گڈگورننس حکومت کی سیاسی مجبوریاں

31اگست کا معرکہ کون جیتے گا

پیر 15 اگست 2016

Good Governance Hakoomat Ki Siasi Majboorian
خالد جاوید مشہدی:
جب کبھی ایسی خبر ملتی ہے کہ ارکان اسمبلی کے دباؤ پر کسی اعلیٰ افسر کاتبادلہ کردیا گیا کہ وہ ان کی لائن پر چلنے سے انکاری تھا تو جہاں ایک طرف حکمرانوں کے گڈگورننس کے دعوے غلط ثابت ہوتے نظر آتے ہیں وہاں ان کی سیاسی ضروریات اور مجبوریوں کا احساس ہوتاہے۔ ہمارے ملک کا سیاسی پارلیمانی نظام ہمارے معاشرے کیلئے اس طرح موزوں نہیں جس طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پختہ سیاسی روایات کے حامل ممالک ہوسکتا ہے۔

قدم قدم سیاسی ضروریات گڈگورننس کاراستہ روکتی نظرآتی ہیں اور شہباز شریف جیسے دبنگ وزیراعلیٰ کو بھی اس حوالے سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ وہاڑی کے ڈی پی اوغازی صلاح الدین کا تبادلہ بھی اسی حوالے سے ہے۔ یہ تو کوئی راز کی بات نہیں کر ارکان اسمبلی کم ازکم اپنے حلقہ میں مرضی کا ایس ایچ اوچاہتے ہیں اور جوڈی پی اوانگی خواہش کے مطابق ایس ایچ او کی پوسٹنگ نہیں کرتا وہ ان کے کام کا نہیں ہوتا جبکہ مبینہ طور پر غازی صلاح الدین نے نہ صرف دو ارکان اسمبلی کی خواہش پرایس ایچ او تعینات نہیں کئے بلکہ میلسی میں ایک موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے شہریوں سے کہا کہ وہ کسی ڈیرہ پرجانے کی بجائے انصاف کے حصول کیلئے براہ راست ان کے پاس آئیں وہ ان کی دادرسی کرینگے۔

(جاری ہے)

پھر اپنی دیانتداری کا ڈھول پیٹنے والے ایک اینکرپرسن نے جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اپنا کام حسب منشانہ ہونے پراپنے پروگرام میں ڈی پی او وہاڑی کا ” توا“ لگادیا۔ چنانچہ اس سے قبل کہ مہم خود وزیراعلیٰ کے گھر کا رخ کرتی غازی صلاح الدین کا تبادلہ کردیاگیا۔ یہی صورتحال ایک دفعہ ذوالفقار چیمہ جیسے دبنگ افسر کے ساتگ بھی ہوئی کہ ڈی آئی جی گوجرانوالہ کی حیثیت سے ان کے کارنامے آج بھی یاد کئے جاتے ہیں مگر اس کارکردگی کاا نعام ملنے کی بجائے انہیں بھی بالآخر تبادلے کاتلخ گھونٹ پینا پڑا۔

بعض قارئین کو وہ واقعہ ضرور یاد ہوگا جب وائیں کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ایک ایم پی اے جلال ڈھکو کا ٹریفک کی خلاف ورزی پر چالان ہونے پر پنجاب اسمبلی مچھلی منڈی بن گئی اور سیاسی مخالفتیں چھوڑ کر تمام ارکان اسمبلی ” ایک“ ہوگئے اور مطالبہ کیا کہ پولیس والوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ بحران اس قدر شدید تھا کہ وائیں کیخلاف عدم اعتماد کا خطرہ پیدا ہوگیا۔

اعلیٰ پولیس قیادت نے اپنے سارجنٹ کا ساتھ دیا اور پھر تمام اصول دھرے کے دھرے رہ گئے جب آئی جی کو تبدیل کردیا گیا۔ اس پروائیں صاحب نے کسی اصول پرستی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ آج (آئی جی کاتبادلہ کرنے پر) پہلی بار پتہ چلا کہ میں وزیراعلیٰ ہوں اس لئے گڈگورننس کی حدودبھی وہیں تک جہاں اشرافیہ کی ریڈلائن کھنچی ہوئی ہے۔

پولیس کس طرح اس نظام میں اچھے نتائج دے سکتی ہے جب اس کی باگیں اشرافیہ سے منتخب ہونیوالے عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس ماہ کے آخر روز ضلع وہاڑی تحصیل بور یوالا کے حلقہ 232 میں ضمنی انتخاب کے معرکہ ہونے جارہا ہے جہاں مسلم لیگ ن اور پی آئی ٹی میدان میں اتر ہوئی ہیں۔ یہ سیٹ یوسف کسیلیہ کی نااہلی کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی۔ اس حلقہ کاٹکٹ دینے میں مسلم لیگ ن شدید دباؤ کا شکار رہی۔

یوسف کسیلیہ نااہل ہونے کے باوجود ٹکٹ کے امیدوار تھے۔ قبل ازیں وہ آزاد حیثیت سے منتخب ہوکر (ن) لیگ میں شامل ہوئے تھے اور انعام میں ایکسائزاینڈٹیکسیشن کی قائمہ کمیٹی کی چیئرمین شپ پائی تھی۔ شومئی قسمت کہ 2013 میں ان کے مسلم لیگی مدمقابل غلام محی الدین چشتی نے ان کیخلاف عذرواری دائر کردی۔ کسیلیہ نے 50260 اور چشتی نے 43665ووٹ حاصل کئے تھے۔

الیکشن ٹربیونل نے فیصلہ کسیلیہ کیخلاف دیا اور سپریم کورٹ نے بھی اپیل پر الیکشن ٹربیونل کافیصلہ برقرار رکھا اور ضمنی الیکشن کاحکم دیا۔ کئی ہفتے انتہائی دباؤ کے نتیجے میں مسلم لیگ ن ٹکٹ کا فیصلہ نہ کرسکی۔ بالآخر ٹکٹ کسیلیہ کودید گیا۔ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کی عائشہ جٹ ہیں جنہوں نے 2013ء میں این اے 167 سے قومی اسمبلی کاالیکشن لڑا اور43619 ووٹ لئے۔

عائشہ جٹ کے والد نذیر جٹ خود بھی ایم این اے رہ چکے ہیں مگرجعلی ڈگری کی بنا پر تاحیات نااہل ہیں۔ وہ اس سے قبل پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کے گھاٹوں کا پانی پی چکے ہیں۔ غلام محی الدین چشتی ایک وسیع حلقہ اثر رکھتے ہیں اور وہ کسیلیہ کی شدید مخالفت کررہے تھے ۔ اب ان کی کسیلیہ کے ساتھ صلح ہوچکی ہے اور انہیں مبینہ طور پر ضلع کرنسل کی چیئرمین شپ دینے کاعدہ کیاگیا ہے۔ حلقہ کے باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ چشتی زخم خوردہ ہیں الیکشن تک شاید ان کے زخم پوری طرح مندمل نہ ہوں اور وہ دل سے کسیلیہ کی حمایت نہ کرسکیں۔ پیپلز پارٹی کے مرزا محبوب گیلانی بھی امیدوار رہیں مگر مسلم لیگ (ن) اور پی آئی میں ہی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Good Governance Hakoomat Ki Siasi Majboorian is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.