جناح ہاؤس کو مسمار کرنے ک منصوبہ

کوٹھی پر بھارتی حکومت کا قبضہ برقرار قائداعظم کے گھر کو دشمن جائیداد قراردینے کی سازش می رئیل اسٹیٹ گروپ ملوث ہیں

منگل 29 اگست 2017

Jinnah house ko Mismmar Karny ka Mansoba
رابعہ عظمت:
بھارت نے ممبئی میں موجود قائداعظم کی کوٹھی کو ”دشمن کی جائیداد“ قراردے رکھا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق اس سازش کے پیچھے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے بھارتی سیاستدان کا ہاتھ ہے جواربوں روپے مالیت کی رہائش گاہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ فی الحال یہ حکومت کی تحویل میں ہے اور ویران پڑی ہوئی ہے۔ محمد علی جناح کی یہ کوٹھی ہندوستان کی آنکھوں کی کھٹکتی ہے اور اس نے اپنے تصرف لانے کی مذموم مہم چھیڑ رکھی ہے۔

بی جے پی لیڈر کے مطابق اسے گرادینا چاہیے اور اس کی جگہ ایک ثقافتی مرکز بننا چاہیے۔ قائداعظم کو ممبئی شہر بہت پسند تھا۔ انگلینڈ سے لوٹ کر وہ یہیں بس گئے تھے۔ اپنی رہائش کیلئے انہوں نے یہ شاندار عمارت بنوائی تھی۔ یہ کوٹھی اس دور کے یورپی بنگلوں کی طرز پر بنوائی گئی تھی۔

(جاری ہے)

اس بنگلے کا نام ساؤتھ کورٹ ہے۔ یہ بنگلہ جنوبی ممبئی کے مالا بار ہلز علاقے میں ہے سمندر کے رخ پر بنی اس عمارت کی تعمیر پر 1930 ء کی دہائی میں دو لاکھ روپے خرچ ہوتے تھے۔

اس کا ڈیزائن مشہور آرکیٹکٹ کالڈ بیٹلے نے تیار کیا تھا۔ اس میں اطالوی سنگ مرمر لگے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی لکڑی کاکام بھی بہت عمدہ ہوا ہے۔ اس گھر کی تعمیر کیلئے اٹلی سے معمار بلائے گئے تھے قائداعظم نے بہت محبت اور تندہی سے اس بنگلے کوبنوایا تھا۔ تاہم محمد علی جناح پاکستان چلے گئے اور ان کی وفات کے بعد قائداعظم کی بیٹی نے بھی اس پر مالکانہ حق جتانے کی کوشش کی تھی فی الحال یہ بھارتی حکومت کی تحویل میں ہے۔

متعدد بار پاکستان بھی اس بنگلے کو اپنی تحویل میں لانے کے لئے بھارت سے مطالبہ کر چکا ہے لیکن ہندوستان مسلسل اسے دینے سے انکاری ہے اور ایک منصوبے کے تحت اس بنگلے کو ”انیمی پراپرٹی“قرار دے رکھا ہے تاکہ پاکستان اس پر اپنا حق نہ جتا سکے۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنیوالے بی جے پی رکن اسمبلی گزشتہ دس برسوں سے اس عمارت کو مسمار کروانے کیلئے سرگرم ہیں۔

منگل پرساد لودھا کے مطابق انیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت جناح ہاؤس بھارت کی ملکیت ہے۔ موصوف ممبئی کی بہت بڑی کمیٹی لودھا گروپ کا بانی ہے۔ ظاہر ہے جناح ہاؤس کی مسماری کے بعد حکومت ڈھائی ایکڑ زمین برائے فروخت نہیں کردے گی اور منگل پرساد اس دن کا بے چینی سے انتظار کررہا ہے تا کہ زمین خرید کر وہاں کوئی پتھریلی عمارت بنا کراربوں کماسکے۔

صرف منگل ہی نہیں اس بیش قیمت جائیداد پر سینکڑوں ہندو سیٹھوں کی رال ٹپکتی ہے اور نریندرمودی پر ہندو انتہاپسندوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے چنانچہ مودی حکومت عام ہندوؤں کو خوش کرنے کیلئے مستقبل میں جناح ہاؤس منہدم کرنے کا اعلان کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد اندرا گاندھی حکومت نے 1968ء میں دشمن ”پراپرٹی ایکٹ“ کا قانون بنایا تھا اس کے ذریعے بھارتی حکومت کو پاکستانیوں اور چینیوں سے کسی بھی طرح وابستہ بھارت میں رہ جانے والی مسلم جائیدادوں کو غصب کرنے کا اختیار مل گیا۔

مودی کی بھگوا سرکار نے پارلیمنٹ میں”دشمن پراپرٹی ایکٹ“ ENEMY PROPERTY ACT میں ترمیم کروائی ہے۔ اس کی رو سے تقسیم ہند کے وقت جولوگ پاکستان یا چین چلے گئے تھے ان کے وارث اب بھارت میں چھوڑ دی گئی جائیدادوں پر ملکیتی حقوق کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ پاکستانی قوم کے نزدیک یہ گھر بہت محترم حیثیت رکھتا ہے۔ اسی گھر میں قیام پاکستان کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر عملی جدوجہد شروع ہوئی۔

اس رہائش گاہ میں قائداعظم نے گاندھی جی ،سبھاش چندر بوس،پنڈت نہرو،اور ہندوستان کے دیگر سربرآوردہ لیڈروں سے تاریخی ملاقاتیں کیں۔ جب قائداعظم1947ء میں پاکستان چلے آئے تو انہوں نے جذباتی وابستگی کے باعث ساؤتھ کورٹ کو فروخت نہیں کیا تھا۔ بھارتی میڈیا کی روسے قائداعظم نے پنڈت نہرو کو خط لکھ کر درخواست قبول کرلی، چنانچہ 1983ء تک ساؤتھ کورٹ میں برطانوی سفارت خانہ کرائے دار کی حیثیت سے قائم رہا ۔

انگریزوں نے ہی اس عمارت کو ”جناح ہاؤس کا نام دیا تھا۔ حکومت نے کئی بار بھارتی حکومت سے درخواست کی کہ جناح ہاؤس پاکستانی قونصل خانے کو دے دیا جائے۔ تاہم بھارتی حکمران لیت ولعل سے کام لیتے رہے ہیں اور اب اس کو مسمار کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق پنڈت نہرو نے قائداعظم دروغ گوئی سے کام لیا اور جناح ہاؤس کو وقف جائیداد بہت پہلے قرار دیا جاچکا تھا بلکہ ایک قانون کے ذریعے بھارتی حکمران اس کی مالک بھی بن بیٹھی ۔

ٹائمز آف انڈیا میں سواتی دیش پانڈے کے مضمون Why the new enemy property law won't apply to iconic Jinnah house میں انکشاف کیا گیا کہ ساؤتھ کورٹ پراپرٹی ایکٹ (Evacuee Property Act ) کے تحت وقف جائیداد قرار دیا جا چکا تھا۔ ہندوحکومت نے اپریل1950ء میں یہ قانون منظور کروایا تھا ۔ ہندوحکومت نے وقف جائیدادوں کے سلسلے میں 1954ء میں ایک اور قانون Displaced Persons کی بھی منطوری دی تھی۔

اس قانون کے تحت یہ طے پایا گیا تھا کہ اب وقف جائیدادوں کا مالک اپنی جائیداد کا قبضہ نہیں لے سکے گا۔ اسے صرف جائیداد کی قیمت بطور ہرجانہ ادا کی جائے گی۔ مضمون نگار کے مطابق ساؤتھ کورٹ کو درج بالا قانون کی روسے تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ دوسری جانب 2008ء میں نئی صورتحال نے جنم لیا جب جناح ہاؤس کے دو اور مالک سامنے آگئے تھے ۔ ممبئی میں مقیم محمد رجب علی اور ابراہیم نامی افراد نے اس کی ملکیت کا دعویٰ کردیا تھا کہ وہ فاطمہ جناح کے رشتے دار ہیں۔

لہذا اس رشتے کے لحاظ سے جناح ہاؤس کی ملکیت انہیں دی عطا کردی جائے۔ دینا جناح اور رجب علی،ابراہیم کے دعویٰ ملکیت کے مقدمات ممبئی ہائی کورٹ میں ہنوز زیر سماعت ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جب اسمبلی میں لودھا نے جناح ہاؤس منہدم کرنے کا مطالبہ کیا تو بیشتر اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کی تائید کی۔ بھارتی صحافی کا کہنا ہے کہ جناح ہاؤس پر قبضے کیلئے حکومت کے سامنے کوئی رکاوں نہیں ہے۔

بی جے پی رکن اسمبلی نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے جناح ہاؤس کو مسمار نہ کیا تو وہ اپنے حلقے کے عوام اور بی جے پی کارکنوں کی مدد سے اسے خود گرادیں گے۔ نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق بی جے پی رکن اسمبلی نے مہاراشٹر ا سمبلی میں قرار داد پیش کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگرحکومت جناح ہاؤس گرانے میں پس وپیش کرے گی تو وہ بابری مسجد کی طرح اس بھارت دشمن علامت عمارت کر گرادیں گے۔

منگل لودھا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بزنس پارٹنر ہیں اور ممبئی میں پہلا ٹرمپ ٹاور تعمیر کررہے ہیں۔ جبکہ بہت کم پاکستانی یہ جانتے ہوں گے کہ ممبئی کی طرح دہلی میں بھی قائداعظم نے گھر خرید ا تھا اور 10 اورنگزیب روڈ پر بنگلہ خریدا گیا تھا جس کا رقبہ تقریباََ ڈیڑھ ایکڑ ہے۔ اس دو منزلہ بنگلے کا ڈیزائن ایڈورڈ لیٹن کی ٹیم کے رکن اور کناٹ پیلس کے ڈیزائنر رابرٹ ٹوررسل نے تیا ر کیا تھا۔

دہلی میں قائداعظم کے دوستوں میں سردار سوبھانگھ اور سیٹھ رام کرشن ڈالمیا ہی تھے۔ ڈالمیا کی بیٹی اور” دی سیکرٹ ڈائری آف کستوربا“ کی مصنفہ نیلماڈالمیانے بتایا میرے والد سیٹھ رام کے محمد علی جناح کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ جناح کا ہمارے اکبر روڈ اور سکندر روڈ پر واقع بنگلوں میں باقاعدگی سے آنا جانا رہتا تھا۔“ دہلی چھوڑنے سے قبل ڈالمیا نے سکندر روڈ والے بنگلے پر قائداعظم کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔

فاطمہ جناح بھی ہمراہ تھی۔ رام کرشن کی بیوی نندنی ڈالمیا نے میزبانی کی تھی۔ پاکستان جانے سے قبل قائداعظم نے اپنا بنگلہ ڈالمیا کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا۔ خریدنے کے بعد ڈالمیا نے بنگلے کو گنگا جل سے دھلوایا تھا اس سے ایک ہندو فرقہ پرست کی دوستی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اور عمارت کے اوپر لہرانے والے مسلم لیگ کا پرچم بھی اتار دیا گیا تھا۔

اس کی جگہ گورکشا تحریک کا پرچم لگوایا گیا ۔ 1964ء تک ڈالمیا نے بنگلہ کو اپنے پاس رکھا اور پھر ہالینڈ حکومت کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا۔ اس کے بعدسے اس بنگلے کا استعمال نئی دہلی میں ہالینڈ کے سفیر کی رہائش کے طور پر ہو رہا ہے ۔ اس بنگلے میں پانچ بیڈروم، ایک بڑاڈرائینگ روم، میٹنگ روم ہیں۔ آج اس کی قمیت بھی اربوں روپے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مذکورہ سیاہ قانون کے تحت بھارتی حکومت 50 لاکھ کروڑ سے زائد مسلمانوں کی املاک کو اپنی تحویل میں لے چکی ہے۔

جب یہ قانون منظور ہو ا تھا اس دور میں اگر کوئی مسلمان ہندوستان سے اپنے رشتے دار سے ملنے پاکستان کا Visit پر گیا تو اسکی جائیدادیں بھی ساقط کردی جاتی تھیں۔ حیدر آباد کے ایک مشہور نواب خاندان کا حقیقی واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔ محترمہ زیب النسا ء 1955 میں اپنے عزیزوں سے ملنے پاکستان گئی تھیں اور وہاں انکا انتقال ہوگیا۔ میت واپس حیدر آباد لائی گئی اور حیدر آباد میں ان کے آبائی قبرستان میں دفن ہوئیں۔

شہر کے ایک تجارتی علاقے میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں تھیں۔ شوہر اور بچے حیدر آباد میں ہی موجود تھے۔ کمشنر کسٹوڈین نے اس جائیداد کو اس بنیاد پر ضبط کرلیا تھا کہ چونکہ زیب النسا کا انتقال دشمن ملک میں ہوا تھا لیکن انکی املاک انیمی پراپرٹی کے زمرے میں آتی ہے۔ شوہر نے جائیداد کو لاکھوں روپے دیکر دوبارہ خریدا تھا۔ ہندوستان کی عدالتوں میں ایسے کئی مقدمات زیر سماعت ہیں والدین پاکستان منتقل ہوگئے واثین نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی لیکن انہیں آبائی جائیداد کی وراثت سے محروم کردیا گیا۔

کئی مسلمانوں کو عدالتوں سے انصاف مل گیا اور کئی آج بھی دربدر ہیں ان میں نواب آف پٹوڈی‘ نواب آف رام پور‘نواب آف جہانگیر آباد اور دیگر مسلم امرا شامل ہیں۔ مودی حکومت کی حالیہ کی گئی ترمیم کے تحت 1969ء کے بعد سے اسطرح کی کوئی جائیداد بھی ہوتوخریدوفروخت بھی ہوئی ہو تو ایسی جائیدادیں دوبارہ ضبط کرلی جائے گی۔ حکومت فوری طور پر اسے تحویل میں لے لے گی۔ جبکہ اس قانون کے خلاف ضلعی عدالتوں اور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ بھارتی ریاستوں بنگال ، آسام اور یوپی میں ایسی اربوں روپے مالیت کی قیمتی جائیدادیں موجود ہیں جو بحق سرکار ہڑپ کرلی گئی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jinnah house ko Mismmar Karny ka Mansoba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.