استعمال شدہ کوکنگ آئل اور بائیو ڈیزل

پنجاب فوڈ اتھارٹی کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ استعمال شدہ کوکنگ آئل اور گھی کو ٹھکانے لگانے کی واضح حکمت عملی تیار کرنا اور اس پر عمل کروانا تھا۔ صرف شہر لاہور کی بات کی جائے تو یہاں ہزاروں ہوٹل، ریسٹوران اوردیگر کاروبار خوراک کے شعبہ سے منسلک ہیں جہاں روزانہ لاکھوں لیٹر کوکنگ آئل اور گھی استعمال ہوتا ہے

ہفتہ 13 مئی 2017

Istemal Shuda Cooking Oil
نور الامین مینگل:
پنجاب فوڈ اتھارٹی کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ استعمال شدہ کوکنگ آئل اور گھی کو ٹھکانے لگانے کی واضح حکمت عملی تیار کرنا اور اس پر عمل کروانا تھا۔ صرف شہر لاہور کی بات کی جائے تو یہاں ہزاروں ہوٹل، ریسٹوران اوردیگر کاروبار خوراک کے شعبہ سے منسلک ہیں جہاں روزانہ لاکھوں لیٹر کوکنگ آئل اور گھی استعمال ہوتا ہے۔

یہ استعمال شدہ تیل اگر دوبارہ کھانے پینے میں استعمال کیا جائے تو جسم میں کارسینو جینک کی تعدادبڑھتی ہے جو کینسر کی ایک بڑی وجہ ہے۔استعمال شدہ کوکنگ آئل کھانے سے کولیسٹرول کی مقدار بڑھتی ہے جس سے دل کی بیماریاں اور موٹاپہ پیدا ہوتا ہے۔ الزائمر، شوگر اور عمر بڑھنے کے تاثرات کا وقت سے پہلے نمایاں ہونا جیسی بیماریاں بھی استعمال شدہ آئل کو دوبارہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

پنجاب فوڈ اتھارٹی کے عمل دخل اور قوانین سے پہلے تمام استعمال شدہ کوکنگ آئل اور گھی صابن بنانے والی کمپنیوں اور صابن سازی کے نام پر خریدا جاتا تھا۔ کہانی یہاں تک ہی ہوتی اور یہ تمام کوکنگ آئل اور گھی صرف صابن سازی میں استعمال ہوتا تو شاید صورت حال قابل قبول ہوتی تاہم حقیقت اس سے کہیں زیادہ خوفناک تھی۔ صابن سازی کے نام پر خریدا گیا کوکنگ آئل اور گھی چند منافع خور وں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا تھا۔

جس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا تھا۔ چندمنافع خور عناصر جیسا کہ ہوٹل اور ریسٹوران استعمال شدہ کوکنگ آئل او ر گھی سستے داموں خریدلیتے تھے۔ ان میں سموسہ پکوڑا ، مچھلی اور دیگر ایسے کاروبار کرنے والے قابل ذکر خریدار تھے جس سے ان کو فی لیٹر آدھے سے زیادہ پیسوں کی بچت ہوتی تھی۔ 150لیٹر والا کوکنگ آئل ان کو 50سے 60میں دستیاب ہوتا تھا۔

اس تیل میں پکی ثیزیں عوام کو کھلائی جاتی تھیں جس بیماریاں دوگنی رفتار سے پھیلتی تھیں۔ دوسرا اور مزید خطرناک خریدار ایسی کمپنیاں تھی جو استعمال شدہ کوکنگ آئل کو دوبارہ صاف اور پیک کر کے بیچتے تھے۔ استعمال شدہ تیل کو انتہائی گندی فیکٹریوں میں ابال کر ، اس میں مرغیوں کی لائشوں انتڑیوں، پراور کھال کو ابلا کر نکالا گیا تیل ملا کر اسے گاڑھا کیا جاتا تھا اور معروف برانڈز کی جعلی پیکنگ تیار کر کے استعمال شدہ تیل بیچا جاتا تھا۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ایسی تمام فیکٹریوں کو نا صرف پکڑا بلکہ سیل کر کے مجرموں کو پولیس کے حوالے بھی کیا۔ تاہم یہ مسئلے کا دیر پا حل نہیں تھا۔ جب تک استعمال شدہ تیل کو ٹھکانے لگانے کے لیے واضح حکمت عملی نا بنائی جاتی تب تک سزاؤں کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں رہتا۔ اس ضمن میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے عالمی طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے استعمال شدہ تیل کی صابن سازی یا کسی بھی اور مقصد کے لیے فروخت پر بابندی عائد کی اورصرف بائیو ڈیزل کمپنیوں کو استعمال شدہ تیل کی خرید کی اجازت دی۔

دوسری طرف عالمی معیار کی بائیو ڈیزل بنانے والی کمپنیوں کو دعوت دی کہ وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں تاکہ نا صرف استعمال شدہ تیل کو ٹھکانے لگایا جا سکے بلکہ ہوٹل اور ریسٹوران استعمال شدہ تیل کو فروخت کر کے مناسب پیسے کما سکیں۔ یہاں بائیو ڈیزل کی وضاحت کرتا چلوں۔ بائیو ڈیزل سبزیوں کے تیل، جانوروں کی چربی،ہوٹلوں اور ریستورانوں کے استعمال شدہ ( ری سائیکل ) گھی یا کوکنگ آئل سے مقامی سطح پر تیار کردہ عام ڈیزل کی طرح کاایندھن ہے. بائیو ڈیزل دیگر ڈیزل پیٹرولیم مصنوعات کی طرح کا ڈیزل ایندھن ہیجس سے ڈیزل سے چلنے والی تمام مشینری چلائی جا سکتی ہے۔

با ئیو ڈیزل فیول کو عام طور پر B100 یا صاف ڈیزل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے ماحولیاتی آلو دگی عام ڈیزل کے مقابلے انتہائی کم ہوتی ہے۔ بائیو ڈیزل ماحول دوست فیول کہلاتا ہے اور اس کی پروڈکشن اور استعمال کی جدید دنیا میں حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کاوشوں کی بدولت شرق پور، شیخورپورہ کے قریب بائیو ڈیزل کا عالمی معیار کا پلانٹ کام شروع کر چکا ہے جو لاہور اور س سے ملحقہ علاقوں سے استعمال شدہ کوکنگ آئل خرید کر روزانہ کی بنیاد پر 30میٹرک ٹن بائیو ڈیزل روزانہ تیار کر کے برطانیہ برآمد کیا جا رہا ہے۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ان اقدامات سے نا صرف بیماریوں کی ایک بہت بڑی وجہ ختم کی جا چکی ہے بلکہ بائیو ڈیزل کی برآمد سے ملکی معیشت میں بھی زرمبادلہ بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ استعمال شدہ کوکنگ آئل کا دوبارہ استعمال روکنے کاایک بڑا فائدہ عوام اور حکومت سے بیماریوں کا بوجھ کم ہو نا بھی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص خوراک سے منسلک چھوٹی بڑی بیماریوں کے علاج پر نا صرف سرکاری ہسپتالوں کے وسائل کا ایک بڑا حصہ صرف کرتا ہے بلکہ ذاتی جیب سے ہر ماہ بہت سارا خرچ ان بیماریوں کے علاج پر کرتاہے۔

گلا خراب ہونے سے لیکربدہضمی، فوڈ پوائزنگ ، کینسر، دل اور دیگربیماریاں اکثر لوگوں کی جیب پر بھاری پڑتی ہیں اور ماہانہ آمدن کا بڑا حصہ خرچ کروا دیتی ہیں۔پیسوں کے علاوہ ان کا قیمتی وقت بھی اس میں صرف ہوتا ہے اور ذہنی پریشانی کے سبب اپنے کام پر بھی مکمل توجہ نہیں دے پاتے۔استعمال شدہ کوکنگ آئل اور اس جیسی دیگر قباحتوں کی روک تھام، حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق محفوظ خوراک کی فراہمی اوراس حوالے سے شعور اور آگاہی یقینی بنالی جائے توعام آدمی کی ماہانہ آمدن ان بیماریوں کے علاج پر خرچ ہونے کی بجائے زندگی کی دوسری ضروریات پوری کرنے اور حکومت پنجاب کے صحت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان بیماریوں کے علاج کی بجائے نئے ہسپتالوں کی تعمیراور صحت کے دیگر پیچیدہ مسائل حل کرنے پر لگایا جاسکتا ہے۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کو اپنے قیام سے لے کر اب تک بہت سے چیلنجز اور مسائل کا سامنا رہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی تمام مسائل پر مکمل نظر ہے اور ان کے حل کے لیے واضح حکمت عملی کے ساتھ کام جاری ہے۔ موثر حکمت عملی اور بھر پور کوشش سے بہت سے مسائل پر قابوپایا جا چکا ہے۔ صحت مند پنجاب کی منزل بہت دور نہیں مگر ایک لمبا سفر ابھی باقی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Istemal Shuda Cooking Oil is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 May 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.