑا تھا۔

اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانا بھی آسان نہیں مگر اب تو یہ اتنا پتلا ہو گیا ہے کہ کبھی آپ کے بیگ میں اور کبھی آپکے ہاتھ میں موجود ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ اسے استعمال کر کے تھک جائیں مگر یہ نہیں تھکتا ہے۔ آپ اس کا غلط استعمال کریں یہ پھر بھی کچھ نہیں کہتا بلکہ یہ ہر وقت آپ کا ساتھ نبھاتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اس کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں کا بھی اندازہ لگائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Computer Ki Ghalti is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 May 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.