فارمیسی اور ہم

دوائیوں کالین دین فارماسسٹ کے ذریعے ہونا چاہیے

منگل 27 ستمبر 2016

Dawaiyan Aur Hum
عامر شہزاد مغل :
مجھے اپنی والدہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے ایک نامور پرائیوٹ ہسپتال کا انتخاب کیا۔ وہاں موجود ڈاکٹرز نے علامات پوچھ کردوائی تجویز کردی۔ میں نے پرانی دوائی کا نسخہ ساتھ دیا جسے شاید انہوں نے دیکھا مناسب نہیں سمجھا ۔ میں دوائی لینے کے لئے میڈیکل سٹور پر پہنچا اور ایک دوائی کے کانٹینٹ کودیکھ کر حیران ہوا کہ یہ تووہ پہلے بھی کھارہی ہیں۔

اس طرح توڈبل ڈوز ہو جائے گی۔ واپس ڈاکٹر کے پاس تک ودد کرکے پہنچا کیونکہ وہ مریضوں کودیکھنے میں مصروف تھے۔ تھوڑا وقت ملاتو میرا مسئلہ سن کرکہا ․․․․ ہاں تو یہ دوائی بند کردیں ناں۔
پاکستان دنیا کے گنجان آباد ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے اور یہاں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ مختلف شعبوں کی تعلیم حاصل کرکے دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے کام میں مزید مہارت حاصل کرسکیں اور اپنا کیرئیر بناسکیں ۔

(جاری ہے)

فارمیسی بھی ان تمام شعبوں میں سے ایک ہے ۔ فارمیسی کا آغاز 1821 میں شیخ نبی بخش کے گجرات میں ایک فارمیسی سٹور سے ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے اپنا تین سالہ ڈگری پروگرام شروع کیا جو کہ بعدازاں چار سالہ کردیا گیا ۔ پھر 2000 ء میں بدلتے حالات کے پیش نظر بائر ایجوکیشن کے توسط سے اسے پانچ سالہ ڈگری پروگرام کی حیثیت دے دی گئی اور پھر 2004 میں national curriculum revision committee کے منظور کئے گئے curriculum کو تمام سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں پر لاگو کردیا گیا۔

پاکستان میں اس کو پروفیشنل ڈگری قرار دے دیا گیا اور ڈاکٹر کا درجہ پانے والے فارماسسٹ کو موجود ہیلتھ کیئر سسٹم میں بہت سی مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ہرسال سینکڑوں کے حساب سے طلباء کامیاب ہوکر نکلتے ہیں لیکن ان کے لئے ملازمت کا مواقع بہت محدود ہیں ۔ ہمارے ہاں community retail clinial pharmacy کاکوئی سکوپ نہیں ہے جبکہ دوائیوں کی لین دین اور مریضوں کو فارماسسٹ کے زیر نگرانی ہونا چاہئے ۔

ہسپتالوں میں موجود عملہ ڈاکٹرزاور نرسیں فارماسسٹ کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے شاید اسی وجہ سے جو کہیں ایک آدھ مقرر ہے اسے ڈرگ مینجمنٹ کے لئے مقرر کردیا جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں موجود فارمیسی پر انچارج ایم بی بی سی ڈاکٹرز ہیں اور فارماسسٹ کوکلریکل کام سونپ دئیے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹرز مریض کی علامات دیکھ کر دوائیاں تجویز کردیتے ہیں اور اسی وجہ سے عام بخار کی دوائی لینے جائیں تو کم ازکم بھی پانچ گولیاں دے دی جاتی ہیں۔

پچھلا نسخہ دیکھے بغیر اندھا دھندنیا لکھ دیاجاتا ہے اور اس طرح ایک ہی دوائی کی دگنی مقدار مریض کو دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں عام عوام میں میڈیکل لٹریسی بہت کم ہونے کی وجہ سے لوگ آنکھیں بندکر کے ڈاکٹرز کی دی گئی دوائیاں کھاتے ہیں اور پھر اس طرح دوائیاں کھانے کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ فارمیس سٹورز پر بھی فارماسسٹ نہ ہونے کی وجہ سے نسخہ دیکھ کر دوائیاں گن کر دے دی جاتی ہیں۔

اس سے بھی زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ ڈسپنسر یہاں ڈاکٹرز بن گئے ہیں۔ لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے چھوٹی موٹی بیماری کی علامات ڈسپنسر کو بتاکر اسی سے دوائی لے لیتے ہیں جو کہ صرف اپنے تجربے کی بنیاد پر دوائیاں تجویز کردیتا ہے ۔
منسٹری آف ہیلتھ آف پاکستان کے اصول وضوابط کے مطابق فزیشن اپنا میڈیکل سٹور بنا سکتا ہے جہاں سے مریض تجویز کردہ دوائیاں خرید سکتا ہے۔

وہاں موجود شخص کے لئے کم ازکم تعلیم میٹرک یاایف اے ہے بہت سارے فارماسسٹ کوئی ملازمت نہ ملنے کی صورت میں کاروباری افراد کواپنا کیٹگری لائسنس صرف ماہانا چند روپووں کے عوض بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح نان پر وفیشنل لوگ جودوائیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اپنا کاروبار چمکاتے ہیں۔ پاکستان میں آغاخان یونیورسٹی ہسپتال وہ واحد ہسپتال ہے جہاں 1991 میں ہاسپٹل فارمیسی کاقیام عمل میں لایاگیا تھا۔

پنجاب میں بھی فارماسسٹ کی جاب نکالی گئیں لیکن شاہد ہی کوئی ان میں سے کلینکل فارماسسٹ کے فرائض سرانجام دے رہاہوگا۔ منسٹری آف ہیلتھ سے درخواست ہے کہ تمام میڈیکل سٹور پر فارماسسٹ کی موجودگی کویقینی بنائیں ۔ ایسے تمام سٹورز بندکردئیے جائیں جونان فارماسسٹ کے زیرنگرانی چلائے جارہے ہیں اور ان فارماسسٹ کا لائسنس کینسل کردیاجائے تو اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے پیسے کمانے کے لالچ میں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے والوں کے ہاتھ اپنا لائسنس بیچ کر ان کے جرم میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Dawaiyan Aur Hum is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.