کوڑے کی ری سائیکلنگ

ماحولیاتی آلودگی دور کرنے کا بہترین طریقہ

بدھ 18 مئی 2016

kuude Ki Aloodgi
سعدیہ:
ہمارے ہاں سہولیات کافقدان ہونے کی وجہ سے گندگی نمایاں نظر آتی ہے اب کوڑا کرکٹ کو ہی دیکھ لیجئے جس گلی محلے سے گزریں کوڑا آپ کااستقبال کرتا ہے۔ کراچی کی ہر گلی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر معمول ہے۔ جن گلیوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں وہاں سے آپ کا گزرنا مشکل ہوتا ہے اور کوڑا کرکٹ آپ کی آنکھوں کو تکلیف دیتا ہے۔

کیاآپ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ ان گلیوں کو صاف ستھرا ریکھنا چاہتے ہیں؟ شہر کے اندر ہویاشہر کے باہر تمام گلیوں کو اگر صاف رکھا جائے تو اس سے اردگرد کاماحول صاف ستھرا ہوجائے گا۔ کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہاجاتا ہے اس کی گلیوں میں لگے کوڑے کے ڈھیریاں سے گزرنے والوں کے لیے بہت بڑی مشکل ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ضلعی حکومت ان گلیوں کو صاف کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھارہی۔

پاکستان میں یہ صورت حال تشویش ناک ہے جس کی وجہ سے ہرروز کوڑا کرکٹ میں مزید اضافہ ہورہاہے۔ ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے پاکستان میں ایک ایجنسی قائم ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20ملین ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا ہوتا ہے۔ ایک دن کا حساب لگایا جائے تو 47000 ٹن بنتا ہے۔ کراچی جو ہمارا معاشی مرکز ہے صرف اس شہر سے 10,700 ٹنز کوڑا کرکٹ اکٹھا کیاجاتا ہے۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کوڑا کرکٹ کو محلے کی گلیوں اور سمندر اور کھلی جگہ پر پھینک دیاجاتا ہے جس کی وجہ سے ماحول میں آلودگی پھیلانے کا خدشہ ہوتا ہے اور لوگ بیماریوں کاشکار ہوتے ہیں۔ ایک انڈسٹری کے ذریعے خراب چیزوں کو اکٹھا کیاجاتا ہے اور دوبارہ سے نئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ہمارے لئے یہ بہت اہم بات ہے کہ اگر ہم پرانی چیزوں کو اکٹھا کریں تو ہم ان چیزوں سے نئی چیزوں متعارف کرواسکتے ہیں۔

اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کوڑا کوزمین میں دبادیاجائے تو ماحولیاتی آلودگی ہونے کاامکان ہوگا اور اگر کوڑا کرکٹ کو کھلے میدان میں پھینک دیاجائے یاآگ لگادی جائے تو ماحولیاتی آلودگی پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کو دودرجوں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔ ایک نامیاتی اور دوسرا غیرنامیاتی ہے۔ کچن کا کوڑا نامیاتی زمرے میں آتا ہے اور دوسرا جو پیپرز اور پلاسٹک اور Cansکاکوڑا غیرنامیاتی کے زمرے میں آتا ہے۔

ان سب چیزوں سے دوبارہ چیزیں بنائی جاتی ہیں اور ان کو محفوظ کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فرانس میں اس کوڑے سے بجلی پیدا کی جاتی ہے اور توانائی کے بحران پر قابو پایاجاتا ہے۔خراب چیزوں کو اکٹھا کرنے سے ماحول پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے بڑی بڑی کمپنیوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ کنٹینرز جو کہ ٹوٹی ہوئی چیزوں کو اکٹھا کرتا ہے۔

اس میں Cans، گلاس، پیپرز شامل ہیں۔ ان ساری چیزوں کو اکٹھا کرکے ان سے نئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ آسٹریلیا میں اگر لوگ کوڑا کرکٹ وکوڑا دان میں نہیں ڈالتے تو ان لوگوں کو جرمانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ شہر صاف ستھرا ہے۔ کراچی ایسا شہرہے جس میں 5فیصد کوڑاری سائیکل ہوتا ہے۔ کراچی کی ایک خاتون نے اچھا قدم اٹھایا ہے جو کہ سوسائٹی کی بہترین کیلئے ہے جو ایسی چیزیں اکٹھی کرتی ہے جو کہ استعمال نہیں ہوتیں اور جوکمپنی نئی چیزیں بناتی ہے اور ان کی چیزیں اکٹھی کرکے دیتی ہے۔

ان کاموں سے جو بھی اس خاتون کو پیسے ملتے ہیں وہ سارے پیسے امدادی کاموں میں لگاتی ہے۔ دنیا میں ایک روشن مثال ہے جس طرح باہمت عورت یہ کام کرسکتی ہے تو دوسرے لوگ کیوں نہیں کرسکتے؟ ہر شخص کو انفرادی طور پر معاشرے کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے چاہئے تاکہ ماحول خوشگوار دیکھائی دے۔ آگے جہاں تک ہوسکے کوڑا کرکٹ کوبیکار سمجھ کر پھینکا نہ جائے بلکہ کوڑا کرکٹ نئی چیزیں بنانے کیلئے استعمال کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

kuude Ki Aloodgi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 May 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.