دفاع کے امریکی وزیر کا ”دفاعی“ دورہء پاکستان

افغان جنگ کے آغاز اور اختتام کا ذمہ دار امریکہ ہے․․․․․․ امریکی قیادت کے پاس ”امن“ کا اختیار نہیں

بدھ 6 دسمبر 2017

Difa K Americi Wazeer ka Difaee Dora Pakistan
امتیاز الحق:
عالمی سطح پر پاکستان اور خطہ کے ممالک سال کے آخری ماہ میں گزشہ سالوں کی نسبت اہم مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ مرحلہ افغانستان سے شروع اور محض امکان نہیں کہ افغانستان پر اختتام پذیر ہوگا۔ تین سو ٹریلین ڈالر کے اخراجات لاکھوں جانوں کو قربان، ٹریلین ڈالرسے زیادہ نقصان کے حساب سے خطہ میں بد امنی کا سودا مہنگا نہیں سمجھا جارہا ۔

ان تمام معاملات کا ذمہ دار عالمی طاقتور رہنما یا نہ کردار امریکی قیادت حالات کو خراب کرکے اسے بہتر بنانے کے نام پر مزید اربوں ڈالرز انسانی خون کو بہانے کے لئے بضدہے ۔ 17 ویں سال میں داخل ہونے والی افغان جنگ نے پاکستان ہی نہیں خود امریکہ اور مغرب ہی نہیں دنیا کے امن و استحکام کو متاثر کردیا ہے۔

(جاری ہے)

اس متاثر کن صورتحال کی ذمہ داری واشنگٹن پاکستان اور اسکے نئے اتحادیوں روس، چین، ایران پرنہ صرف ڈال رہا ہے بلکہ اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے پابندیوں جیسے اقدامات کرنے کی تیاری کررہا ہے تاکہ خود امریکی عوام بھی اندرونی طور پر صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر نظر نہ ڈالیں کہ درحقیقت امریکی معیشت کو عوام کی بہتری کی جانب نہ لیجانے کی پاداش میں ان پر تنقید نہ ہوں۔

امریکی رائے عامہ کی توجہ بیرونی حالات کی جانب ہی مبذول کرانے کیلئے مشرق وسطی ایشیا مغرب اور افریقہ میں اس طرح حالات پیدا کئے جاتے رہے ہیں کہ عوام اپنے اندرونی مسائل کو بھول جائیں۔ صدر ٹرمپ نے باقاعدہ طور پر اپنی ایک ٹیم بنا رکھی ہے جو ان کی ”ٹویٹ“ بارے احمقانہ انداز میں پیغامات تیار کرکے عین اس وقت جاری کرتی ہے جب بھی امریکی عوام اورعالمی سطح پر ہونے والے واقعات سے امریکی تعلق سے توجہ ہٹانا ہوتی ہے۔

اسکی ایک مثال سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایران کی ایٹمی صلاحیت کم یا ختم کرنے کے بارے دیگر ممالک کی شمولیت سے پرامن ایٹمی سرگرمیاں رکھنے کا معاہدہ کیا جسے صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی رد کرنے کے بارے میں بیان دے کر در حقیقت امریکہ رائے دہندگان کی توجہ اپنے ہی پروگرام کے سلسلے میں تبدیل کرادی جس میں انہوں نے عوام کی صحت روزگار اقتصادی بحالی پہلے امریکہ بیرونی ممالک سے امریکی افواج کی واپسی جس امریکہ کے بجٹ کا ایک تہائی خرچ ہوتا ہے جو عوام کیلئے لا حاصل اور افواج کو سمندروں، سرحدوں اور ممالک کے اندر رکھنے کی حمایت کرنے والی اشرافیہ کیلئے منافع کا حصول ہے۔

اسی طرح افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے انتخابی وعدے سے انحراف اور مزید فوجیں بھیجنے کا اعلان اس وقت کیا گیا جب افغانستان میں اچانک شورش کو تیز کردیا گیا اور باقاعدہ منصوبہ طریقہ سے ”قندوز“ شہر پر طالبان کا قبضہ کرایا گیا امریکی جنگی اشرافیہ نے اپنے اتحادی میڈیا کے ساتھ ملکر پروپیگنڈہ کرایاکہ طالبان پاکستان‘ روس‘ چین کی مدد سے دوبارہ طاقت پکڑ رہے ہیں حالانکہ اس بات کا چرچا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ افغان سرزمین پر بیرونی طاقتوں کے قبضہ کو چھپایا جائے۔

اس کے خلاف مزاحمت آزادی کی لڑائی کو دہشت گردی کا نام دیکر اپنے عوام کی توجہ تبدیل کرائی جائے جیسے کہ ویت نام کی مانند امریکی افواج باغیوں دہشت گردوں اور امریکہ کے عوام کے خلاف لڑنے والوں کا خاتمہ کررہی ہے۔ دنیا کی تاریخ ہے کہ جن بیرونی طاقتوں نے اپنے مفادات کو عوامی مفادات کہہ کر دیگر ممالک پر قبضہ کرکے وسائل لوٹے اور اس لوٹ کے خلاف ان ملکوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کا نام دیا اور اپنے عوام کو بھی خوفزدہ رکھا کہ ان پر حملہ کرنے والوں اور تحفظ کیلئے انتہا پسند لڑاکوں کو ختم کر رہی ہے یہی تاثر شام، یمن، افغانستان افریقہ میں قائم کیا گیا ہے۔

مزید براں قبضہ گیری پر پردہ ڈالنے کیلئے حالات کی خرابی کی وجہ انہی ممالک پر ڈال دی جائے یا پاکستان کو افغانستان کی سودیت مخالف جنگ میں گھسیٹا گیا جواز یہ بتایا گیا کہ سرخ روسی کافر افغانستان پر قبضہ کرچکا ہے لہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بھی یہ کافر کاروائی کریگا۔ اس ضمن کو جنگ میں پاکستان کے مدرسوں سے جہاد کے نام پر نوجوانوں کو جنگ کا ایندھن بنادیا گیا جب سودیت افواج شکست کے نتیجے میں واپس گئیں تو اب کون سا کافر ہے جسکے خلاف جنگ جاری ہے چنانچہ اپنی جنگی حکمت عملی کے ساتھ افغانستان میں موجود گی کیلئے” دہشت گردی “ ایسے الفاظ استعمال کرکے پاکستان‘ روس‘ چین ‘ ایران پر الزام تراشی کی جائے کہ وہ اس صورتحال کے ذمہ دار میں پاکستان نے ردالفساد کے حوالے سے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کی کمرتوڑدی ہے ان کے نیٹ کو ختم کردیا ہے لیکن اسکے باوجود ملک میں وقتاََ فوقتاََ دہشت گردی کی کاروائیاں ہوتی ہیں ۔

امریکی قیادت اپنی کاروائیوں کو دباؤ اور بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرتی ہے۔ کہ ایٹمی قوت پاکستان بھی دہشت گردوں، عسکریت پسندوں اور انتہا پسندوں سے محفوظ نہیں ہے اس لئے یہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کس طرح کرسکتا ہے ۔ ہم گزشتہ تحریروں میں اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ افغانستان میں پرائیوٹ خفیہ ایجنسیاں اور تقریباََ ڈیڑھ لاکھ کرائے کے فوجی افغان باغیوں کے خلاف لڑرہے ہیں انہی کا ایک نیٹ ورک پاکستان میں بھی قائم ہوچکا ہے جسے مقامی مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔

دونوں کے کمبی نیشن سے پاکستان میں اسے دباؤ میں رکھنے کی کاروائیاں جاری ہیں علاوہ ازیں عالمی اور بالخصوص امریکی عوام کے بڑھتے دباؤ سے افغانستان پاکستان نام نہاد پالیسی کی بنیاد رکھی گئی ہے جسکا مقصد امریکی انتظامیہ کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور پاکستان ودیگر اتحادی ملکوں پر ذمہ داری ڈالنا ہے لیکن بڑھتے دباؤ کے باوجود پاکستان کی پوزیشن نہیں بدلی ہے۔

اعلیٰ امریکی انتظامیہ کے عہدیداران پاکستان کے دورے کر کے ایسا حل نہیں نکال سکے جس کے تحت افغانستان میں امن اور پاکستان میں دہشت گردی ختم ہو۔ درحقیقت واشنگٹن ناکام امریکی افواج، اپنے اتحادیوں کی شکست کے بارے ایک ہی مئوقف اختیار کرکے زیادہ دیر امریکی عوام اور دنیا کو بیوقوف نہیں بنا سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک بار پھر بھرپور طریقے سے پابندیوں کا ہتھیار اور جنگ ودہشت گردی کے نئے محاذ کھولے جائیں اب اس کی نظریہ پاکستان میں ایک بڑا سیاسی بحران، کشیدگی اور دہشت گردی بڑھانے پر ہے۔

یمن کے حوالہ سے ایران وسعودی عرب میں کشیدگی کی قومی تقسیم کو فرقہ وارانہ مسلکی لڑائی میں بدلنے پر ہے اسی مقصد کے لئے اُس نے لبنان میں سعد حریری کو استعمال کرنے کی کوششیں کی لیکن لبنان میں اسرائیل مخالف قوتوں کے مضبوط ہونے کی وجہ سے اب اس نے مصر کا رُخ کیا ہے۔ اور داعش کے نام سے کاروائیاں کی گئی ہیں درحقیقت ان کاروائیوں میں وہی خفیہ پرائیوٹ ایجنسیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں داعش کا پرچم لہرا کر پاکستانیوں کے لئے نفسیاتی طور پر یہ باور کرادیا کہ اب اُن کے ملک میں بھی داعش آگئی ہے اور گاہے بگا ہے افغانستان سے بھی داعش کی کاروائیوں بارے مغربے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ شام وعراق کے مفرور داعشی افغانستان ، پاکستان، مصر اور جنداللہ کے نام سے ایران میں داخل ہوگئے ہیں۔

اس بات اور تاثر دینے کا مقصد یہ ہے کہ اب مستقبل قریب میں ان ممالک میں دہشت گردی کی جتنی بھی کاروائیاں ہونگی ان کے پس پردہ اگرچہ ہاتھ اور انتظام پرائیویٹ خفیہ ایجنسیوں اور کرائے کی افواج کا ہوگا لیکن نام دہشت گردوں کا ہی آئے گا۔ آنے والے حالات کا ادراک پاکستانی عسکری قیادت نے کرلیا ہے اور امریکی وزیردفاع کے فیصلہ کن دورے سے قبل قیادت ایران ، سعودی عرب کو اعتماد میں لے چکی ہے۔

تیاری کے لئے روس، چین سے مشاورت کی گئی ہے۔ روس کے شہر سوچی میں شنگھائی کانفرنس کے حوالہ سے آنے والے حالات کی تیاری بارے معاملات کو زیر غور لایا گیا ہے۔ جس میں دہشت گردی بالخصوص امریکی اشرافیہ کی جانب سے خطہ میں جنگی صورتحال کو بڑھانا عسکریت پسندی کو فروغ دینے کی پالیسی و منصوبے کو ناکام بنانے بارے لائحہ عمل بھی طے کیا گیا ہے۔ اور وہ لائحہ عمل مشترکہ طور پر امریکی انتظامیہ جنگی اشرافیہ کی نئی تھوپی جانے والی کاروائیوں بارے دفاع نہیں بلکہ مزاحمتی بھی ہوگا۔

ریاض ، تہران، بیجنگ، ماسکو نے ناخوشگوار حالات پیدا کئے جانے کے خلاف اتحاد کیا ہے اور اس کا اندازہ آنے والے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کو بھی ہے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا غالباََ یہ اُن کا فیصلہ کن دورہ ہوسکتا ہے جو پاک امریکہ نئے تعلقات کا تعین کریگا بادی النظر میں امریکی وزیردفاع کا ”دفاعی“ دورہ ہے امریکی قیادت کے پاس امن کا اختیار بھی اسی کو کرنا ہے۔ امریکی وزیر دفاع افغان امن کے تالے کی چابی پاکستان میں تلاش کی جارہی ہے۔ جبکہ واشنگٹن کو بھی یہ تالا کھولنا ہے ۔ صدر ٹرمپ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں اوّل یہ کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں یا پھر جنگ کو جاری رکھیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ امریکی صدر کے پاس امن قائم کرنے کا اختیار نہیں․․․․․․!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Difa K Americi Wazeer ka Difaee Dora Pakistan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.