غریب ملک کے امیر سفارتخانے

سفارتی عملہ 5سال میں 56ارب کھا گیا

منگل 3 مئی 2016

Ghareeb Mulk K Ameer Sifaratkhanay
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کا نظام عالمی مالیاتی اداروں سے قرض اور امداد لے کر چلتا ہے۔ اس کے بدلے پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی کڑی شرائط بھی تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان ہر سال اربوں روپے سود کی مدمیں ادا کرتا ہے اور نئے قرضوں کے لیے مزید کوشش کرتا ہے ۔ حکمران ہربار کشکول توڑدینے کا عزم کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔

ہمیں امدادشمار کے گورکھ دھندے کی مدد سے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہمارا تعلق غریب مگر ترقی پذیر ملک سے ہے۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے زیادہ تربیرون ممالک دوروں کا تعلق بھی امدادکے حصول سے جڑا ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہمیں اپنی معشیت بچانے کے لئے سعودی عرب ایسے ممالک سے بھاری رقم لے کر خزانے میں جمع کرانی پڑتی ہے ۔

(جاری ہے)

دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے راہنما بیرون ممالک دوروں کی دوران شاہی انداز میں رہتے ہیں اور قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔

اب ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق پاکستان کے سفارتی مشنز بھی سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملکی تاریخ میں کسی بھی قابل ذکر کارنامے کے کریڈٹ سے محروم بیرون ممالک قائم پاکستانی سفارت خانے ہونے والے قومی خزانے سے 56ارب 33کروڑ 68لاکھ روپے سے زائد کے فنڈزہضم کرگئے ہیں۔ سفارتی عملے کی شاہ خرچیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2010-11ء میں 8ارب 35کروڑ کے اخراجات ہوئے، 2013-14میں 11ارب 11کروڑ 56لاکھ روپے سے بھی بڑھ گئے ۔

وزارت خارجہ کی اپنی دستاویز کے ریکارڈ کے مطابق 2010-11ء میں بیرون ممالک قائم پاکستان سفارت خانوں اور مشنز کے کل اخراجات8ارب 35کروڑ سے زائد تھے جو اگلے سال 2011-12ء میں بڑھ کر 9ارب 43کروڑ روپے سے زائد ہوگئے۔ یہ رفتار بھی تھی نہیں کیونکہ اس سے اگلے برس 2012-13ء میں ان اخراجات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس سال یہ 10ارب 44کروڑ 78لاکھ سے زائد ہوگئے۔ اسی روایت کوا گلے برس بھی برقرار رکھا گیا۔

2013-14ء میں اخراجات مزید اضافے کے ساتھ 11ارب 11کروڑ 56لاکھ روپے سے تجاویز جرگئے۔ اس سے اگلے برس یہ روایت کسی حد تک ٹوٹی اور 2014-15ء میں یہ اخراجات کم ہوکر 10ارب 94کروڑ 29لاکھ ہوگئے لیکن 2015-16ء کے 15لاکھ سے زائد ہوچکے ہیں۔ اس لیے کہاجارہاہے کہ اس مالی سال کے اختتام تک فضول خرچی میں اضافے کی روایت مزید مضبوط ہونے کی توقع ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ رویہ غیریب ملک کے سفارت خانوں کو زیب دیتا ہے؟ سوال تویہ بھی ہے کہ کیا ان بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجوہات تلاش کی جائیں گی؟ کیا ہمارا سفارتی عملہ مقررہ تعداد سے زیادہ ہے یا پھر بیرون ممالک پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں کو ملکی خزانے اور معاشی صورت حال کا احساس نہیں ہی؟ شاید ان سوالات کے جواب کہیں سے نہ مل سکیں کیونکہ سفارت خانوں کے عملہ کو بڑھتے ہوئے اخراجات سے روکنا حکمرانوں کے بیرون ممالک اضافی سہولیات سے محروم ہونے کے مترادف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Ghareeb Mulk K Ameer Sifaratkhanay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 May 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.