ایدھی ‘ دکھی انسانیت کا حقیقی مسیحا

”بادشاہ“ نے فقیرانہ زندگی کی مثال قائم کردی۔۔۔ یتیموں، مسکینوں اور مجبور افراد کی خاطر وہ عمر بھر سڑکوں پر بھیک مانگتے رہے!

جمعرات 3 اگست 2017

Edhi Dukhi Insaniat Ka Haqeeqi Maseeha
منظور الحق:
میں عبدالستار ایدھی کو کب سے جانتا ہوں؟، مجھے معلوم نہیں، میں نے پہلی دفعہ کب ان کا نام سنا؟ مجھے یاد نہیں لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ عبدالستار ایدھی بچپن سے میرے ذہن میں زندہ ہے اور میں اس کو ایک شخص نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک فکر اور ایک نظریہ سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں۔ وہ فکر جو اپنی ذات کی فکر سے آزاد ہو اور اپنی ذات کے آرام اور آسائش کو پس پشت ڈال کر خدمت خلق میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف ہو، جس کی زندگی کا ایک ہی مطمح نظر ہو کہ بلا امتیاز رنگ و نسل اور عقیدے کے ہر ضرورت مند انسان کی مدد کرے۔

جیسے علامہ اقبال نے فر مایا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں ،بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اُڑنے سے پہلے پُر فشاں ہوجا
وہ بچے جنہیں ان کے والدین چھوڑ دیتے ، وہ والدین جن کو اپنے بچے چھوڑ جاتے ہیں، وہ مریض جن کی تیمار داری کرنے والاکوئی نہ ہو، بے آسرایتیم ، ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد اور ہر ضرورت مند کیلئے ایدھی مرکز کے دروازے کھلے تھے۔

(جاری ہے)


وہاں بیماریوں کا علاج ہوتا، بچوں کو تعلیم ملتی،بیماروں کو دوا ملتی،کوئی معذوروں کی زندگی کا بوجھ اٹھاتا ۔ جو بھی زندگی کا بار گراں اٹھا نہیں سکتے اور اسے ایدھی صاحب کے سرڈال دیتے جو اسے بخوشی قبول کرتے ۔ جن بچوں کے ماں باپ نہیں ملتے ایدھی صاحب ان کے والد خانے میں اپنا نام لکھتے، اُن کی ماں کے خانے میں اپنی شریک حیات بلقیس ایدھی صاحبہ کا نام لکھتے اور اس طرح انہوں نے ہزاروں بچوں کو والدین کی شفقت دی۔

ایدھی صاحب نے 1999ء میں جاوید چوہدری صاحب کو انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے 22 ہزار بچوں کو اپنایا ہے جن کی تعداد اب کئی ہزار تک بڑھ چکی ہے۔ بلقیس صاحبہ کے بقول وہ چالیس ہزار بچوں کو والدین سے ملا چکی ہیں، انہوں نے پاکستان بھر میں خدمت کا سب سے بڑا نیٹ ورک بنایا جس کے تحت 4 سو ایدھی سینٹر پاکستان بھر میں قائم کئے ، سب سے بڑا خیراتی ایمبولینس نیٹ ورک قائم کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ایدھی صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی جا رہی تھی تو ان کے پاکستان بھر میں اور خود کراچی میں ان کے کسی سینٹر میں ایک منٹ بھی امدادی کام بند نہیں ہوا۔
2003ء کا ذکر ہے میں پاکستانی سفارت خانہ و مشق میں تعینات تھا‘ عراق کے حالات خراب تھے اور اس کا اثر دمشق میں بھی محسوس ہورہا تھا‘ زیادہ تر غیر ملکی دمشق چھوڑ چکے تھے۔

ان دنوں ایدھی صاحب دمشق پہنچ گئے، میں جس ایدھی کو ایک نظریہ فکر سمجھتا رہا انہیں میں نے ایک مجسم انسان کی شکل میں اپنے سامنے دیکھا۔ وہ اپنے ہمراہ ایک تھیلا لائے تھے جس میں ان کا سامان تھا۔ میں حیران تھا کہ اس تھیلے میں کیا ہے اس لئے کہ میں نے سنا تھا ان کے ساتھ صرف دو کپڑے ہوتے ہیں، معلوم ہو ایک جوڑا وہ پہن آئے جبکہ دوسرا جوڑا وہ پاکستان چھوڑ آئے ہیں۔

بعدمیں علم ہوا اس تھیلے میں ہزاروں ڈالرز تھے، انہوں نے کوشش کی کہ یہ مدد عراق پہنچ جائے لیکن شام اور عراق کی سرحد پر آمدورفت بند تھی۔ میں ایدھی صاحب کو لیکر ہلال احمر کے دفتر پہنچا، اس کے صدر سے ملاقات کی لیکن کوئی بھی امدادی رقم عراق پہنچانے پر راضی نہ ہوا۔ ہم نے ایدھی صاحب کو مشورہ دیا کہ کچھ دن رک جائیں شاید کوئی صورت نکل آئے ، لیکن دوسرے دن مجھے بتا ئے بغیر ایدھی صاحب خود سرحد پر پہنچ گئے اور عراق جانے کی کوشش کرتے رہے لیکن جا نہیں سکے۔

2010ء میں پاکستان میں سیلاب آیا اور خیبر پختون خواہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہاں کیمپوں میں ایدھی صاحب پہلے پہنچ گئے تھے اور امدادی کام کررہے تھے۔ وہ ایک سوچ ایک جذبے اور جنون کا نام تھا۔ جب ایدھی صاحب دمشق میں تھے تو ایک دن دو پہر کو ہمارے گھر تشریف لائے، ہم گھومتے گھومتے تھک چکے تھے اور سب کو بھوک لگی تھی۔ میری شریک حیات نگہت نے ہمارے لئے کھانا تیار کیا۔

جب ایدھی صاحب نے بڑی رغبت سے کھانا کھایا انہوں نے بتایا کہ وہ چاو ل بہت شوق سے کھاتے ہیں، اسی شام ایک اور جگہ بڑی پُرتکلف دعوت کا اہتمام تھا، کھانے کے بعد ایدھی صاحب کی محبت ، انہوں نے کہا کہ دوپہر کو کھانا ہمیں بہت پسند آیا۔ انہوں نے شام کی دعوت کے میزبان کا دل رکھنے کا بھی خیال نہ کیا، ان کا یہ حال تمام عمر تھا کہ سادگی میں جودل میں آیا زبان پر بھی لے آئے۔


دمشق میں ہی قیام کے دوران ایک دن اُن کی قمیض پھٹ گئی انہوں نے سوئی دھاگہ مانگا، میری بیگم نے ان کی قمیض خود سی دی۔ وہ کہنے لگے کہ سوئی دھاگہ مجھے دے دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ قمیض پھر پھٹ جائے، اس پر ایدھی صاحب کی بیگم نے فقرہ کسا اور کہا کہ ”تمہاری مانگنے کی عادت نہیں گئی“۔ ایک موقع پر بلقیس بہن نے ایدھی صاحب کی دوسری شادی پر کچھ کہنا چاہا‘ تو ایدھی صاحب نے درمیان میں روک کر کہا کہ ”اب تو معاف کردونا“ ۔

ہماری پھر کچھ سالوں بعد ایدھی صاحب سے ملاقات لندن میں ہوئی‘ وہ جب تک ہائی کمیشن میں موجود رہے میں ان کے ہمراہ رہا۔ لوگ بڑی تعداد میں اُن کے ہمراہ تصاویر بنوا رہے تھے‘ اس دوران انہیں چائے پینے یاپانی پینے کا فرصت بھی نہ ملی مگر وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے رہے۔
2015ء میں جب پاکستان میں سیلاب آیا تو میری بیگم نگہت نے ایدھی صاحب کو فون کیا، پھر بلقیس صاحبہ نے انہیں مشورہ یہ دیا کہ ”اگر خودآکر ضرورت مندوں کی مدد کریں تو اچھا ہے لیکن اگر کوئی مشکل ہے تو سامان ہمیں بھجوادیں“۔

میری بیگم نگہت نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ دمشق میں ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ زمین پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
میری بیگم نے دیکھ کر بلقیس بہن سے کہا کہ ان کے لئے کرسی لے آؤ۔ لیکن میرے بچے اور بیگم ، ایدھی صاحب کے ہمراہ زمین پر ہی بیٹھ گئے۔ ایدھی صاحب کو یہ عمل بہت اچھا لگا اور کہا ”تین چیزیں انسان کی زندگی سے نکل جائیں تو زندگی بہت خوبصورت ہوجاتی ہے‘ وہ ہیں ”حسد، تکبر اور لالچ “ (کتنی عظیم اور بہترین سوچ تھی اس عظیم شخص کی)۔

ایدھی صاحب کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کے خاندان کا ذکر ضروری ہے۔ ان کے مختصر خاندان میں ان کی بیگم بلقیس ایدھی، ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بھی ایدھی صاحب کے ہمراہ خدمت خلق میں اپنے آرام وآسائش کو بھول چکے ہیں۔ میرے خیال میں اس عظیم شخص کیلئے نوبل انعام اس کا حق ہے جبکہ ان کی خدمات تو نوبل انعام سے زیادہ ہیں، یہ انعام نوبل کیلئے اعزاز ہوگا۔ وہ امیر ترین غریب شخص تھے یہ اعزاز اور لقب کا حق دار کوئی نہ ہوسکا۔
جاتے جاتے اپنی آنکھیں بھی عطیہ دے گئے، ان کیلئے یہ عمر ناکافی تھی ، ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر صبر وشکر کرتے ہیں اور ان کے بلند درجات کیلئے دعا گو ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Edhi Dukhi Insaniat Ka Haqeeqi Maseeha is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.