خبریں ” مضحکہ خیز صورت کیسے پید ا کرتی ہیں؟

اخبار صحافت کی لغزشیں! مجاہد آزادی مولانا جعفر شاہ تھانیسری نے ”کالا پانی“ کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھی۔

ہفتہ 14 اپریل 2018

khabrain  mazhaka khaiz soorat kaisay paida karti hain
محسن فارانی

اخبارات کی خبریں جو انگریزی سے ترجمہ ہو کر آتی ہیں، بعض اوقات مضحکہ خیز صورت پیدا کر دیتی ہیں۔ شام میں بم دھماکے میں 6 افراد کی ہلاکت کی خبرتھی مگر اخبار میں ایک ذیلی سرخی تھی:”دھما کہ حلب کے علاقے سالا حید ین میں ہوا۔“ عام قاری ”سالا حیدین“ کو کیا سمجھے گا۔ یہ دراصل صلاح الدین (Salaheddin) ہے جسے مترجم نے بے خیالی میں نا قابل فسہم بنادیا۔

ظاہر ہے حلب کے اس علاقے کا نام عظیم فاتح اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام پر رکھا گیا ہے جو شام و شر مصر کے سلطان تھے ۔اور لبنان، اردن فلسطین ، حجاز اور یمن بھی ان کی عملداری میں شامل تھے۔ عراق کے ایک صوبے کا نام بھی صلاح الدین ہے جس کا دارالحکومت تکریت ہے۔

(جاری ہے)

سلطان صلاح الدین دریائے دجلہ کے کنارے آباد تکریت شہر کے ایک کر دگھرانے میں نجم الدین ایوب کے ہاں 1137ء میں پیدا ہوئے تھے اور 1187ء میں انھوں نے بیت المقدس صلیبیوں کے پنجے سے چھڑایا تھا اور پھر تیسری صلیبی جنگ( 1189ء تا 1192ء) نا کام بنا دی تھی۔

ایک اخبار میں ڈاکٹر ساجد خاکوانی کے قلم سے ابن بطوطہ پرمضمون چھپا ہے۔ اس میں ابن بطوطہ کی جائے پیدائش کو”نانگیر‘لکھا د یکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ”تانگیر‘ لکھا ہو گا جو کمپوزنگ میں بگڑ گیا لیکن یہ تانگیز بھی دراصل انگریزی کا تنجیر(Tangier) ہے۔ اس کا اصل عربی نام طنجہ ہے جس کایورپی زبانوں میں تلفظ مختلف ہے۔ طنجہ آبنائے جبل الطارق کے مغربی جانب ساحل مراکش پر واقع ہے۔

یہیں سے طارق بن زیاد کا لشکر آبنائے (Strait) پار کر کے جیل الطارق(جبرالٹر) کے ساحل پر جا اترا تھا۔ معروف مسلمان طبیب اور فلسفی ابن رشد پرانگریزی کتاب کا ترجمہ محمداحسن بٹ نے کیا تو مراکش شہر (اس دور میں دارلحکومت )کے ساتھ ملک کا نام” مرا کو“ لکھ دیا، حالانکہ مراکش ہی سے انگریزی میں بگڑ کر مراکو (Morocco) بنا ہے۔ ویسے ہم جس ملک کو مراکش کہتے ہیں، اس کا اصل عربی نام المغرب ہے اور ان دنوں اس کا دارالحکومت رباط ہے۔

یاد رہے مراکش کی سرکاری زبان عربی ہے۔ خاکوانی صاحب کے مضمون میں انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا کو ایک سے زیادہ بار”سمارٹا“ لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں جب وہ (ابن بطوطہ ) سرزمین ہند میں داخل ہورہے تھے تو خودان کے مطابق یہ 12 ستمبر1333ء کی تاریخ تھی۔“ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نا مے” رِحلہ“ میں ہجری تاریخ لکھی ہوگی نہ کہ انگریز کی تاریخ ، کیونکہ اس زمانے میں عالم اسلام میں ہجری کیلنڈر رائج تھا اور انگر یز ی یعنی جولین کیلنڈر کو ادھرکوئی نہیں جانتا احمد مرحوم ایک بڑے قومی اخبار میں کالم لکھتے تھے۔

انھوں نے ایک کالم میں لکھا کہ آزادکشمیر میں بہنے والا در یاجوکشن گنگا ہے، یہی بھارت میں جا کر گنگا کہلاتا ہے جو بنگلہ دیش سے گزر کرخلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔ناموں کی مشابہت کے باعث ان سے غلطی ہوئی۔ کشن گنگا دراصل ہمارا دریائے نیلم ہے جسے ہندوکشن گنگا کہتے ہیں اور یہ مظفر آباد کے پاس دریائے جہلم سے ملتا ہے جبکہ بھارت کا دریائے گنگا کوہستان ہمالیہ سے نکل کر الہ آباد کے مقام پر دریائے جمنا سے ملتاہے اور پھر بنگلہ دیش میں دریائے برہم پتر کو ساتھ ملاتے ہوئے خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔

بنگلہ دیش میں ایک دریائے جمونا بھی ہے جو دریائے برہم پتر کی ایک شاخ ہے محترم رضا علی عابدی اپنے کالم " دوسرارخ‘ میں چوک گئے اورلکھا ملائیشیا جہاں کسی زمانے میں کالے پانی کے خطرناک مجرم بھیجے جاتے تھے جو وہیں مرکر گل سڑ جاتے تھے، اب وہی ملک امن کا گہوارہ ہے۔“ کالا پانی تو برصغیر کی جغرافیائی اصطلاح میں جزائر انڈیمان کو کہا جاتا ہے جس کا ملائیشیا سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ملائیشیا کے شمال مغرب میں تقریبا ایک ہزار کلو میٹر دور خلیج بنگال میں واقع ہیں۔

1857ء کے مجاہد آزادی مولانا جعفر شاہ تھانیسری کو” حبس دوام بعبور دریائے شور“ کی سزا سنا کر کالا پانی بھیجا گیا تھا اور وہ سزا کاٹ کر واپس آئے تو انھوں نے کالا پانی کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھی تھی۔ بھارت کی نسبت جزائر انڈیمان میانمار (برما) کے زیادہ قریب ہیں اور ان کے جنوب میں واقع جزائرنکو بار انٹڈ نیشی جز یرہ سماٹرا کے زیادہ قریب ہیں۔

لیکن برطانوی سامراج1947ء میں برصغیر سے رخصت ہوتے وقت یہ دونوں مجمع الجزائر بھارت کو دے گیا۔ ایسے ہی مالدیپ کے شمال میں واقع جزائر لکا دیپ بھی بھارت کومل گئے۔ یادر ہے دیپ یا دویپ کے معنی ہیں جزیرہ۔ اسی لیے سری لنکا کو ماضی میں سراندیپ کہا جاتا تھا۔ ہمارے چودھری صاحب سیلانی ہیں وہ شمالی ناروے میں پہنچے جہاں آدھی رات کا سورج نظر آتا ہے۔

انھوں نے اپنے کالم میں لکھا ”میں قطب شمالی پر کھڑا تھا“۔ دراصل و ودائز و قطب شمالی ( Circle Arctic ) پر کھڑے تھے جس کا عرض بلد 66.5 درجے شمال ہے اور اسے پارکر میں تو نصف شب کا سورج نظر آتا ہے۔ دائر و قطب شمالی ناروے، فن لینڈ، سائبیریا (روس)، کینیڈا اور الاسکا ( یوایس اے) میں سے گزرتا ہے۔
رہاقطب شمالی (Pole North) تو وہ دائرہ قطب شمالی سے اڑھائی ہزار کلومیٹر مزید شمال میں ہے جبکہ قطب شمالی کا عرض بلد 90 درجے شمال ہے اور وہ محض ایک پوائنٹ ہے۔

ایک سینیئر کالم نویس نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ” خانہ کعبہ سمیت سارے حرم کو پیوند زمین کر دیا گیا اور (قرمطی )ہجر اسود اٹھا کر بحرین لے گئے۔ 90سال حج موقوف رہا۔“ عرض یہ ہے کہ کعبہ سیدنا ابراہیم کے دور سے قائم و دائم ہے اور اس کی تعمیر نو ہوتی رہی ہے مگر کسی زور آور نے اسے کبھی مسمار نہیں کیا۔ قرمطیوں نے چوتھی صدی ہجری میں حج کے موقع پر حرم میں قتل عام کیا تھا اورہجر اسود بحر ین ( مشرقی سعودی صوبہ منطقہ شرقیہ ) اٹھالے گئے تھے اور وہ بیسں سال ان کے قبضے میں رہا تھا۔

90سال حج موقوف رہنے کی بات بھی درست نہیں۔ حج مسلسل جاری رہا تھا۔ قر مطیوں کی دہشت گردی کا یہ واقعہ” محمود غزنوی کے دور “( 388-421 ھ) کا نہیں بلکہ اس سے ایک صدی پہلے 318ھ کا ہے اور حجر اسود " محمود غزنوی کی مالی پیشکش پر نہیں بلکہ عباسی خلیفہ مطیع اللہ کے دور میں 339ھ میں واپس مکہ لایا گیا تھا۔ اسی کالم میں انھوں نے لکھا کہ یہودی رومنوں سے اتنی نفرت نہیں کرتے تھے جتنی مسلمانوں سے۔

ہر طرح کے اچھے سلوک ، سہولتوں اور مراعات کے باوجود ان کی ایک بڑی تعداد فلسطین چھوڑ کر یورپ اور روس میں آباد ہوگئی۔ دراصل یہود کی جلا وطنی رومی قیصر ہیڈریان کے حکم پر 137ء میں عمل میں آئی تھی اور اس وقت وہ دنیا میں بکھر گئے تھے۔ علا و و ازیں برطانیہ نے فلسطین کا چوتھائی رقبہ یہودیوں کو اور چوتھائی مسلمانوں کو نہیں دیا تھا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اکتوبر 1947 ء میں فلسطین کو اس طرح تقسیم کیا تھا کہ سوا چھ لاکھ یہودیوں کو55 فیصد رقبہ الاٹ کر دیا گیا جبکہ ساڑھے بارہ لاکھ عربوں کے لیے 45 فیصد رقبہ چھوڑا گیا ، تاہم یہودی ریاست اسرائیل نے 1948 کی جنگ میں لڑ بھڑ کر اپنا علاقہ 78 فیصد تک بڑھالیا۔

پھر اس کے انیس برس بعد ( پندرہ برس بعد نہیں) جون 1967ء میں اسرائیل سارے فلسطین پر قابض ہو گیا۔ اور شاہ حسین نے جان بوجھ کر بیت المقدس اور غرب اردن سے پسپائی اختیار نہیں کی تھی بلکہ ارونی فوج نے فلسطین کے ایک ایک چپے کے لیے اسرائیلیوں کا جان توڑ مقابلہ کیا تھا۔ در اصل اردن کی فضائیہ نہایت کمزور تھی اور شاہ حسین بار بار صدر ناصر سے فضائی مدد مانگ رہے تھے مگر بڑھک باز ناصر نے شاہ حسین کو دھوکے میں رکھا جبکہ مصری فضائیہ اسرائیل نے 6 جون کو پہلے بلے ہی میں تباہ کر دی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

khabrain mazhaka khaiz soorat kaisay paida karti hain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 April 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.