داعش کی حامی تنظیمیں پاکستان میں موجود!

افغانستان میں شام کا تجربہ دہرایا جاسکتا ہے، افغان پناہ گزین پاکستان دھکیلے جاسکتے ہیں، فرقہ واریت اور مذہبی گروہ پوشیدہ قوتوں نے پیدا کئے

جمعہ 7 جولائی 2017

Daesh Ki Haami Tanzeemain Pakistan Main Mojood
امتیاز الحق:
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے پریس بریفنگ کے درمیان بتایا ہے کہ افغانستان میں داعش کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے جبکہ انہوں نے بلوچستان سے چینی باشندوں کے اغوا اور قتل کئے جانے اور واقعہ کی ذمہ داری داعش کے قبول کرنے سے متعلق کچھ نہیں بتایا۔خبروں سے پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ داعش پاکستان میں داخل نہیں ہوئی بلکہ اپنا وجود رکھتی ہے۔

ہفتہ وار بریفنگ میں غالباََ کچھ داعش سے متعلق چینی باشندوں کے قتل اور ان کی بازیابی بارے بلوچستان میں آپریشن کی معلومات دفتر خارجہ نے آئی ایس پی آر پر چھوڑ دی ہیں یا وزیر داخلہ چودھری نثار نے چینی باشندوں پر ذمہ داری ڈال کر پاکستان کے اداروں کی کمزوری کا بھانڈا پھوڑ نے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے بھی اس بات کو واضح نہیں کیا کہ چینی باشندوں بارے اطلاع داعش تک کیسے پہنچی اور یہ کہ داعش پاکستان کے اس حساس حصے میں جہاں ہماری سکیورٹی مستعدی سے نہ صرف کاروائی کر رہی ہے بلکہ نشانہ بھی بن رہی ہے،اس کا ثبوت داعش نے اپنی ویب سائٹ اعماق پر دعویٰ کیا کہ دونوں چینی باشندوں کو اغوا کاروں نے قتل کردیا ہے۔

داعش سے منسلک گروپ نے مبینہ طور پرقتل ہے۔داعش سے منسلک گروپ نے مبینہ طور پر قتل کی ذمہ داری قبول کرلی۔اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ مستونگ آپریشن داعش کے انفراسٹر کچر اور دہشت گردوں کا مارا گیا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ داعش نے سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری پر خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 25 افراد ہلاک ہوئے۔

مزید یہ کہ چینی باشندوں کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے 12 دہشت گرد ہلاک کئے گئے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو اب معلوم ہوا ہے کہ چینی باشندے کاروبار کی بجائے تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور وہ بھی ایک مسلمان کمیونٹی میں تبلیغ کر رہے تھے۔وہ ایسے علاقے میں سرگرم تھے جو پہلے ہی دیگر گروپوں”لشکر جھنگوی‘پی ایل ایف،خفیہ کرائے کی ایجنسیوں اور پراکسی وار“کے دیگر اداکاروں کے نشانہ پر ہے،تاہم ایسے واقعات و معاملات میں داعش کا اضافہ ہونا خطرہ کی ایسی گھنٹی ہے جبکہ ننگر ہار میں بموں کی ماں کے ذریعے داعش کو تباہ کرنے کی جعلی و مصنوعی کاراوئی کی گئی۔

بعد ازاں کابل میں جرمن سفارتخانہ کے باہر انتہائی سیکورٹی حصار او ر صدارتی محل کے نزدیک سفارتی ٹیگ لگا کر دھماکہ خیز مواد سفارتخانہ تک لے جایا گیا اور 150 سے زائدافراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کم از کم طالبان نے قبو ل نہیں کی اور تاثر دیا گیا کہ یہ بھی کاروائی داعش ہی نے کی ہے جبکہ طالبان کی زور پکڑتی تحریک اور افغانستان میں طالبانی قوتوں نے اپنے ہی دشمن جن کی تعداد 6 ہزار کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔

آپ کی جھڑپوں میں داعش کر بڑھی ہوئی طاقت کو روکنے کی بہت سی کاروائیاں کی ہیں۔16 سال سے زائد عرصہ میں طالبان کو ختم نہیں کیا جاسکا جبکہ ایک اور فتنہ داعش کو متعارف کرایا گیا ہے۔طالبان کی زیادہ کاروائیوں کا ہدف مخصوص ہوتا ہے جو نوجوانوں کو ان کے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب بھی دیتی ہے لیکن داعش خوف ودہشت کو ہتھیار کے طور پر بلادریغ استعمال کرتی ہے۔

چینی باشندوں کو قتل سے پہلے زخمی اور پھر موت تک کی فوٹیج بنا کر اعماق کی وکی سائٹ پر محض خوف وہراس کیلئے دکھائی گئی ہیں۔داعش کو محض خطرہ کے طور پر پیش کرنے کے پوشیدہ مقاصد کے جال میں پھنسنے کی بجائے اس کی اصل وجہ اور جڑ درحقیقت امریکہ کی افواج ،خفیہ ایجنسیوں کے سہارے مصنوعی داعش کو متعارف کرا کر ٹرمپ انتظامیہ کو مجبور کرچکے ہیں کہ وہ مزید افواج کا اضافہ کر کے افغانستان میں برھتی ہوئی دہشتگردی اور اب اس میں ایک مکارانہ جھوٹ پر مبنی اضافہ خطہ کی ہمسایہ ریاستوں پاکستان ،چین روس کا بھی کردیا گیا ہے کہ جیسے یہ ممالک ہی دہشتگردوں کو مدد دے رہے ہیں۔

یہ بات ایسے ہی ہے کہ چور پر بھی آکھے چور وچور۔داعش انہی امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جسے اس نے حکمت عملی کے طور پر قائم کررکھا ہے اور یہ وہ بھی کہ پہلے مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کرو بلکہ تاریخی ،روایتی،مذہبی نقطہ نظر میں تفریق پیدا کرکے شدت پسندانہ نظریات کو جنم دوا نہیں گروہوں میں تقسیم کر کے انہیں مضبوط کرو، اس کے ساتھ ان میں باہمی چپقلش پیدا کر اکر دنیا کو تاثر دیا جائے کہ مسلمان تو پہلے ہی تقسیم ہیں اور ان میں باہمی لڑائی ان کے اپنے اندر ہی ہے جو دنیا کو بھی دکھا دی گئی ہیں اور اب یہ گروہ ہمارے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔

ایسی ہی حکمت عملی پاکستان میں بھی اختیار کی گئی جہاں فرقہ وارانہ قتل کراکے تاثر پیدا کیا گیا کہ گروہ آپس میں ایک دوسرے کو ختم کر رہے ہیں،اسی طرح کی کاروائی کراچی میں کرائی گئی جہاں فرقوں کے افراد کو قتل کرکے تاثر پیدا کیا گیا کہ یہ فرقہ ورانہ لڑائی ہے جبکہ پس پردہ خفیہ ایجنسیوں کیلئے جگہ بنائی تھی جنہوں نے بعد ازاں کراچی ہی نہیں پاکستان کے ہر صوبے اور علاقے میں اپنے ٹارگٹ پر کاروائیاں کیں۔

انتہا پسند شدت پسندانہ مذہبی بنیادوں پر ایسے عناصر پیدا کر دئیے گئے ہیں جو داعش کیلئے بہترین اور کار آمد ذریعہ ثابت ہورہے ہیں یہ مذہبی عناصر پاکستان میں باآسانی داعش کے نام پر آلہ کا کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جس کی باگ ڈور اور ڈوریاں بیرونی طور پر خفیہ آپریٹس کے ہاتھ میں ہے جسے اس خطہ میں مستقبل موجود رہنا ہے۔پاکستان کی ریاست حکمرانوں ،اداروں کو ایسے نظریات رکھنے والے افراد اور تنظیموں کو ختم کرنا ہوگا۔

جب تک یہ نظریات موجود ہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنے گروہوں کا خاتمہ کر دیا گیا جبکہ ان کی جگہ لینے کیلئے مزید گروہ تیار ہورہے ہونگے۔دہشتگردی سے اکتائے ہوئے لوگ اس بات کو پسند نہیں کرینگے کہ دہشتگردوں کو بے نقاب کرنے کی بجائے مرنے والوں پر الزام لگا دیاجائے کہ انہوں نے اپنی حفاظت نہیں کی۔عوام کو بتانا ہوگا کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کو دہشتگردوں کے حملوں سے بچانے کیلئے امریکی افواج کو افغانستان،پاکستان و دیگر ہمسایہ ریاستوں سے نکل جانا چاہیے۔

داعش کا ہوا کھڑا کر کے عوام اور سکیورٹی اداروں کی توجہ بنانا ہے۔تاکہ وہ 16 سال سے زائد عرصہ میں دہشتگردوں کو ختم کرنے کی بجائے ان کی تعداد میں اضافہ کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔دوغلا پن یہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ ایک جانب آپ جدید ٹیکنالوجی اعلیٰ تربیتی افواج و اتحادی قوتوں کے ساتھ جس فتنہ کو ختم کرنے آئے تھے وہ مزید بڑھ گیا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے ،فتنہ بڑھانا مقصد ہے ختم کرنا نہیں۔

پاکستان ،روس ،چین پر الزام کا مطلب بھی یہی ہے کہ کرو خود مگر ذمہ داری دوسروں پر ڈال دو۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اسامہ بن لادن کے مرنے کے بعد القاعدہ کا ڈھانچہ ابھی تک اتنا فعال ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق القاعدہ کے جنگجوؤں کو باقاعدہ داعش کے نام پر لاکھوں ڈالر اور اسلحہ دیکر دنیا کے دیگر ممالک سے لایا گیا ہے۔داعش اور دیگر دہشتگردوں سے اچھے طریقے سے نمٹا جا رہا ہے یا قابو سے باہر ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

لیکن ایک پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ دعویٰ کے باوجود ہر بار بڑی کاروائی بھی ہوجاتی ہے۔داعش ،دہشگردوں،شدت پسندوں،عسکریت پسندوں جو بھی نام دے لیں یہ عناصر کبھی ختم نہیں ہونگے یا ان کی تنظیم کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اسکی وجوہ ان رپورٹس میں پڑھی جا سکتی ہیں جو غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں 28 مئی 2017ء کو منظر عام پر آئیں۔رپورٹ کے مطابق طالبان نے داعش کے ایک ٹھکانہ واقع چیرار افغانستان میں حملہ کیا جس کے بعد دونوں گروہوں میں تصادم ہوگیا اور نتیجاََ داعش کو کئی علاقے خالی کرنا پڑے لیکن مقامی لوگوں کے مطابق جیسے ہی طالبان نے داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کیا امریکی فوج کی بکتر بند گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور فوجی آپریشن شروع کردیا جس کی وجہ سے داعش کو محفوظ اور پیش روی کا موقع مل گیا۔

طالبان بیک وقت امریکی فوج اور داعش کے دہشت گردوں سے جنگ کر رہے ہیں اورجنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان جیسے ہی داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہیں انہیں امریکی جیٹ فائٹر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قبل ازیں افغانستان کی پارلیمنٹ میں ننگر ہار کے نمائندے ظاہر قدیر نے اعلان کیا تھا کہ سپن جومات کے علاقہ میں جب طالبان نے داعش کے ٹھکانوں پر حملے کئے اور اس کا محاصرہ کرلیا تو امریکی طیاروں نے محاصرہ ختم کرانے کیلئے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور داعش کو نجات دلائی۔

کئی بار افغان حکام امریکی فوج پر داعش کی حمایت اور پشت پناہی کا الزام عائد کر چکے ہیں۔علاوہ ازیں تورا بورا کے غاروں پر داعش کے قبضہ کی اطلاعات ہیں جو پاکستان کی سرحد کے نزدیک ہے۔افغانستان کے مشرقی علاقہ میں یہ جگہ اسامہ بن لادن کا محفوظ ٹھکانہ تھا۔تورا بورا طالبان اور داعش کے مابین فرنٹ لائن ہے تاہم داعش کی سب سے بڑی بیس ننگر ہار میں ہے اس کا کسی بڑے علاقے پر قبضہ نہیں ہوا ہے تاہم خدشہ ہے کہ شام کا تجربہ افغانستان میں دہرایا جاسکتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان دوسرا شام بنایا جاسکتا ہے اور ایک بار پھر افغان مہاجرین اور ان کی آڑ میں نام نہاد ”داعش“ پاکستان میں داخل کی جائیگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Daesh Ki Haami Tanzeemain Pakistan Main Mojood is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.