عید قربان اور ہمارے سماجی رویے

جانور کی خریداری سے گوشت کی تقسیم تک سب میں دکھاوے کی جھلک نمایاں

جمعہ 9 ستمبر 2016

Eid e Qurban Aur Hamaray Siasi Rawaiay
سلیم ناز :
بقر عید کی آمد آمد ہے لیکن گلی محلوں میں وہ جوش وخروش کم ہی نظرآرہا ہے جوگزشتہ برسوں میں بقرعید کے موقع پر دکھائی دیتا تھا۔ اس کی ایک وجہ لوگوں میں کانگووائرس کاخوف بھی ہوسکتا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے بھی غریبوں کیلئے سنت ابراہیم علیہ السلام کی تکمیل مشکل ہورہی ہے۔ عید کاچاند نظر آتے ہی ملتا ن کے مختلف حصوں میں عارضی منڈیاں قائم کر دی جاتی تھیں لیکن اس مرتبہ کونگووائرس سے بچاؤ کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر منڈیاں شہر سے دور علاقوں میں قائم کی گئی ہیں جہاں سے جانور خرید کرلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

پہلے تو جانوروں کی مہنگائی اوپر سے گھر لانے کیلئے ہوشربارکرائے۔
بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جانور کی قربانی نہیں بلکہ غریب مسلمانوں کی اپنی قربانی ہورہی ہے معاشی مجبوریوں کے باوجود بعض لوگ سنت ابراہیم علیہ السلام کو پورا توکرتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا قربانی کے تقاضے بھی پورے کئے جاتے ہیں یا نہیں ؟ جانور کی خریداری سے لے کر گوشت کی تقسیم تک نمودونمائش اور دکھاوا زیادہ نظرآتا ہے جس کی وجہ سے قربانی کے مقاصد ہوکر رہ گئے ہیں۔

(جاری ہے)


شہرت سے دور عارضی منڈیوں میں خریدارآتے ہیں جانوروں کوٹنول کرپرکھتے ہیں۔ لیکن قیمت کا سنتے ہی ان کے اپنے اوسان خطاہونے لگتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کو اس لحاظ سے پرکھٹا کہ آیا یہ قربانی کے لائق بھی ہے یا نہیں؟ ہر خریدار کے بس کی بات نہیں کیونکہ منڈی کے ماحول میں سانس لینا دو بھر ہوتا ہے جانور پسند آجائے تو نرخ طے کرنا۔
ایک عارضی منڈی میں قربانی کے جانور فروخت کرنیوالا بہت پریشان نظرآرہاتھا۔

اس کاکہنا تھا شہر سے بار جانور بیچنے لے جائیں تو خریدار کم کم ہی آتے ہیں، ہم نے ایک مکان کرایہ پر لے رکھا ہے جہاں ہم رات کو قربانی کے جانوروں کو باندھتے ہیں اور دن میں کھول کر فروخت کرنے چل پڑتے ہیں۔
منڈی میں موجود ایک اور مالک کو شکایت تھی کہ خریدار مال دیکھ کرریٹ نہیں لگاتے، بس وہ گھر سے جوریٹ سوچ کرآتے ہیں اسی پر ضڈ کرنا شروع کردیتے ہیں۔

آپ خود بتائیں کہ 20کلو کا بکرایابکری بھلا چار پانچ ہزار میں کیسے مل سکتا ہے۔ دوسری طرف خریدار شکایت کررہے تھے کہ جانوروں کو بیسن ملا پانی پلا کرلے آتے ہیں جس کی وجہ سے جانوروں کا پیت پھول جاتا ہے، جب گھر لے کر جاتے ہیں تو صبح جانور کی حالت دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں کہ یہ رات والا ہی جانور ہے کیونکہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہمارے سامنے ہوتا ہے۔


یہ بھی حقیقت ہے کہ بقرعید کی آمد مختلف طبقوں کے حصول روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ گھاس اور جانوروں کے چارے کی مانگ میں اضافہ کی وجہ سے ان دوکانوں پر رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔ چھریاں کانٹے تیز کرنیوالوں کو بھی سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی اور جانوروں کے بناؤسنگھار کی اشیاء فروخت کرنیوالوں کی بھی ان دنوں چاندی ہوجاتی ہے۔ مذہبی جذبہ سے سرشارلوگ قربانی کے جانوروں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں خصوصاََ ” دیسی بکرے “ تو وی آئی پی کا درجہ رکھتے ہیں۔

بناؤ سنگھار سے انکی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔ قربانی کے جانوروں کو گانی ماتھے کا جھومر ‘ جھانجریاں ‘ پونئے پہنااور مہندی لگا کر سڑکوں اور گلیوں میں گھمایاجاتا ہے تو چھن چھن کی آواز سے تمام لوگ متوجہ ہوجاتے ہیں۔خصوصاََ اونٹوں کے گلے میں لٹکے ہوئے ٹل جب بجتے ہیں تو بچے اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں ۔ آرائشی اشیاء فروخت کرنیوالے ایک دکاندار نے بتایا ” عیدالاضحی‘ کے موقع پر جانوروں کے بناؤ سنگھار کیلئے خصوصی طور پر آرائشی اشیاء بنوائی جاتی ہیں ۔

اس موقع پر جھانجروں اور گانوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے۔ بعض قربانی کے جانور کے گلے میں صرف گانا باندھنا پسند کرتے ہیں جبکہ بعض جھانجروں کوترجیح دیتے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے بڑے جانوروں کے نام بھی رکھے ہوتے ہیں سوھنا‘ سانول، جیون، سوہنی، سہاگن اور دیگر ناموں سے انہیں پکارتے ہے۔ جانور فروخت کرنیوالے بھی قربانی کے جانور کو خوب سجا کر منڈی میں لاتے ہیں تاکہ اس کی قیمت زیادہ وصول ہوسکے۔

قربانی کے بعد سب سے اہم مرحلہ گوشت کی تقسیم کاہوتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ قربانی کا سار اگوشت بحق ڈیپ فریزر ضبط کرلیتے ہیں، بعض اپنے افسروں کو بکروں کی رانوں کی سلامی دینا بھی نہیں بھولتے۔ لیکن انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرکے رشتہ داروں غریب لوگوں میں معیاری گوشت تقسیم کئے بقرعید قربانی کے تقاضے پورے ہونا ناممکن ہے۔

ڈسٹرکٹ لائنر کلب کے سابق گورنر محمد افضل سپرانے اس حوالے سے بتایا قربانی کے جانور کی خریداری غریب مسلمانوں کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے جبکہ جولوگ اس کی استطاعت رکھتے ہیں ان کے ہاں نمائش کا عنصر زیادہ نظرآتا ہے۔ ڈاکٹر روبینہ اختر کا کہنا تھا “ قربانی کا گوشت اچھی طرح دھو کر پکانا چاہیے۔ بعض لوگ بلاسوچے سمجھے گوشت کھاتے ہیں پھر انہیں ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

سلیم تونسوی نے کہا ہم قربانی کے گوشت کی تقسیم میں مساویانہ اصول کو پس پشت ڈال کر ذاتی ، مفادات کو زیادہ نظر رکھتے ہیں۔ عید کی شام باربی کیوسجا کرتکے کلیجی سے بھرپور انصاف کیاجاتا ہے۔ عزیز اوقارب کو بھی خوشی کے لمحات میں شامل کرکے قربانی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ مرزافاروق نے کہا” کانگووائرس کے خوف کی وجہ سے بقرعید کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں کیونکہ اب قربانی کا جانور عید سے ایک روز قبل ہی خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تو مہینہ پہلے قربانی کا جانور خرید کر اس کی خوب خاطر مدارت کی جاتی تھی۔ ممتاز صنعت کارخواجہ جلال الدین رومی نے کہا ” اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ قربانی کا گوشت مستحق اور حق دار لوگوں تک پہنچایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Eid e Qurban Aur Hamaray Siasi Rawaiay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.