مقبوضہ کشمیر نے اپنا کرکٹ سٹار کھو دیا

شمالی کشمیر کے ہندوارہ علاقہ میں فوج کی ایک چوکی(بنکر)کو ہٹائے جانے کے مناظر دیکھتے ہوئے لوگ کچھ دیر کے لئے جیسے سب کچھ بھول کر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے لیکن اس ”خواب“کو شرمندہٴ تعبیر کرنے میں علاقے کو ایک معمر خاتون سمیت پانچ افراد کی بلی چڑھانا پڑی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑی قربانی ہے

صریر خالد جمعہ 29 اپریل 2016

Maqboza Kashmir Ne Apna Cricket Star Kho Diya
ہندوارہ (کشمیر)سے صریر خالد:
شمالی کشمیر کے ہندوارہ علاقہ میں فوج کی ایک چوکی(بنکر)کو ہٹائے جانے کے مناظر دیکھتے ہوئے لوگ کچھ دیر کے لئے جیسے سب کچھ بھول کر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے لیکن اس ”خواب“کو شرمندہٴ تعبیر کرنے میں علاقے کو ایک معمر خاتون سمیت پانچ افراد کی بلی چڑھانا پڑی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑی قربانی ہے،ایک بہت بڑا نقصان لیکن فوج اور پولس کی اندھا دند گولیوں کا شکار ہونے والوں میں شامل نعیم قادر نامی لڑکے میں اس علاقے نے فقط ایک بچے کو ہی نہیں بلکہ ایک اُبھرتے کرکٹ اسٹار کو بھی کھو دیا ہے۔


12 /اپریل کو ایک فوجی جوان کی جانب سے 16/سال کی ایک بچی کے ساتھ مبینہ طور دست درازی کئے جانے پر ہفتہ بھر تک جاری رہے ہنگامہ کے دوران کل پانچ افراد کی موت واقع ہوئی ہے جبکہ کئی ایک شدید زخمی حالت میں اب بھی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

(جاری ہے)

یہ واقعہ محبوبہ مفتی کے ریاست کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ بننے کے محض آٹھ دن بعد ہی پیش آیا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس واقعہ کے حوالے سے ریاست کے آئیندہ کے حالات،انتخابی سیاست اور محبوبہ مفتی کے مستقبل تک مختلف چیزوں پر بڑے دلچسپ تجزئے کئے جارہے ہیں جو صحیح یا غلط ثابت ہوسکتے ہیں البتہ نعیم قادر کی موت ایک ستارے کا اُبھرتے ہی اچانک ٹوٹ کر گر جانے کے جیسا واقعہ ہے۔


سرینگر کے شمال میں قریب 75/کلومیٹر دور لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہندوارہ قصبہ کئی اعتبار سے ایک الگ اور تاریخی علاقہ ہے اور باالخصوص ہندوارہ قصبے کو سیاسی اعتبار سے بڑا سرگرم قصبہ مانا جاتا ہے۔حریت کانفرنس کے بانی لیڈروں میں شمار مقتول عبدالغنی لون کا یہیں سے تعلق ہے اور اس علاقے نے اُنہیں بڑا ساتھ دیا ہے حالانکہ وہ قتل ہونے تک کئی بار پارٹیاں اور وفاداریاں بدلتے بدلتے کبھی قید ہوئے تو کبھی وزیر بنے۔

اپنے لوگوں نے تاہم اُنہیں ہمیشہ ساتھ دیا اور اُنکے ساتھ جُڑے رہے۔یہاں تک کہ حریت کانفرنس میں شامل ہونے کے باوجودخود علیٰحدگی پسندجنگجووٴں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد ہندوارہ کے لوگوں نے اُنکے بیٹوں بلال غنی لون اور سجاد غنی لون کا بھی ساتھ نبھایا۔دلچسپ ہے کہ بلال غنی لون ”علیٰحدگی پسندلیڈر“ہیں جبکہ اُنکے بھائی سجاد غنی لون ”علیٰحدگی پسندی کا چوغا“اُتار پھینک کر اس حد تک ”روشن خیال“ ہوچکے ہیں کہ وہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اپنا بڑا بھائی قرار دے چکے ہیں۔

اسکے باوجود بھی، کہ سجاد غنی لون نے نریندر مودی کے چرنوں میں جھک کر اُن سے آشیرواد لیا اور اُنہیں فخر کے ساتھ بڑا بھائی قرار دیااور پھر بھاجپا کے اتحادی کے بطور انتخاب لڑا،ہندوارہ نے اُنکا ساتھ نبھا کر ایک طرح کی ”تاریخ“بنائی۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کی ”الگ سیاست“سے ہندوارہ اور یہاں کے ملحقہ جات کے بارے میں یہ تاثر لگا کہ یہ علاقہ باقی کشمیر سے الگ ہے اور شائد یہاں کے جذبات بھی ”الگ“ہیں۔

تاہم برسوں کے دوران پیدا ہوئے یا پیدا کئے گئے اس تاثر کو غلط ثابت ہونے میں 12/اپریل کو بارہ منٹ بھی نہ لگے۔ایک اسکولی طالبہ کے ساتھ ایک فوجی جوان کی مبینہ دست درازی کا معاملہ سامنے کیا آیا کہ پورا قصبہ یکایک اُبلنے لگا۔فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے بھی جلد ہی غیر محسوس انداز میں یہ بات واضح کردی کہ بھلے ہی اس علاقہ نے گذشتہ کئی سال سے حیرانکن سیاسی مزاج دکھایا ہو لیکن وہ اس علاقہ اور بقیہ کشمیر میں کسی قسم کا فرق کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں الگ کانوں میں بانٹنے کی کوئی وجہ دیکھتے ہیں۔

آن کی آن میں سرکاری بندوقیں آگ اُگلنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی خواب،کئی ارمان اور کئی گھروں کا مستقبل گویا جل کر راکھ ہوگیا۔آگ اُگلتی ان سرکاری بندوقوں کے راستے آنے والوں میں سے نعیم قادر نامی 22/سال کے نوجوان بھی شامل ہیں جو ایک ہونہار طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اُبھرتے کرکٹر بھی تھے جنہوں نے کسی حد تک اپنے علاقے کا نام کیا بھی تھا اور بڑے پیمانے پر اپنے علاقے کے ساتھ ساتھ پوری ریاست کا نام کرنے کے خواب بھی سجائے تھے۔


ہندوارہ قصبہ کے پُرانے طرز کے بازاروں کے عقب میں ایک تنگ گلی سے ہوتے ہوئے نعیم قادر کا کشمیر کے روایتی طرز کا مکان آتا ہے جہاں اب بھی پُرسہ دینے آنے والوں کا گویا تانتا بندھا ہوا ہے۔مایوسی اور ماتم کی چادر میں لپٹے ہوئے اس مکان کے اندر نعیم کے خواب ابھی دفن نہیں ہوئے ہیں بلکہ اُنکی بہنیں سلیقے سے سجائی ہوئیں نعیم کی حاصل کردہ اسناد و تمغے دکھاتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ آس پاس ہی کہیں دیکھ رہا ہے۔

نعیم کی غم سے نڈھال بہنیں یہ اسناد و تمغے کچھ اس طرح دکھاتی ہیں کہ جیسے یہ کہہ رہی ہوں کہ وہ تو کوئی اور تھا اور کچھ اور کے لئے تھا …!کئی ٹورنامنٹوں میں امتیازی کارکردگی کے مظاہرہ اور پھر بیرون ریاست کوچنگ کے لئے منتخب ہونے سے متعلق مقامی اخباروں میں شائع شدہ رپورٹوں کے تراشے دکھاتی ہوئی نعیم کی بہنیں رقعت و شکایت بھرے انداز میں کہتی ہیں”یہ دیکھئے ہمارا بھائی کون تھا،کرکٹ اپسکا خواب تھا اور وہ اس میں بہت مشہور ہونے کی جستجو میں تھا“ جبکہ اُنکی والدہ کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔

ایک ٹورنامنٹ کے دوران مردِ میدان قرار پانے کی سنہری رنگت کی سند دکھاتے ہوئے نعیم کی بڑی بہن منیرہ کہتی ہیں”میرا بھائی اس سب کے لئے جیتا تھا،کرکٹ اُسکی دنیا تھی لیکن …“۔
نعیم قادر کے خاندان والوں اور اُنکے پڑوسیوں کے مطابق نعیم بچپن سے ہی کرکٹ کے بڑے شوقین تھے اور پھر اُن میں پوری بر صغیر میں جادو بن کرسر چڑھ کر بولنے والے اس کھیل کھیلنے کے گھن بھی تھے۔

اُنکے ایک دوست نے بتایا کہ نعیم اسکول میں بھی اور اسکول سے باہر بھی بس کرکٹ ہی کھیلتے رہتے تھے ۔ اُنکے ایک رشتہ دار نے بتایا”یوں تو وہ مقامی طور ہونے والے سبھی ٹورنامنٹوں وغیرہ میں نام کما ہی چکے تھے لیکن جب اُنہیں انڈر19/ٹیم کے لئے بیرون ریاست کھیلنے اور کرکٹ کی کوچنگ لینے کے لئے منتخب کیا گیا تو مقامی طور وہ گویا آفریدی ہوگئے“۔

وہ کہتے ہیں کہ اس انتخاب کے بعد نعیم کو ایک پیشہ ور کرکٹر کے بطور دیکھا جانے لگا جبکہ اُنکے والدین اُنہیں پیار سے (سُنیل)گواسکر کہکر پکارنے لگے۔نعیم کے ایک ہم جماعت نے بتایا”جس ایس پی(پولس)کے سامنے یا جس کی نگرانی میں سرکاری فورسز نے گولی چلا کر نعیم کا قتل کیا خود اپنہوں نے بھی ایک میچ کے دوران نعیم کو بہتر کھیل کے لئے نوازا تھا اور اُنکے ساتھ تصویر کھینچوائی تھی“۔


بٹ خاندان کا دعویٰ ہے کہ 12/اپریل کو جب قصبہ میں ہنگامہ ہوا تو نعیم اُسوقت با الکل اپنے گھر میں موجود تھے۔نعیم کی بہن منیرہ کا کہنا ہے کہ نعیم تب گھر میں تھے کہ جب باہر خوفناک دھماکے ہونے لگے،گولیاں چلیں اور پریشان کردینے والا شور مچا۔وہ کہتی ہیں”در اصل پولس اور فوج نے لوگوں کو بھگانے کے لئے اشک آور گیس کے گولے چھوڑنے کے ساتھ ساتھ گولیاں چلانا بھی شروع کی تھیں جنکی آوازیں ہمیں گھر میں کوفزدہ کر گئیں،نعیم اسکے بعد گھر سے نکلا تھا“۔

یاد رہے کہ جب ایک طالبہ کے ساتھ ایک فوجی کی مبینہ چھیڑ خوانی کی خبر جنگل کی آگ ہوگئی تو قصبے کے مرکزی چوک میں،جہاں اس سے قبل بھی ایکساتھ کئی کئی لوگ مارے جاتے رہے ہیں،لوگوں کا جم غفیر لگ گیا جسے تتر بتر کرنے کے لئے فوج و پولس نے طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا۔یہ اسی بھیڑ کو ہٹانے کے لئے فوج اور پولس کی جانب سے چلائی گئی گولیوں اور گولوں کی آوازیں تھیں کہ جو نعیم نے اپنے گھر میں رہتے ہوئے سُنی تھیں اور غالباََ وجہٴ کشیدگی جاننے کا تجسس اپنہیں گھر سے باہر لے گیا“۔

بتایا جاتا ہے کہ تب تک سرکاری فورسز کم از کم ایک نوجوان ،محمد اقبال،کی جان لی چکی تھیں۔
نعیم کے بھائی ظہور احمد،جو سرینگر کی ایک خبررساں ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہیں،کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے قصبے میں حالات خراب ہوتے دیکھ کر نعیم کو گھر سے اُنکا کیمرہ لانے کے لئے کہا۔چونکہ واردات گھر کے قریب ہی ہوئی تھی لہٰذا نعیم نے جلد ہی بھائی کو کیمرہ لادیا۔

ظہور کا کہنا ہے”میں نے نعیم سے کیمرہ لے لیا اور اس دوران میں نے اپنے ماموں کو سبزی بھرا تھیلا نعیم کو تھما کر گھر لے جانے کے لئے کہتے ہوئے دیکھا اور میں تصاویر لینے لگا تاکہ ایجنسی کو بھیجدوں“۔ ظہور پر اُسوقت پہاڑ توٹ پڑا کہ جب وہ قصبے کے اسپتال میں زخمیوں اور نعشوں کی تصویریں لینے گئے اور اُنہیں پتہ چلا کہ سفید کپڑے میں لپٹا ہوا خوداُنکا اپنا بھائی نعیم بھی ہے جو ابھی ابھی ترکاری لیکر گھر کو ہو لئے تھے۔

ظہور کہتے ہیں”میں جب اسپتال پہنچا مجھے پتہ چلا کہ یہاں کئی زکمیوں کے علاوہ دو لوگوں کی نعشیں ہیں،جونہی ایک ملازم نے ایک نعش کے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی اور مجھ پر پہاڑ آگرا…یہ نعیم تھا میرا بھائی“۔
ظہور کا کہنا ہے کہ اُنکے جن ماموں نے نعیم کو ترکاری لیکر گھر کو روانہ کیا تھا اُنہوں نے خود محمد رفیق نامی ایک پولس والے کو نعیم پر گولی چلاتے دیکھا ہے۔

ظہور کی مانیں تو اُنکے ماموں نے تو رفیق سے نعیم پر نشانہ نہ باندھنے کی منتیں بھی کی ہیں لیکن اپنے ہاتھ میں سے اشک آور گیس چھوڑنے کی گن پھینک کر ساتھی پولس والے کے ہاتھ سے رائفل چھین کر رفیق نے یہ دیکھے بنا کر وہ ایک گھر کے چراغ کو بُھجا رہا ہے گھوڑا دباکر نعیم کو ڈھیر کر دیا۔رفیق کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ سپاہی سے بھی نچلی سطح پر بھرتی ہونے کے بعد قریب بیس سال سے قصبے میں ہی تعینات ہے اور جنگجو مخالف کارروائیوں مین پیش پیش رہنے کی وجہ سے تیز رفتار ترقی پاتے پاتے اپنے کندھے پر ایک ستارہ لگوانے میں کامیاب رہا ہے۔

نعیم کے ایک پڑوسی کا کہنا ہے”ہندوارہ میں برسوں سے علیٰحدگی پسندانہ سرگرمیاں نہیں ہوئی تھیں،موجودہ ایس پی نے یہاں کے لڑکوں میں بڑا ڈر بٹھا رکھا تھا اور آج جب لڑکوں نے ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی ہونے کی خبر سنکر غصہ دکھایا تو پولس کو ایسا لگا کہ یہاں کی خفتہ غیرت جاگنے لگی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی مسئلے کو انتہائی زیادہ طاقت سے دباکر کئی قتل کئے گئے“۔

وہ کہتے ہیں”ایسا لگتا ہے کہ پولس وہ کوف بٹھائے رکھنا چاہتی تھی کہ جسکے چلتے گذشتہ کئی برسوں سے ہمارا علاقہ بقیہ کشمیر سے کچھ مختلف نظر آرہا تھا“۔
نعیم فقط کرکٹ میں ہی کھلاڑی نہیں تھے بلکہ اُنکے لواحقین اور تعلق داروں کی مانیں تو وہ سائنس کے ایک ہوشیار اور ہونہار طالبِ علم بھی تھے۔اُنکے ایک رشتہ دار نے بتایا”نعیم کو فارسٹری کی تعلیم پڑھنے کے لئے دہرادون جانا تھا اور اُنہوں نے یہ سوچا تھا کہ وہاں جاکر کرکٹ کی مزید کوچنگ لینگے اور اپنی صلاحیتوں میں مزید نکھار لائینگے…بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کا اُنکا بڑا خواب تھا“۔

اُنکے ایک اور پڑوسی پرویز تانترے کہتے ہیں کہ نعیم ایک اچھے طالب علم تھے اور بہترین کرکٹر ہونے کی وجہ سے علاقے میں خاصے مشہور ہونے کے باوجود بھی ملنسار اور منکسرالمزاج تھے۔وہ کہتے ہیں”ہم نے ایک بہت اچھے کرکٹر اور ایک بہترین نوجوان کو کھو دیا ہے“۔اُنکا کہنا ہے کہ نعیم کو لیکر خود اُنہی کو نہیں بلکہ پورے علاقے کے خواب تھے اور وہ اُنہیں ایک دن دنیائے کر کٹ کے موجودہ ستاروں کی ہی طرح بین الاقوامی سطح پر کھیلتے دیکھنا چاہتے تھے۔

انڈر19/کے تحت بیرون ریاست کئی ٹورنامنٹوں میں شریک رہ چکے ایک نوجوان کرکٹر نے،اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا”میں نعیم کو جانتا ہوں ،وہ اور میں ایک بار ایک ساتھ باہر گئے تھے ،میں نے اُنہیں کھیلتے دیکھا ہے وہ بہت اچھی ٹکنیک اور اسٹائل سے کھیلتے تھے،وہ بہت ملنسار بھی تھے“۔
نعیم کی بہن منیرہ کا کہنا ہے کہ وہ اُنکی بڑی بہن ہونے کے ساتھ ساتھ اُنکی دوست بھی تھیں اور دونوں میں رازونیاز کی باتیں ہوتی تھیں۔

اُنہوں نے کہا کہ نعیم اُنسے ہر بات بانٹتے تھے ۔وہ کہتی ہیں”نعیم کی پوری دنیا کرکٹ سے متعلق اُنکے خوابوں کے ارد گرد گھومتی تھیں اور میرے خیال میں وہ کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے“۔منیرہ کا تاہم کہنا ہے کہ نعیم پاس کی ہی کسی لڑکی کی محبت کے اسیر تھے اور اُنہیں جی جان سے چاہتے تھے“۔نعیم کے فیس بُک اکاونٹ کی سرسری سیر پر پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی کرکٹ اور اُنکی نا معلوم محبوبہ کے عشق میں یوں گرفتار تھے کہ انکی زلفیں زنجیروں کی طرح اُنہیں جکڑے ہوئے تھیں اور وہ باقی دنیا و مافیھا سے لاتعلق سے۔

مرنے سے کچھ دن قبل اُنہوں نے بڑے رومانوی انداز میں اپنے فیس بُک اسٹیٹس یوں لکھا تھا”میں تم سے محبت کرتا ہوں،مرتے دم تک تم سے محبت کرتا رہوں گا اور اگر اسکے بعد بھی کوئی زندگی ہے تو اس میں بھی تمہیں محبت کروں گا“۔
حالانکہ پولس اور فوج نے ہندوارہ واقعہ میں کئی لوگوں کو گولیوں سے بھون دینے کی ”جوازیت“کے بطور یہ کہا ہے کہ سنگبازی اور ہلڑ بازی کو روکنے کے لئے کی گئی کارروائی میں یہ لوگ مارے گئے ہیں اور نئی دلی کی ٹیلی ویژن چینلوں نے ان سرکاری ”دلیلوں“کو مزید وزن دار بنانے کی کوشش کی ہے تاہم مقامی لوگ اس سب کو جھوٹ بولتے ہوئے نکارتے ہیں۔

اُنکا کہنا ہے کہسرکاری فورسز نے جب محض دو ایک سو لوگوں کے جم غفیر کو پُر امن طور ہٹائے جانے کے سبھی امکانات کے باوجود راست فائرنگ کرکے قتل کئے تب جاکر ردِ عمل میں سنگبازی ہوئی۔ نعیم کی زندگی کو کھنگالنے بلکہ اُنکے خاندان کی سیاسی وابستگیوں سے متعلق جاننے پر نعیم قادر کی حد تک تو سرکار کا یہ دعویٰ بے وزن معلوم ہوتا ہے کہ وہ تشدد کرتے ہوئے مارے گئے۔

نہ صرف یہ کہ نعیم کرکٹ اور اپنی محبت تک محدود رہتے ہوئے اپنے خوابوں کی تکمیل میں دہرادون کا رختِ سفر باندھ چکے تھے بلکہ اُنکا ایک بھائی اب بھی پولس کی نوکری میں ہے جبکہ اُنکے قریبی رشتہ دار کو ”بھارت نواز“نیشنل کانفرنس کے ساتھ تعلق کے ”جُرم“میں علیٰحدگی پسند جنگجووٴں نے 1996میں قتل کردیا تھا۔لیکن کیا یہ خاندان اب بھی کشمیر کی علیٰحدگی پسند سیاست اور اس حوالے سے ریاست کی اکثریت کے جذبات سے خود کو لاتعلق رکھ پائے گا؟نعیم کے ایک پروسی نے اُن کا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا کہ نعیم کے مارے جانے کے دو ایک روز بعد جب علاقے میں سرکاری فورسز پر سنگبازی ہورہی تھی تو نعیم کی بہن ان لڑکوں سے نعیم کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے کہہ رہی تھیں۔

اُنہوں نے کہا”وہ بیچاری تو پاگلوں کی طرح خود بھی پتھر اُٹھانے کی کوشش کر رہی تھی، آخر انہیں ریاست سے وفاداری کا صلہ اتنے بڑے بلکہ کبھی نہ بھرے جاپانے والے گھاوٴ سے جو دیا گیا ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Maqboza Kashmir Ne Apna Cricket Star Kho Diya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 April 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.