جعلی ادویات کی تیاری کا مکروہ دھندہ!

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں جعلی ادویات کی تیاری کا مکروہ دھندہ بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ ہر سال اربوں روپے کی جعلی اور غیرمعیاری ادویات تیار کرنے والی فیکٹریاں انسانوں کی قتل گاہیں بن چکی ہیں جبکہ یہی جعلی ادویات ملک کے کروڑوں مریضوں کو بھاری نرخوں پر فراہم ہوتی ہیں۔ صو بے میں جعلی ادویات کی تیاری کا گھناوٴنا کاروبار جاری و ساری ہونے کا انکشاف کسی ایرے غیرے نے نہیں کیا۔ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے

منگل 13 دسمبر 2016

Jaali Adviyat Ki Tiyari Ka Makrooh Dhanda
خالد کاشمیری:
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں جعلی ادویات کی تیاری کا مکروہ دھندہ بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ ہر سال اربوں روپے کی جعلی اور غیرمعیاری ادویات تیار کرنے والی فیکٹریاں انسانوں کی قتل گاہیں بن چکی ہیں جبکہ یہی جعلی ادویات ملک کے کروڑوں مریضوں کو بھاری نرخوں پر فراہم ہوتی ہیں۔ صو بے میں جعلی ادویات کی تیاری کا گھناوٴنا کاروبار جاری و ساری ہونے کا انکشاف کسی ایرے غیرے نے نہیں کیا۔

یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے۔ جس کا اظہار پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے گزشتہ دنوں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے افسروں اور عملے میں نقد انعام اور اسناد تقسیم کرنے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو برسراقتدار آئے آٹھ برس سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے۔

(جاری ہے)

اس عرصے کے دوران پنجاب میں جعلی اور غیرمعیاری ادویات کی تیاری کے سدباب کا ارباب اقتدار کو خیال تک نہیں آیا۔

نہ اس بارے میں کبھی وفاقی حکومت کے کار پردازان کی طرف سے اس سنگین معاملے پر سنجیدگی سے غور کر کے اسکے تدارک کی سعی کی گئی جس انداز سے میاں شہباز شریف نے اس خوفناک اور پبلک کاروبار کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اس گندے کاروبار کے مہلک اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پنجاب میں جعلی اور غیرمعیاری ادویات تیار کرنے والے کارخانے اور انکے مالکان ایک طرح سے پاکستانی قوم کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔

یہ کھیل کب سے جاری ہے؟ اور اس کاروبار کو مستحکم ہونے میں کتنے برس لگے اسکے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایسا گھناوٴنا کاروبار دو ایک برسوں میں پھل پھول نہیں سکتا۔ نہ متعلقہ اداروں کی چشم پوشی کے بغیر ایسے انسانیت دشمن کاروبار کو فروغ مل سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ناقابلِ فراموش حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو جعلی اور غیرمعیاری ادویات انتہائی مہنگے داموں مہیا کی جاتی ہیں جس پر غریب عوام عرصہ دراز سے شور مچاتے رہے مگر انکی شنوائی نہیں ہوئی۔

پنجاب کے اربابِ اقتدار نے اپنی حالیہ مدت حکمرانی کے آٹھ برس بعد اس حقیقت کو تسلیم تو کیا ہے کہ انکے عہد اقتدار میں پنجاب میں جعلی اور غیرمعیاری ادویات کے مکروہ دھندے نے ترقی کی ہے اور اب حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ہر سال اربوں روپے کی جعلی اور غیرمعیاری ادویات کا کاروبار اور انکی خوردبرد کا چیلنج موجود ہے۔

اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ سچ تو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ، صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہہ کر ہی سیاستدانوں ، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس پر عوام کا اعتماد بحال ہو گا۔ جھوٹ کی پردہ پوشی سے اب کام نہیں چلے گا۔ ایسا نیا نظام لایا جارہا ہے جس سے امیر اور غریب کو یکساں طبی سہولتیں اور ایک ہی دوائی ملے گی۔ عوام کو جعلی اور غیرمعیاری ادویات تیار کرنیوالی قتل گاہوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔

جعلی ادویات کا انتہائی خطرناک اور مکروہ دھندہ ہر حال میں ختم کرنا ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست انسانی صحت سے ہے۔ جہاں امیر کیلئے کوئی اور دوائی ہو اور غریب کیلئے کوئی اور۔ ہم اس فرق کو مٹا رہے ہیں اب وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ، وزراء، ججوں اور جرنیلوں کو بھی وہی دوائی ملے گی جو ایک عام پاکستانی استعمال کریگا۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجاب ایسے 13 کروڑ کے لگ بھگ آبادی والے صوبے میں جعلی اور غیرمعیاری ادویات کی تیاری اور اسکے وسیع پیمانے پر کاروبار سے پوری قومی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہونگے یہ گھناوٴنا کاروبار کس عہد میں پھلا پھولا اس بات سے قطع نظر اگر موجودہ صوبائی حکومت اس گھناوٴنے کاروبار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں سنجیدگی کیساتھ سرگرم عمل ہو جائے تو اس کیلئے یہ کام کفارہ ادا کرنے کے مترادف ہو گا۔

بلاشبہ یہ اہم کام برسوں قبل ہونا چاہیے تھا۔ جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب کے ان جذباتی خیالات کے اظہار کا تعلق ہے کہ اس فرق کو مٹایا جارہا ہے کہ امیر کیلئے کوئی اور غریب کیلئے کوئی اور دوائی ہو۔ وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ، وزراء، ججوں اور جرنیلوں کو بھی وہی دوائی ملے گی جو ایک عام پاکستانی استعمال کریگا تو باتیں کہہ دینا وقتی واہ، واہ کے حصول کی خاطر بہت آسان ہے مگر اس پر عمل پیرا ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔

جہاں تک ملک کے متذکرہ اعلیٰ ترین مناصب پر تعینات افراد کا تعلق ہے۔ طبی سہولتوں کی عدم فراہمی یا غیرمعیاری ادویات کا حصول ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ہی عام پاکستانی کا ہے جسے ملک کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں مناسب طبی سہولتیں میسر نہیں۔ نہ ہی انہیں صحیح اور معیاری ادویات کی فراہمی کی ضمانت مل سکتی ہے۔ جہاں تک عساکرِ پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدیداروں اور دیگر عملے کا تعلق ہے ان کیلئے مخصوص ہسپتالوں میں نہ صرف بہترین طبی سہولتیں فراہم ہیں بلکہ انہیں معیاری اور صحیح ادویات بھی فراہم ہوتی ہیں۔

کرسی عدل کی رونق شخصیات بھی بہت حد تک اعلیٰ طبی سہولتوں اور معیاری ادویات کے حصول کی پوری استطاعت رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے اصل تان تو سیاستدانوں پر آکر ٹوٹتی ہے۔ جس ملک میں عام آدمی کو علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں اور جہاں ملک کے کروڑوں عوام کو اپنی جمع پونجی لٹا کر بھی اچھی اور معیاری ادویات نہیں مل سکتیں۔ اس ملک کے وزیراعظم سے لیکر وزراء اعلیٰ سمیت وفاقی و صوبائی وزراء اور سیاسی رہنما اپنے طبی معائنے کیلئے یورپی اور امریکی ممالک کا رخ کرتے رہتے ہیں۔

ایسے چند ہزار افراد کو ملک میں تیار ہونے والی جعلی اور غیرمعیاری ادویات کے بارے میں انکے سدباب سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک جعلی ادویات کے سدباب اور ایسے گھناوٴنے کاروبار سے پاکستانی قوم کو محفوظ رکھنے کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے ایوان اقتدار کے مکینوں اور اسکی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والوں کو بھی اپنے اور اپنے اہلخانہ کے علاج معالجے کیلئے بیرونی ممالک کا رخ کرنے کی بجائے ملک کے شفاخانوں، ڈاکٹروں اور ملکی فیکٹریوں میں تیار ہونیوالی ادویات ہی پر انحصار کرنا پڑیگا۔

جب تک ایسا دیکھنے میں نہیں آئیگا۔ صاحبانِ اقتدار کی زبان سے نکلنے والے ایسے نعروں اور دعووٴں کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی کہ وزیراعظم سے لے کر عام پاکستانی تک کو ایک ہی دوائی ملے گی اور ان سب کو یکساں قسم کی طبی سہولتیں میسر ہوں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jaali Adviyat Ki Tiyari Ka Makrooh Dhanda is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.